صنفِ نازک کے متعلق ہماری ذہنیت۔۔۔مرزا شہباز حسنین بیگ

عنوان پر نہ جائیے۔عورت بھی مرد کی طرح مضبوط اور توانا اک جیتا جاگتا وجود ہے۔مگر،سمجھ نہیں آتا صنف نازک کا لفظ کس ذہنیت کے تحت رائج کیا گیا۔ہمارے معاشرے میں خواتین کو نازک اندام اور کمزور تصور کر کےاسے عضو معطل بنا دیا گیا ہے ۔خواتین کو عمومی طور پر ایک ہی زاویہ سے دیکھنے کا چلن عام ہے،اور اس چلن میں عمر کی کوئی تخصیص نہیں ۔نوجوان ،جوان اور بوڑھے سب ہی خواتین کو مخصوص زاویہ نگاہ سے دیکھنے کے بعد پرکھنے کے جنون میں مبتلا ہیں ۔اکثریت اسی مرض کا شکار ہے ۔

عرف عام اس مرض کو” پوہنڈی” کہا جاتا ہے۔اس مرض میں مبتلا لوگ ہر جگہ موجود ہیں۔بس سٹاپ، کالجز کے مین گیٹ سے لے کر گلی کی نکڑ تک، یہ مخلوق خواتین کو عدم تحفظ کا احساس دلانے میں مصروف رہتی ہے۔اسی عدم تحفظ کے کارن خواتین اور خاص طور پر لڑکیاں شدید ترین خوف میں زندگی گزارتی ہیں ۔برسوں پرانا واقعہ آج بھی نقش ہے۔سردیوں کی شام تھی، میں اور میرا دوست اپنے گائوں جانے والی آخری بس میں سوار ہوئے۔یہ بس مغرب کی نماز کے بعد چلتی تھی ۔دسمبر کا مہینہ تھا شاید ۔دسمبر میں ویسے ہی غروب آفتاب کے بعد تاریکی کا راج ہوتا ہے۔بس میں مسافروں کی آمد جاری تھی۔چند نشستیں باقی تھیں۔
اچانک نظر اٹھی تو دیکھا کہ دو نوجوان لڑکیاں ساتھ والی نشست پر بیٹھ رہیں تھیں۔مگر  ان کی آنکھوں اور چہرے کے تاثرات سے خوف صاف ظاہر ہو رہاتھا۔سہمی ہوئیں خوفزدہ ۔میرے دل میں اک لہر سی اٹھی۔ دل چاہا کہ ذرا پوچھ لوں کہ معاملہ کیا ہے۔مگر پھر سوچا کہ ایسا نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں ۔کیونکہ ہمارے معاشرے میں کسی انجان لڑکی سے بات کرنے پر بھی قیافہ شناسی شروع ہو جاتی ہے ۔ان پوہنڈی کے مریضوں نے ہر انسان کو منفی سوچ میں مبتلا کر دیاہے۔کوئی شخص لمحہ بھر کے لیے بھی اس بات کو قبول کرنے کو تیار نہیں،کہ اک نوجوان لڑکا اک نوجوان لڑکی سے پاکیزگی پر مشتمل بات کر سکتا ہے۔خواہش کے باوجود گفتگو کرنے کی ہمت نہ ہو سکی۔بس چلنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔کچھ خرابی تھی ۔کفرٹوٹا خدا خدا کر کے ۔بالآخر بس اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئی ۔دوست سے گپ شپ لگاتے ہوئے بھی ذہن میں لڑکیوں کے اضطراب اور پریشان زدہ چہرے سامنے آرہے تھے۔سفر جاری تھا اور بس کی کھڑکی سے باہر ہولناک تاریکی کا راج ۔بس کےاندر گھمبیر سکوت، مسافروں کی اکثریت نے آنکھیں موندرکھی تھیں۔اچانک اس خاموشی میں مجھے سسکیاں سنائی دیں ۔

