• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • روپے کی قدر کے  بحران کی اہم وجوہات۔۔۔محمد احسن سمیع

روپے کی قدر کے  بحران کی اہم وجوہات۔۔۔محمد احسن سمیع

اسٹیٹ بینک آف پاکستان جب بھی مانیٹری پالیسی  کا اجراء کرتا ہے تو اس کے ساتھ معیشت کے کلیدی اشاریوں پر مبنی ایک معلوماتی  خلاصہ بھی جاری کرتا ہے ، جس میں ظاہر ہے کہ ان کلیدی اشاریوں کے متعلق تازہ ترین اعداد و شمار بیان کئے جاتے ہیں۔  کل بھی جب اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی جاری کی تو اس کے ساتھ    یہ انفارمیشن کمپینڈیم  بھی جاری کیا ،جس کے صرف بنظر غائر مطالعے سے ہی موجودہ حکومت کی اب تک کی کارکردگی کا پول کھل کر سامنے آجاتا ہے (بشرط کہ انسان کی نیت بھی ہو سمجھنے کی)۔

جب سے ہماری حکومت نے آئی ایم  ایف کے سامنے ملکی معیشت کو سرنڈر کیا ہے، ڈالر کی اڑان جاری ہے  اور حسب سابق  یوتھیے اس کو گزشتہ حکومتوں  کی پالیسیوں کی مکافات قرار دے کر دامن جھاڑ رہے ہیں۔ اسی پر بس نہیں، اب تو اپنے علاوہ پوری قوم کو ڈالر کا ذخیرہ اندوز قرار دے کر حب الوطنی کے نام پر جذباتی بلیک میلنگ بھی کی جارہی  ۔ جسے دیکھو وہ ترکی کے قصے سنا کر پہلے ہی مہنگائی کی چکی   میں پس رہے عوام کو مزید شرمسار کرنے میں مصروف ہے ۔ گویا    اپنی حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں اور تباہ کن کارکردگی کو چھپانے کے لئے عوام کی جذباتی بلیک میلنگ کی چادر استعمال کی جارہی ہے۔ جہاں تک بات ترکی سے مقابلے کی ہے تو وہاں کرنسی کا بحران  ترک حکومت کے عالمی مالیاتی اداروں کی سامنے سرنگوں ہوجانے کے سبب نہیں بلکہ بڑی حد تک  امریکی حکومت کی جانب سے ترک برآمدات پر غیر منصفانہ ٹیرف عائد کئے جانے کی وجہ سے  پیدا ہوا تھا۔ اسی  لئے اس بحران کے دوران ترکوں کی جانب سے حب الوطنی کا مظاہرہ بھی دیکھنے  میں آیا کیونکہ عوام کی بڑی تعداد اس کو بلاواسطہ  اور بلا اشتعا ل امریکی اقتصادی جارحیت  سمجھتی تھی جو کہ ترکی کی جانب سے شام کے معاملے میں اپنائی گئی آزاد خارجہ پالیسی کے نتیجے میں ان  پر مسلط کی گئی ۔ کیا پاکستانی روپے کو بھی اسی صورتحال کا سامنا ہے؟ جی نہیں! سازشی تھیوریز  کچھ بھی بنا ئی جاسکتی ہیں ، مگر حقیقت یہ ہے کہ روپے کی قدر کا موجودہ بحران صرف اور صرف حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی  ’’ مارکیٹ فورسز  کی طے  شدہ‘‘ شرح تبادلہ کے سامنے سر جھکانے کی شرط تسلیم کرنے کے سبب پیدا  ہوا ہے او ر اب عوام کو شرمسار کرکے اپنی اس کمزوری اور نااہلی  کو چھپایا جارہا ہے۔  آخر اسحاق ڈار نے بھی تو آئی ایم ایف سے کم و بیش اتنی ہی مالیت کا پیکج حاصل کیا  تھا اور ملکی تاریخ میں پہلی بار پروگرام مکمل بھی کیا! اس کی باری آئی ایم ایف کس طرح اتنی شدید ڈی ویلیو ایشن کے بغیر  قرض کی فراہمی پر راضی ہوگیا  تھا؟

اقتصادیات کا  مبتدی طالب علم بھی یہ جانتا ہے کہ درآمدات پر منحصر معیشت کے لئے   ’’ فری فلوٹ‘‘ ایکسچینج ریٹ سراسر تباہی کا سودا ثابت ہوتا ہے۔  ظاہر ہے کہ جب آپ کی معیشت کو تجارتی خسارے کا سامنا ہو اور آپ کی برآمدات تک امپورٹس پر انحصار کرتی ہوں تو ایسے ماحول میں ڈالر کی طلب ہمیشہ ہی سپلائی سے بدرجہا ء زیادہ ہوگی۔ گویا کہ جب عوام اپنی بنیادی ترین ضروریات کے لئے بھی امپورٹس کے محتاج ہوں تو ایسے میں صرف ’’سپلائی اینڈ ڈیمانڈ ‘‘ کےرٹے رٹائے اصولوں کے اندھا دھند اطلاق کے لئے مارکیٹ کو کھلا نہیں چھوڑا جاسکتا کہ اس طرح تو عوام کی اکثریت نان شبینہ کے حصول تک سے عاجز آجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر ترقی پذیر ممالک بشمول بھارت اور بنگلہ دیش ،  کہنے کو تو اپنی کرنسی کو ’’فری فلوٹ‘‘ کہتے ہیں مگر ان کے مرکزی بینک اوپن مارکیٹ آپریشنز کے ذریعے کرنسی کی قدر پر اپنا کنٹرول کسی حد تک برقرار رکھتے ہیں اور کسی بھی غیر معمولی  سرگرمی کی صورت میں فوراً  ایکشن لیتے ہیں۔ بعینہ  یہی پالیسی گزشہ حکومت کے دور میں اپنائی گئی تھی جس کو یہ یوتھیئے اسحاق ڈار کی جانب سے مارکیٹ میں اربوں ڈالر جھونکنے سے تعبیر کرتے ہیں۔   اگر ایسا  نہ کیا جائے تو معاشی تنزل کا ایک چین ری ایکشن شروع ہوجائے گا۔ چونکہ ہماری برآمدات بذات خود امپورٹس پر انحصار کرتی ہیں، تو روپے کی قدر کی گراوٹ کے نتیجے میں ایکسپورٹس کی لاگت میں مزید اضافہ ہوگا، جس سے ان کی مقابلاتی صلاحیت مزید کم ہوگی ۔ نتیجتاً جب ایکسپورٹس میں کمی آئے گی تو ڈالر کی مزید قلت پیدا ہوگی اور روپیہ مزید بےقدر ہوگا ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ حکومتوں کا کام معیشت کو عوام کی سہولت کاری کے لئے مینج کرنا ہوتا ہے، نہ کہ صرف مینجمنٹ برائے مینجمنٹ کرنا۔

خیر واپس اسٹیٹ بینک کے انفارمیشن کمپنڈیم کی جانب آتے ہیں جو کل مانیٹری پالیسی کے ساتھ ہی جاری ہوا ہے۔  اگر آپ اس کے ادائیگیوں کے توازن والے حصے کا  جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ حکومتی معاشی افلاطونوں کا روپے کی بے قدری کو برآمدات میں اضافے سے نتھی کرنا اب تک صرف خام خیالی ثابت ہوا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ مالی سال میں جولائی سے مارچ کے درمیان برآمدات میں تقریباً ۲۵۰ ملین ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔ تجارتی خسارے میں معمولی کمی در اصل   کیپٹل گڈز کی درآمدات میں  تقریباً  ڈیڑھ ارب ڈالر کی کمی اور بیرون ملک سے ترسیلات زر میں تھوڑے سے اضافے کی مرہون منت ہے ۔ گویا کہ  ہم نے  تجارتی خسارے میں یہ معمولی کمی اپنی پیداواری صلاحیت قربان کرکے حاصل کی ہے  جو کہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ اسی طرح اگر ادائیگیوں کے توازن کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو اس کے خسارے میں کمی محض  اسٹیٹ بینک میں سعودی او ر اماراتی وقتی ڈیپازٹس کی وجہ سے نظر آرہی ہے جو خالصتاً ایک کاسمیٹک حربہ ہے۔  دوسری طرف  اگر کیپٹل اکاؤنٹ کو دیکھا جائے تو گزشتہ برس جولائی سے مارچ کی مدت کے اختتام پر ملک میں تقریباً  ۸ء۴ ارب ڈالر  فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ اور اسٹاک مارکیٹ   انوسٹمنٹ کی مد میں موجود تھا جو کہ اس سیاسی انجینئرنگ کی  بھینٹ  چڑھ کر  ہماری معیشت کو خیرباد کہہ چکاہے۔ اس قدر کثیر تعداد میں ملکی معیشت سے سرمائے کا انخلا کرنسی کی موجودہ بحران کی ایک بڑی وجہ ہے جس پر کسی کی توجہ نہیں۔یہی پانچ ارب ڈالر تھے جنہوں نے گزشتہ دور حکومت میں روپے کی قیمت کو مستحکم رکھا ہوا تھا،  اور جس کی کمی کے باعث اب ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ لوگ اسحاق ڈار پر مارکیٹ میں ڈالر جھونکنے کا الزام لگاتے ہیں، جبکہ اس کے دور میں صورتحال یہ تھی کہ بیرونی سرمایہ دار ہماری معیشت میں ڈائریکٹ اور اسٹاک مارکیٹ انویسٹمنٹ کے ذریعے ’’ڈالر جھونک  ‘‘ رہے تھے۔  اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کا  خالص حجم ایک ارب ڈالر سے بھی کم رہ گیا ہے!

Advertisements
julia rana solicitors

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ملکی معیشت سے سرمائے کے انخلاء کا ذمہ دار کون ہے؟  گزشتہ حکومت اس کی ذمہ دارکیسے ہوسکتی ہے ۔ اگر اس کی پالیسیاں اتنی ہی ناقص ہوتیں تو سرمایہ دار اتنی بڑی مقدار میں سرمایہ منتقل ہی کیوں کرتے؟  سرمایہ ایک ایسی جنس ہے جو سب سے زیادہ سیاسی بے یقینی سے بدکتی ہے، اور موجودہ حکومت کی شدید نااہلی کے ساتھ یہی کرنسی کے حالیہ بحران کی اصل وجہ بھی ہے۔

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply