کشمیر ۔ علاقے (4)۔۔وہاراامباکر

ریاستِ جموں و کشمیر 1846 میں قائم ہوئی اور 1952 میں تحلیل ہوئی۔ رقبے کے لحاظ سے یہ برٹش انڈیا کی سب سے بڑی نوابی ریاست تھی۔ اور یہ نوابی ریاستوں میں سے حاصل کرنے کے لئے سب سے بڑا پرائز تھا۔ اس کا کل علاقہ 84,471 مربع میل تھا جبکہ اس میں سے سب سے اہم پچاسی میل لمبی اور پچیس میل چوڑی 6,000 مربع میل رقبے کی وادی کشمیر تھی۔ بڑے پہاڑوں سے گھرا ہوا علاقہ اپنی خوبصورتی اور شہرت کی وجہ سے سیاحوں کے لئے پرکشش تھا۔ پاکستانیوں کی توقع تھی کہ یہ مسلمان اکثریت ہونے کی وجہ سے پاکستان کے حصے میں آ جائے گا۔ بھارتی لیڈرشپ نے اسے حاصل کرنے کے لئے اگست 1946 سے کام شروع کر دیا تھا۔ کشمیر کی ہندو اقلیت پنڈت کہلاتی تھی۔ انہی میں سے ایک پنڈت موتی لال نہرو انڈین کانگریس کے دو بار صدر بنے۔ ان کے بیٹے جواہر آزادی ہند کی تحریک کے اہم راہنما تھے۔ ان کی اس علاقے سے نہ صرف جذباتی حد تک ذاتی وابستگی تھی بلکہ دوسرے راہنماوٗں کے مقابلے میں یہاں کے حالات اور سیاست سے زیادہ واقف تھے۔ بھارتی لیڈرشپ نے اس کو حاصل کرنے کے لئے اگست 1946 سے کام شروع کر دیا تھا۔
اس وقت تک اس ریاست کے کشمیر کے علاوہ دوسرے علاقے زیادہ جانے پہچانے نہیں تھے۔ اور یہ اس حد تک تھا کہ اگرچہ اس ریاست کے تمام مہاراجہ جموں سے تعلق رکھتے تھے لیکن پھر بھی اس حکومت کو کشمیر دربار کہا جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لداخ بدھ مت اکثریت کا علاقہ تھا۔ یہ الگ ریاست ہوا کرتی تھی جو ایک گیالپو (بادشاہ) کے تحت تھی۔ اس کو وسطی ایشیا کے سکوپا منگول سے خطرہ تھا۔ اس نے سترہویں صدی کے آخر میں مغلوں سے دفاع کے لئے مدد طلب کی تھی اور انہیں شکست دی تھی۔ بدلے میں یہ مغلوں کو خراج دیا کرتے تھے۔ 1842 میں راجہ گلاب سنگھ نے آٹھ سو سال سے جاری گیالپو بادشاہت ختم کر دی اور یہاں پر گورنر مقرر کر دیا۔ لداخ اور ہمسایہ بلتستان کی زبان اور ایتھنک پس منظر میں مماثلت رہی ہے اور ان کے مضبوط تعلقات تبت سے تھے۔ لداخ کو چھوٹا تبت بھی کہا جاتا تھا۔ بلتستان کے شمال اور مغرب میں مشہور مقام گلگت تھا جو پولو کے کھیل کے لئے مشہور تھا۔ (ہر جولائی کو شندور میں 12,200 فٹ کی بلندی پر گلگت اور چترال کی ٹیموں میں سالانہ پولو میچ 1936 سے کھیلا جاتا رہا ہے)۔
لداخ، بلتستان اور گلگت وسطی ایشیا سے پنجاب کے درمیان قدیم تجارتی راستوں پر واقع تھے۔ دو ہزار سال پرانے اس راستے کو انیسویں صدی میں سلک روٹ کا نام ملا۔ یہ “راستہ” ایک نیٹ ورک تھا جس میں دشوار گزار راستے اور سڑکیں تھیں جن میں تجارتی قافلہ سفر کرتے تھے۔ لوٹ لئے جانے کا خوف رہتا۔ اس راستے پر نہ صرف سامان بلکہ آئیڈیا بھی سفر کرتے تھے۔ چین میں شیان سے وسطی ایشیا، برِصغیر، فارس اور بحیرہ روم تک پھیلا تھا۔ برِصغیر میں ٹیکسلا سے کاشغر تک ترکستان سے ایک راہ تھی۔ ایک اور راستہ ٹیکسلا سے خیبر پاس کے ذریعے بلخ اور واخان کی پٹی سے کاشغر جاتا تھا۔ مغلیہ دور میں حاجی اس راستے پر مکہ کو سفر کرتے تھے۔ کاشغر کے حکمران نے یہاں پر 1667 میں حج کے لئے سفر کیا تھا۔ کپڑے، مصالحے، افیون اور ہارڈوئیر چین جایا کرتا تھا۔ چائے، ریشم، قالین، سونا، چاندی اور حشیش چین سے آیا کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریاست کے دو “کمتر” حصے جموں اور مظفر آباد (اب آزاد کشمیر) تاریخی، جغرافیائی، کلچرلی اور معاشی طور پر پنجاب سے گہرا تعلق رکھتے تھے۔ ریاست کی تخلیق سے قبل، جموں کا علاقہ عملی طور پر بڑے پنجاب کی ایکسٹنشن تھا۔ اس میں پونچھ کی جاگیر بھی شامل تھی جس کا زیادہ حصہ آزاد کشمیر میں آیا۔