بے اختیار میری نظر ان لڑکیوں کی نشست کی جانب اٹھیں۔میرا گمان درست تھا ۔لڑکیاں رو رہی تھیں۔میں نے تمام احتیاط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے۔گفتگو کا آغاز کیا۔میں نے کہا اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھے بتائیں آخر مسئلہ کیا ہے۔مجھے آپ اپنا بھائی سمجھ کر بتائیں ۔کیا بات ہے؟میں نے دھیمے لہجے میں بات کی مگر ساتھ والی نشست پر براجمان اک ادھیڑ عمر کی خاتون نے زہر ناک نظروں سے گھورنا شروع کر دیا۔خیر انہوں نے بتایا کہ ہم نے جھاوریاں سے دور اک چھوٹے سے گائوں میں جانا ہے ۔اور اب وہاں جانے کے لیے ہمارے علاوہ کوئی مسافر نہیں ہوگا۔ہم کیا کریں ہم ہاسٹل میں مقیم تھیں ۔بھائی نے ہم کو لینے کے لیے آنا تھا۔ہم بھائی کے انتظار میں رہیں ۔مگر وہ پہنچ نہیں سکا۔آخری بس تھی سو اس میں سوار ہو گئیں ۔اب کیا ہوگا؟ میں نے تسلی دی فکر نہ کریں میں اور میرا دوست آپ کو گھر بحفاظت پہنچا دیں گے۔شومئی قسمت جھاوریاں سے دو کلو میٹر پہلے بس خراب ہو گئی۔ڈرائیورنے کہا یہاں سے پیدل چلے جائیں ۔ہم ساتھ ساتھ پیدل چلنے لگے۔دونوں لڑکیاں کشمکش کا شکار تھیں۔شاید سوچ رہیں تھیں کہ ہم پر اعتبار کریں کہ نہ کریں ۔پیدل چلتے چلتے ہم جھاوریاں پہنچ گئے۔بس سٹینڈ پر ہو کا عالم طاری تھا ۔فقط ایک ٹیکسی والا تھا ۔میرا دوست اس سے کرایہ طے کرنے لگا کہ اچانک اسی ادھیڑ عمر خاتون نے مجھے بازو سے پکڑ کر دھکا دیا کہ لڑکیوں کو کدھر لے کر جا رہے ہو۔ساتھ میں برا بھلا کہنا شروع کردیا۔باقی لوگ بھی جمع ہو گئے۔عورت باقاعدہ چلانے لگی۔میں نے ہجوم کی طرف دیکھا اور کہا کہ میری بات تو سن لیں۔ان لڑکیوں نے آگے جانا ہے اکیلی ہیں۔پریشان ہیں۔

ہم تو ان کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔بخدا ،من میں پاکیزگی اور نیکی کا جذبہ ہے ۔اور کچھ بھی نہیں ۔مگر وہ عورت خاموش ہونے کو تیار نہیں تھی ۔ٹیکسی کا ڈرائیور بھی یقین دہانی میں مصروف تھا ،کہ ان لڑکوں کو جانتا ہوں۔اچھے کردار کی ہیں ۔میں نے عورت کو کہا ٹھیک ہے آپ ان لڑکیوں کو گھر پہنچا دیں۔اتنا کہنے کی دیر تھی خاتون جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔کہنے لگی میں کیوں آدھی رات کو ساتھ جائوں۔میرے بچے منتظر ہوں گے۔میں نے کہا پھر محترمہ اتنا شور نہ کریں ۔اعتبار کریں آپ بھی ساتھ آجائیں لڑکیوں کو پہنچا کر ہمارے ساتھ واپس آجائیں ۔مگر وہ راضی نہیں ہوئی، خیر ہجوم میں سے ایک بزرگ راضی ہو گئے۔جبکہ لڑکیوں نے ہمارا شکریہ ادا کیا۔میں آج بھی سوچتا ہوں کہ ہم غلط نہیں تھے ۔ہم بھلائی کرنا چاہتے تھے پورے خلوص کے ساتھ ۔اس کے باوجود ہمارا تماشا کیوں لگ گیا۔تو وجہ صاف نظر آئی کہ خواتین کو بلاوجہ تنگ کرنے والوں نے پورے معاشرے میں منفی سوچ کو پروان چڑھا دیا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب کوئی خواتین کی مدد کرنا چاہے تو پہلے اپنی پاک دامنی کا ثبوت پیش کرے ورنہ سر عام زلیل و رسوا ہو ۔۔پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ۔ابھی معاشرے میں مکمل شر کا راج نہیں ۔خیر کا پہلو بھی موجود ہے۔خواتین کے متعلق ذہنیت کو بدلنے کے لیے اپنے بچوں کی تربیت میں والدین کو اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا۔بچوں کو بتایا جائے کہ بیٹا عورت کو عزت و احترام دیں۔ان کا وجود کمزور اور ناتواں نہیں ،اور بیٹیوں کو احساس کمتری کا شکار نہ ہونے دیا جائے ۔بتایا جائے کہ تم کمزور نہیں خود اعتمادی پیدا کی جائے۔ مضبوط اعصاب کا حامل بنایا جائے۔لڑکیوں کو اس قدر اعتماد دیا جائے کہ وہ خوف زدہ نہ ہوں بلکہ گندی ذہنیت کے مریضوں کے دانت کٹھے کر سکیں ۔

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply