حضرت عمر فاروق رض۔۔توقیر ماگرے 

آنحضرت ﷺ کو اللہ رب العزت نے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبوث فرمایا اور آپ ﷺ کو ایسا بلند مرتبہ اور ایسا عظیم رتبہ عطا فرمایا جو نہ آپ ﷺ سے پہلے کسی کو بصیب ہوا اور نہ آپﷺ کے بعد کسی کو نصیب ہوگا۔ آپ ﷺ کی ازواج مطہرات رضہ اور آپکے صحابہ کرام رضہ کا انتخاب بھی اللہ نے خود کیا۔ یہی وجہ کہ ان ہستیوں کے رتبے و فضیلت کو بیان کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ جو کچھ ان عظیم ہستیوں کے بارے میں لکھا جاتا ہے وہ ان سے محبت کا اظہار کرنے کی حقیر سی کوشش ہوتی ہے کیونکہ ان سے عقیدت رکھنے کا حکم ہمارے آقا محمد رسول اللہ ﷺ نے دیا ہے۔ ایسی ہی مبارک ہستیوں میں ایک شخصیت مسلمانوں کے خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رض کی ہے۔

آپ رض واقعہ فیل سے تیرہ سال قبل 584ء میں پیدا ہوئے۔ والدین نے آپکا نام عمر رکھا۔ تاریخ کی کتابوں میں آپ رض کے بچپن کے حالات و واقعات بہت کم ملتے ہیں، چند جگہوں پر یہ روایت پائی جاتی ہے کہ آپ رض اپنے والد کے اونٹ چرایا کرتے تھے، اسکے علاوہ اپ رض نے فن سپہ گیری پر بھی مہارت حاصل کی۔ حضرت عمر رض کا قد لمبا اور رنگ سفیدی مائل تھا، آپ رض مضبوط بدن کے مالک تھے، آپ رض تمام آدمیوں میں اونچے معلوم ہوتے تھے۔ حصرت عمر رض کے خاندان میں سب سے پہلے آپکی بہن فاطمہ رض اور بہنوئی سعید رض نے اسلام قبول کیا۔ آپ رض کی فضیلت بیان کرنے کے لئے یہ ایک بات ہی کافی اہمیت کی حامل ہے کہ آپ رض کو حضور اکرم ﷺ نے اللہ تعالی سے خاص طور پر مانگ کے لیا۔

حضرت عمر بن خطاب رض کی بہادری و شجاعت کا ڈنکا سارے عرب میں بجتا تھا۔ آپ رض کے قبول اسلام سے مسلمانوں کو بہت فائدہ ہوا، جہاں کفار کے خوف سے مسلمانوں کیلئے چھپ کے نماز پڑھنا مشکل تھا حضرت عمر رض کے اسلام لانے کے بعد کعبہ میں سرعام نماز ادا کی۔ قبول اسلام کے بعد تمام غزوات میں شرکت کی۔ آپ رض کے رعب و دبدبے کا یہ عالم تھا کہ کفار کے بڑے بڑے پہلوان آپکا سامنہ کرنے سے گھبراتے تھے۔ ہجرت کے موقعے پر آپ رض کمال بہادری کا مظاہرہ کیا جب سارے مسلمان کفار کے شر سے بچنے کیلئے خاموشی سے ہجرت کررہے تھے مگر آپ رض کی غیرت نے یہ گوارہ نہ کیا، آپ رض نے تلوار ہاتھ میں لی کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمعے کو مخاطب کرکے کہا کہ تم میں سے اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ اسکی بیوی بیوہ ہوجائے، اسکے بچے یتیم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دیکھ لے۔ اسکے بعد کسی کافر کی یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ آپ رض کا راستہ روکنے کا سوچے بھی۔

بارگاہ رسالت ﷺ سے آپکو “فاروق” کا لقب ملا۔ آپ ان چند خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی تھی۔ آپ رض کا ایمان اس قدر قوی تھا کہ جس راستے سے آپ رض کا گذر ہوتا شیطان وہ راستہ چھوڑ کر بھاگ جاتا (بخاری و مسلم)۔ فکر اور ذہانت کی بلندی میں آپکا کوئی ثانی نہ تھا، جو بات حضرت عمر رض زبان مبارک سے ادا کرتے اللہ پاک وہ قرآن مجید میں نازل فرمادیتا۔ قرآن پاک میں ایسی تقریبا سترہ آیات ہیں۔ جن میں خواتین کے پردے کے متعلق آیات بھی شامل ہیں چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عمر کی زبان پر اللہ نے حق جاری کردیا ہے (بہیقیـی) ایک اور موقعے پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا (ترمذی) آپ ﷺ کا یہ فرمان پلاشبہ عمر رض کے بلند رتبے پر مہر ثبت کرتے ہیں۔

حضرت عمر رض ہر وقت مسلمانوں کی بھلائی کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ جب جنگ کیلئے سامان جمع کرنے کا مرحلہ آیا تو آپ رض اپنے گھر کا آدھا سامان بارگاہ رسالت میں لے کر حاضر ہوگئے۔ یہاں تک کہ زخموں سے چور جب آپ رض بستر مرگ پر تھے تو انکی عیادت کے لئے ایک نوجوان آیا جس کا تہبند اسکے ٹخنوں سے نیچے لٹک رہا تھا اس موقعے پر بھی اسے تہبند ٹخنوں سے اوپر رکھنے کی نصیحت کی۔ حضرت عمر فاروق رض کے یہی وہ اعلی اوصاف تھے جنکی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ارشاد فرمایا تھا: میرے بعد ابوبکر رض اور عمر رض کی اقتداء کرنا۔ (مشکوۃ)

حضرت عمر فاروق رض عہد صدیقی رض میں حضرت ابوبکر صدیق رض کے مشیر رہے، ابوبکر رض نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اگلے خلیفہ کیلئے حضرت عمر فاروق رض کا نام تجویز کیا جسے تمام صحابہ کرام رض نے بخوشی قبول فرمایا۔ آپ رض کا دور خلافت مسلمانوں کے عروج کا دور تھا۔ انکے دور خلافت میں مسلمان دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھرے، عرب سے آگے بڑھ کر مسلمانوں نے عراق، ایران، مصر اور شام وغیرہ میں اسلام کا جھنڈا لہرایا، جو علاقہ مسلمانوں کے قبضے میں آجاتا آپ رض وہاں فوری مسجد کی تعمیر کا حکم دیتے تاکہ اس جگہ اللہ کے دین کی ترویج ہوسکے۔ آپ رض کے دور خلافت میں فتوحات کا جو سلسلہ شروع ہوا تو اسلامی مملکت کا رقبہ ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل تک پہنچ گیا۔ اپ رض کا عدل و انصاف مثالی تھا، آپ رض انصاف کے معاملے میں مذہب، قوم، قبیلے یہاں تک کہ اپنے عزیز رشتہ داروں کو بھی کوئی فوقیت یا برتری نہیں دیتے تھے۔ آپ رض نے حکومت اس طرز سے کی کہ رہتی دنیا تک کے حکمرانوں کو حکمرانی کرنے کا سلیقہ بتا گئے۔ آپ رض اپنی رعایا کے مسائل سننے کیلئے پمہ وقت تیار رہتے تھے، غریبوں اور مسکینوں کے گھروں تک راشن اپنے کاندھے مبارک پر رکھ کر پہنچاتے تھے۔ آپ رض کا مشہور قول ہے کہ دریائے فرات کے کنارے اگر کوئی کتا بھی بھوک سے مرگیا تو قیامت کے روز اسکا حساب مجھ سے لیا جائے گا۔

عمر فاروق رض انتہائی مدبر، زیرک اور انسانیت کے لیے ہمدردی رکھنے والے انسان تھے، آپ رض نے اسی مدبرانہ انداز سے قبلہ اول بیت المقدس بھی فتح کیا۔ آپ رض کے دور خلافت میں باقاعدہ عدالتی نظام قائم ہوا، امن و امان کی قیام کے لیے بولیس کا محکمہ قائم کیا، ریاست کے اہم مراکز میں فوجی چھاؤنیاں قائم کی گئیں، مسلمان معاشی طور پر مستحکم ہوئے تو بیت المال کا قیام عمل میں آیا، مسلمانوں میں اتحاد کے فروغ کے لیے شرعی مسائل میں اصول قیاس قائم کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

27 ذی الحجہ 23 ہجری بروز بدھ فجر کی نماز کے دوران مسجد میں چھپے ہوئے ایک بدبخت مجوسی ابو لولوفیروز نے خنجر سے وار کرکے زخمی کردیا۔ زخم اس قدر شدید تھے کہ یکم محرم 24 ہجری کو آپ رض ساڑھے دس سال خلیفہ رہنے کے بعد شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوگئے۔ ام المومننین سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اجازت کے بعد آپ رضہ کو پہلوئے رسولﷺ میں دفنا دیا گیا۔ سیدنا عمر فاروق رض کی زندگی بلاشبہ قابل رشک اور سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو آپ رض کے اسوہ مبارکہ پرچلنے اورعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply