پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی غنڈہ گردی۔۔محمد طیب

گزشتہ دنوں کی بات ہے کہ ایک شیخ صاحب سے ملاقات ہوئی۔ادھر اُدھر کی باتوں کے ساتھ بات چل نکلی پرائیویٹ  سکول میں تعلیم کی، تو موصوف چونکہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس کے باعث اپنی بڑائی بیان کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں، جھٹ سے   پرائیویٹ  سکول سسٹم کی تعریف میں پُل   باندھنے لگے ، فخر سے بتانے لگے میاں ہم تو اتنی فیس دیتے ہیں۔موصوف اپنے ساتھ ایک مشہور  سکول کا فیس چالان بھی لیے ہوئے تھے۔ جس میں درج کُل رقم کسی پوش علاقے کے بنگلے کے کرائے جیسی محسوس ہوئی۔ آنکھوں پر یقین نہ آیا تو ساری تفیصل پڑھی جس میں کئی شعبوں کے نام درج تھے ،گویا پانچویں جماعت کا یہ طالبعلم  سکول نہیں بلکہ کسی ملک کو فتح کرنے جارہا ہو۔ بستہ اورکتابوں کاپیوں سےلے  کر،کلاس روم میں لگے اے سی کا بل بھی بچوں سے وصول کرنا ،پھر سالانہ اخراجات لیب، کمپیوٹرز،سپورٹس اور دیگر شعبوں کی مد  میں ہزاروں روپے ماہانہ اور سالانہ بٹورنا تعلیمی نظام کو کھوکھلا کر چکا ہے۔ غریب اپنے بچے کو نہ پرائیوٹ  سکول میں پڑھانے کے قابل رہا ،نہ گورنمنٹ  سکول میں۔ایسے میں گلی کوچوں میں کُھلنے والے غیر میعاری  سکول مالکان کی چاندی ہوجاتی ہے ،جوکم فیس میں بچو ں کے مستقبل کے ساتھ کھیلتے ہیں۔

دوسری جانب چاہیے تو یہ تھا کہ گورنمنٹ  سکول سسٹم اس قدر معیاری ہوتا کہ ایک عام شہری اپنے بچوں کی تعلیم کے معاملے  میں  تو کچھ سکون پاتا ،لیکن یہاں گنگا الٹی ہی بہہ رہی ہے۔اب 10 سے 15 ہزار ماہانہ کمانے والے مزدور 40 ہزار بچوں کی   سکول کی فیس میں دینے سے رہا، ایسے میں معاشرے میں امیروغیریب کا فرق بڑھنا بعداز قیاس نہیں۔تبدیلی کا شور مچا تو گورنر ہاؤسز کو تعلیم کے لئے کھولنا ایک اچھا اقدام تھا، لیکن شاید وہ سب شہرت  حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔جبکہ پاکستان کے آئین نے تعلیم و صحت کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا ہے ،مگر ہم نے اس کو صرف امیر کی جھولی میں ڈال دیا۔ کوئی ہے جو اس تقسیم کو پُرکرے؟ اور فیسوں کو لگام دے؟ تعلیم کو کاروبار بنانے والوں کے خلاف کارروائی کرے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر میعاری تعلیم کے لیے 30 سے 40 ہزار ماہانہ درکار ہے تو یہ رقم کتنے فیصد پاکستانی دے سکتے ہیں؟ اور کیا باقی عوام کو معیاری تعلیم اپنے بچوں کو مہیا کرنے کا کوئی حق نہیں ؟جبکہ پاکستان کی چالیس فیصد عوام غربت کی لکیر  سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ چند روز قبل سندھ ہائی کورٹ میں عرصے سے چلنے والے کیس کا ایسا فیصلہ آ یا کہ نہ  سکول مالکان کا کچھ بگڑسکا نہ عوام کو کچھ ریلیف مل سکا۔ ایسے میں عوام نئی حکومت پر نظریں جمائے بیٹھی ہے لیکن شاید یہ امید پوری نہ ہو پائے کیونکہ اس وقت غالباً تعلیم سے لیکر صحت تک ہر وزیر فی  الحال گاڑیاں اور بھینسیں بیچنے میں مصروف ہے۔ساتھ ہی ساتھ موجودہ صورتحال جہاں انسان کو کھانے کے لالے پڑے ہیں ،وہیں پرائیویٹ  سکول اپنی دکانیں کھولے   بیٹھے ہیں۔ یا یوں کہیں کہ ایک طرف انسان کو وباء کی نذر  ہونے کا خطرہ ستا رہا  ہے تو دوسری طرف پرائیویٹ  سکولز اپنے پھن پھیلائے ڈسنے کے انتظار میں ہیں۔ ایک طرف انسان وباء کی خبریں سن سن کر خود سُن ہوا بیٹھا ہے۔ دوسری طرف پرائیویٹ  سکولز کے میسیجز اسے جھنجھوڑ کر واپس اسی دنیا میں لا کر سلامِ فیس پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جلد از جلد فیس جمع کروائیں۔ نجانے وہ لوگ کہاں گئے جو کسی کی پرواہ کیا کرتے تھے۔ جو دوسروں کا پیٹ بھرنے کے لئے اپنا پیٹ کاٹا کرتے تھے۔ شاید اب یہ باتیں افسانوں اور کہانیوں میں ہی میسر آئیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply