اصلی گٹھ جوڑ۔۔۔۔محمد اسد شاہ

پیپلز پارٹی کے موجودہ چیئرمین بلاول زرداری نے  اپوزیشن کے سیاسی قائدین کے اعزاز میں افطار ڈنر کا اہتمام کیا کر دیا کہ سلیکٹڈ حکومت کی تو جیسے دم پر پاؤں آ گیا – ارے بھائی کیا ہو گیا – افطار ڈنر کوئی پاکستان یا اس دنیا کی تاریخ میں نئی چیز تھوڑا ہی ہے – حتیٰ کہ امریکی صدر بھی ہر سال اپنے ملک کے مسلمان زعماء کے اعزاز  میں باقاعدہ افطار ڈنر کا اہتمام کرتے ہیں – کینیڈا کے موجودہ وزیراعظم جناب جسٹن ٹروڈو نے تو اپنی حلف برداری کا دن  بھی  مسلمانوں کے ساتھ گزارا – رمضان کا مہینہ تھا اور موصوف دارالحکومت کی ایک ایک مقامی مسجد میں پہنچے ، وہاں مسلمانوں کے اجتماعی افطار کی تقریب میں شامل ہوئے اور نہایت خوشی اور یکجہتی کا اظہار کیا – ہمارے پڑوس بھارت تک کے وزرائے اعظم کی یہ روایت رہی ہے کہ ہر سال اپنے ہم وطن مسلمان علماء، سیاسی قائدین اور مشہور شخصیات کے اعزاز میں افطار ڈنر کا اہتمام کرتے ہیں –

خیر بات ہو رہی تھی بلاول زرداری کے افطار ڈنر کی – سلیکٹڈ حکومت کے وزراء کے لیے نہایت تکلیف دہ بات یہ تھی کہ تمام اپوزیشن قائدین کی اس تقریب کی مہمان خصوصی محترمہ مریم نواز صاحبہ تھیں – محترمہ مریم نواز آج سے پانچ سال پہلے تک صرف میاں محمد نواز شریف کی صاحبزادی کی حیثیت سے جانی جاتی تھیں – لیکن شاباش ہے ان معلوم اور نامعلوم حلقوں کو ، کہ جن کے بغض اور سازشوں کے جواب میں محترمہ کو سیاسی سٹیج پر آنا پڑا – اپنے والد اور تین بار کے منتخب وزیراعظم کے ہمراہ سو سے زیادہ پیشیاں بھگتنے کے دوران وہ عالمی سطح پر ایک آئین پسند سیاست دان ، دانش ور اور حقیقی جمہوریت کی علم بردار بہادر شخصیت کے طور پر سامنے آئیں – اب وہ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی مرکزی نائب صدر ہیں – مخالفین نے اس پر بھی ان کے خلاف عدالت میں دہائیاں دینا شروع کر دی ہیں-

کرپشن ثابت ہونے پر عدالت سے نااہل قرار پانے والے سابق وفاقی وزیر جہانگیر ترین سلیکٹڈ حکومت میں عملاً ڈپٹی پی ایم کے طور پر مشہور ہیں – وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں شمولیت ، سینئر بیوروکریسی کو احکامات جاری کرنا اور پنجاب و خیبر پختونخوا  کی حکومتوں کو ڈکٹیٹ کرنا تو جیسے ان کے غیر تحریری اختیارات میں شامل ہے – لیکن انہی  نااہل جہانگیر ترین کے ان “اختیارت” کی حمایت و دفاع کرنے والوں نے عدالت کے باہر کھڑے ہو کر دہائیاں دیں اور نہایت دکھی دلوں کے ساتھ درد بھرے لہجوں میں میڈیا اور عوام سے التجائیں کیں کہ محترمہ مریم نواز کو چونکہ عدالت نے نااہل کہا تھا ، اس لیے انھیں اپنی جماعت کی نائب صدارت سے روکا جائے ۔۔۔۔۔

کمال ہے ناں ! ہم تو نہیں کہتے لیکن بعض لوگ اسے منافقت اور بغض کی انتہا کہتے ہیں – سلیکٹڈ وزیر ریلوے شیخ رشید نے بلاول زرداری کے افطار ڈنر کو چوروں کے گٹھ جوڑ سے تشبیہ دی – حکومت کے دیگر حامی بھی اس پر بہت جملے کس رہے ہیں – سوشل میڈیا میں پی ٹی آئی کے ورکرز کہہ رہے ہیں کہ عمران کی مخالفت میں ایک دوسرے کو چور کہنے والوں نے گٹھ جوڑ کر لیا – چلو ایک لمحے کو ان کے اس طنز کو مان لیا جائے تو ذہن ماضی قریب کے کچھ مناظر یاد کرنے لگتا ہے۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ عمران خان نے شیخ رشید احمد کو ایک لائیو ٹی وی پروگرام میں بے شرم اور گھٹیا قرار دے کر کہا تھا کہ وہ اس جیسے بے شرم شخص کواپنا چپڑاسی بھی رکھنا پسند نہیں کریں گے – لیکن پھر وقت نے دیکھا کہ محمد نواز شریف کے بغض میں ان دونوں  (عمران اور شیخ رشید) نے کیسا گٹھ جوڑ کیا کہ جلسوں ، دھرنوں اور الیکشن میں بھی ایک دوجے کا ساتھ دیا اور جب عمران کو وزیراعظم بنوایا گیا تو وہی شیخ رشید اب چپڑاسی کی بجائے عمران کا وفاقی وزیر ہے –

عمران ایم کیو ایم کو عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دلوانے کے دعوے کیا کرتے تھے – لیکن پھر وہ دن بھی آیا جب محمد نواز شریف ہی کے بغض میں عمران نے خود کو”آدھا مہاجر” قرار دے دیا اور فرمایا۔”ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی فطری اتحادی ہیں-” اب اسی ایم کیو ایم کے ساتھ ایسا گٹھ جوڑ ہے کہ ان کے لوگ عمران کی کابینہ میں وفاقی وزارتوں پر فائز ہیں –
عمران نے ق لیگ کو قاتل لیگ کہتے کہتے ق لیگ سے بھی گٹھ جوڑ کر لیا – وجہ پھر وہی ، یعنی بغض نواز – پرویز الٰہی کو عمران نے “پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو” کہا – پھر بغض نواز کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسی پرویز الٰہی کے امیدواروں کا الیکشن میں ساتھ دیا- الیکشن کے بعد اسی پرویز الٰہی کو عمران نے پنجاب اسمبلی کاسپیکر نامزد کیا —-
اور ہاں کیا یاد دلا دیا —-
عمران گزشتہ 20 سال سے عوام کو بتا رہا تھا کہ محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری دونو کرپٹ ہیں اور اندر سے ان کا گٹھ جوڑ ہے – لیکن 2018 کے سینیٹ الیکشن کیا ہوا؟ اصلی ، نسلی اور خالص گٹھ جوڑ جو کئی سالوں سے عوام کی نظروں سے اوجھل تھا ، سامنے آ گیا – “عمران زرداری گٹھ جوڑ” نے سینیٹ الیکشن میں جمہوریت اور آئین کی پامالی کی انتہا کردی – سینیٹ کی واحد اکثریتی منتخب جماعت مسلم لیگ (نواز) کے خلاف گٹھ جوڑ کرتے ہوئے اقلیت ہوتے ہوئے بھی سینیٹ پر قبضہ کر لیا گیا – اب سینٹ میں اکثریتی جماعت اپوزیشن بنچوں پر بیٹھتی ہے اور اقلیتی جماعتیں حکومتی بنچوں پر – یہ ہوتا ہے اصلی گٹھ جوڑ – اس مکروہ گٹھ جوڑ پر بجائے شرم سار ہونے کے ، ساری پی ٹی آئی فخر کرتی ہے – پھر صدارتی الیکشن 2018 میں بھی یہی “عمران زرداری گٹھ جوڑ” سامنے آیا – پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جنھیں اپوزیشن کہا جا رہا ہے – چناں چہ صدر مملکت کا عہدہ اپوزیشن کو ملنا یقینی تھا – لیکن محمد نواز شریف کے خوف میں مبتلا “عمران زرداری گٹھ جوڑ” کے ذریعے اقلیتی پارٹی کے امیدوار کو صدر چنوا لیا گیا –

Advertisements
julia rana solicitors london

ارے بھائیو ! اگر عمران زرداری گٹھ جوڑ جائز ہے ، اگر عمران شیخ رشید گٹھ جوڑ درست ہے ، اگر عمران الطاف گٹھ جوڑ قبول ہے ، اگر عمران پرویز الٰہی گٹھ جوڑ پسندیدہ ہے تو دوسروں پر جملے کستے ہوئے ضمیر کہاں سو جاتا ہے !

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اصلی گٹھ جوڑ۔۔۔۔محمد اسد شاہ

  1. سید اسد شاہ آپ نے حقائق کو بڑے جاندار انداز میں پیش کیا ہے. ماضی میں موجودہ حکومتی جماعت کے ساتھ اختلاف و ارتباط اور پھر موحودہ صورت حال پر ان کے واویلے کو مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے.. تاریخی اعتبار سے درست حقائق پیش کرنے اور چبھتے سوالات اٹھانے پر آپ مبارکباد کے مستحق ہیں.

Leave a Reply