کشمیری تہذیب قدیم رہی ہے۔ قدیم کیلنڈر سپتریشی سموت کشمیر سے ہے۔ کشمیری اور دوسرے علاقوں کے پرانے تجارتی، ثقافتی اور معاشی روابط تھے۔ کشمیری اشرافیہ اور ہمسایوں کے درمیان شادیاں عام تھیں۔ روایتی دشمنیاں بومبا اور خاہکا قبائل سے تھیں۔ (تقدیر کی ستم ظریفی یہ کہ ان قبائل کو قابو کرنے والے بھی مہاراجہ گلاب سنگھ تھے)۔
یونانیوں نے اس علاقے کو کاسپیریا لکھا تھا۔ چینی، رومی اور تبت والے اس علاقے سے واقف تھے۔ کچھ کشمیری بادشاہ چین کو خراج دیتے رہے ہیں۔ کچھ کشمیری فاتحین نے ٹیکسلا تک کا علاقہ فتح کر کے سلطنت یہاں تک پھیلائی ہے۔ پنجاب کے کچھ علاقوں پر حکومت کی ہے۔ سب سے بڑی کشمیری سلطنت کرکوٹا خاندان کے لالیلادیتا مکتاپیدا کی آٹھویں صدی میں رہی جو یہاں کی تاریخ کے مشہور جنگجو تھے۔ یہ سلطنت وسطی ایشیا، تبت، پنجاب اور گجرات تک پھیلی تھی۔ اننت ناگ میں مرتند مندر کا کھنڈر اس وقت کا آرکیٹکچر ماسٹر پیس تھا۔ سب سے طاقتور مسلمان حکمران سلطان شہاب الدین تھے جو 1354 سے 1373 تک رہے۔ ان کی سلطنت میں ترکستان کا کچھ حصہ، پنجاب، سندھ کا حصہ، مشرقی افغانستان، خیبر پختونخواہ، شمالی بلوچستان جموں اور کشمیر تھا۔
لیکن تاریخ میں زیادہ وقت کشمیری سلطنت وادی تک محدود رہی۔ اس کی وجہ جغرافیہ تھی۔ اور اس تنہائی کی وجہ سے اس کا منفرد کلچر ڈویلپ ہوا۔ اس تک رسائی کے چھبیس درے تھے جن میں سے زیادہ تر کے کھلنے کا انحصار موسم پر ہوتا تھا۔ برفباری ان کو بند کر دیا کرتی۔ اکیس دسمبر کے بعد ستر دن کی سردی تین حصوں میں تقسیم کی جاتی (چلائی کلاں کے چالیس روز، چلائی خرد کے بیس اور چلائی بچہ کے دس روز)۔ اس سخت موسم کی مشکلات سے زیادہ تر انڈین اور پاکستانی واقف نہیں۔
برٹش اور ڈوگرہ راج نے یہاں کے رابطے 1880 کی دہائی میں ڈویلپ کئے۔ 1890 تک راولپنڈی سے براستہ مری اور مظفر آباد، سری نگر تک وادی جہلم کی سڑک تعمیر ہو چکی تھی جس پر گاڑیوں کی آمدورفت ہو سکتی تھی۔ یہ تمام سال کھلی رہتی تھی۔ لینڈسلائیڈ گھنٹوں یا چند دن سے زیادہ راستہ نہیں روکتی تھی۔ دوسرا راستہ جموں کی طرف بنی ہال پاس سے عام ٹریفک کے لئے 1922 میں کھلا۔ اس وقت تک جموں شہر کو سیالکوٹ سے براستہ ریلوے منسلک کیا جا چکا تھا۔ سری نگر تک ریلوے لائن لے جانا کا منصوبہ 1891 میں بنایا گیا۔ یہ مشکل پراجیکٹ تھا جو جزوی طور پر 2009 میں مکمل ہوا۔ اور تکمیل تک 2018 میں پہنچا۔
کشمیر میں تاریخی زیادہ تر سفر پیدل کیا جاتا رہا ہے یا خچر پر۔ پہیے کی آمد انیسویں صدی کے آکر میں ہوئی۔ گلگت اور لداخ میں 1941 تک پہیے والی گاڑی نہیں پہنچی تھی۔ ٹیلی گراف انیسویں صدی کے آکر میں پہنچا۔ یہاں پر پہلا سکول 1881 میں سری نگر میں کھلنے والا کشمیر مشن سکول تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply