غیرت مت دلاؤ بلکہ غیرت اور شرم کرو۔۔۔بلال شوکت آزاد

میں تین بیٹیوں کا باپ ہوں اور میری ہمت و حوصلہ ہر ایسے گھناؤنے واقعات کے بعد جواب دے جاتا ہے۔آغاز میں جب جب ایسا واقعہ ہوتا تو بہت لکھتا, خوب لکھتا, حکومت کو لتاڑتا اور عوام کو رگڑا لگاتا۔سدباب کے طریقے لکھ لکھ کر صفحے کالے کر چھوڑے۔الزام تراشیاں بھی کرچکا۔رونے پر بس نہیں لہذا رو بھی چکا۔

پر اب ہمت جواب دے گئی ہے۔مجھ سے اور منافقت نہیں ہوتی کہ سینہ کوبی کرلوں, رولوں, پیٹ لوں اور صفحے پہ صفحہ کالا کرکے سکون سے بیٹھ جاؤں۔ہر بیٹی میری بیٹی ہے اور میری ہر بیٹی کا غم مجھے ایک جیسا لگتا ہے لہذا اب اور برداشت نہیں ہوتا۔ایک تو حکومت ہر ہر طرح سے اس طرح کے حیوانی جذبات کو ہوا دینے میں برابر کی شریک ہے کہ جنسی بے راہ روی اور فحش نگاری و فحش گوئی کا سدباب حکومت نے کرنا ہے عوام نے نہیں کہ عوام کو کہا گیا ہے کہ قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا۔

شرعی سزائیں نافذ العمل نہیں ہوسکتیں کہ ہم بس برائے نام آزاد ہیں لہذا شریعت شریعت کرکے شرمندہ نہ ہوں۔اور ہاں آپ خود شریعت نافذ بھی نہیں کرسکتے کہ پھر آپ ریاستی مجرم بھی بن جائیں گے۔

بھائی ہم کچھ نہیں کرسکتے پر ہمارا زور اپنے گھر اور خاندان پر چلتا ہے لہذا بچوں اور بچیوں کی ہوم سکولنگ شروع کردیں۔سڑکوں اور چوراہوں اور میدانوں کو بچوں کے وجود سے پاک کرکے گھروں کو آباد کرلیں کہ آپ گھر کا چوکیدارہ بہتر کرسکتے ہیں پر ہر وقت سایہ بن کر بچوں کے ساتھ ہر جگہ نہیں رہ سکتے۔جب ہر شخص اپنے بچوں پر گھر پر نظر رکھے گا تو شیطان نہ اس پر حاوی ہوگا نہ اسکی اولاد شیطان کا شکار بنے گی۔حکومت نادرا کے ذریعے ایک سینٹرل مانیٹرنگ سسٹم لانچ کرے جس میں ہر انسان کی فزیکل سچویشن بمع ڈی این اے ریکارڈ کی جائے۔

پولیس   محکمے  میں ایمرجنسی نافذ کرکے اسے فوج کے حوالے کیا جائے تاکہ ان کی سکروٹنی ہوسکے اور میرٹ سیٹ کیا جائے, گریجویشن سے کم والے انسان کو نوکری نہ دی جائے پولیس میں۔عدالتوں اور ججوں کا احتساب ہو وہ بھی بے رحم تاکہ پتہ چل سکے کہ انصاف میں  حائل رکاوٹیں کونسی ہیں۔

ہاہ۔۔۔۔ میں بھی کیا اول فول بکے جارہا ہوں قسم سے سے۔شاید دکھ اور روزے نے میرا دماغ ہلا دیا ہے کہ پھر سے صفحہ کالا کررہا ہوں۔

ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میری تین بیٹیاں ہیں اور ان میں میری زندگی ہے۔ایک لمحے کو کوئی ایک بھی نظر سے اوجھل ہو تو میری جان پر بن جاتی ہے۔میں کسی انجان کا تو سوال رہا ایک طرف کسی جان پہچان والے قریبی کو بھی اپنی بیٹیوں سے فری نہیں ہونے دیتا اور اسی عمر میں ان پر ایک چیک اینڈ بیلنس رکھا ہوا ہے کہ وہ بچپنے میں کسی سے فری نہ ہوں۔اور یہ روز روز کے واقعات و حالات دیکھ کر اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میں اپنی بچیوں کو ہوم سکولنگ کرواؤں گا اور خود ان کی تعلیم و تربیت کا ذمہ لوں گا نا کہ آج کل کے کمرشل اور معذرت کے ساتھ فحاشی و عریانی کے ساتھ ساتھ الحاد و کفر کو پرموٹ کرنے والے اداروں میں بھیج کر ان کی زندگی, عزت اور ایمان کو داؤ پر لگاؤں گا۔

بہرحال یہ میری چوائس ہے لہذا میں تو یہی کروں گا بشرط زندگی ان شاا ﷲ۔

پر آپ اپنے بچوں اور بچیوں کے لیئے بھی کچھ سوچ لیں وقت رہتے کہ حکومت اور ریاست بری طرح ناکام ہے۔پولیس, عدالتیں, ہسپتال اور حکومتی قانونی ادارے بس ڈھکوسلا ہیں جہاں آپ کی عزت لوٹنے والے ہی بیٹھے ہیں لہذا انصاف کا سوال وہاں کرنا انتہائی بیوقوفی ہے۔مچالو شور, دے لو دہائی۔کتنا اثر ہوگا یہ جانتے ہو لیکن ہو لو خوش یہ سب کرکے بھی۔

کیا ہوگا؟

فرشتہ کے قاتل پکڑ بھی لیئے تو کیا ہوگا؟۔۔۔۔۔کچھ نہیں۔

ذلالت, ذلالت اور ذلالت۔۔

پھر بیسیوں اور بچیوں کی عصمت لٹے گی اور جان جائے گی لیکن ہم ہوش میں ایک لمبے وقفے کے بعد آئیں گے جیسے اب زینب کے بعد فرشتہ کی دفعہ ہوش میں آئے ہالانکہ اس بیچ بیسیوں اور بچے بچیاں شکار بن چکے لیکن ہم چپ رہے اور اب ہوش میں آئے تو وہ بھی چیخ و پکار کی خاطر ناکہ حقیقی انصاف اور نظام کی تبدیلی کی خاطر۔او پاکستانیوں مار دو اپنی بچیاں دور جاہلیت کے عربوں کی طرح ورنہ اسی طرح زندہ درگور ہوتے رہو ان کی جلی کٹی اور لٹی لاشیں دیکھ کر۔اور ہاں ڈالر خریدو ڈالر اور اپوزیشن چمکاؤ ابو بچاؤ تحریکوں کو سپورٹ کرکے, یہ زینب اور فرشتہ اور حذیفہ جیسے بچوں کے کیس میں کچھ نہیں رکھا۔

اگر میری طرح بزدل ہو بیٹیوں کا سوچ سوچ کر تو وہی کرلو جو میں کرنے کی ٹھان چکا، فی الحال لیکن اگر بہادر ہو تو دوسرا آپشن چُلو بھر پانی میں ناک ڈبو کر مرنے کا ہی بچتا ہے لہذا وقت نکال کر ڈوب مرو کہ تم اس جمہوری کیچڑ میں لتھڑے نظام اور حکومت سے حفاظت اور انصاف مانگ کر خود بھی شرمندہ ہوتے ہو اور انہیں شرمندہ کرتے ہو پر بیٹیاں تمہاری پھر بھی محفوظ نہیں۔

بس کردو یہ منافقت اور ڈرامے بازی میری طرح, ورنہ روتے رہو مسئلوں کو پکڑ کر پر نظام کو مت چھیڑنا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

غیرت مت دلاؤ بلکہ غیرت اور شرم کرو اگر واقعی بیٹیوں کے لیئے حفاظت اور انصاف چاہیئے تو؟

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply