حکومت، میڈیا اور عوام ۔۔۔۔ رضا شاہ جیلانی

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جنگیں کسی بھی بات کا حل نہیں ہوتیں۔ جنگیں صرف مسائل کو جنم دیتی ہیں. بالآخر دو فریقین کو مصالحت کے لئے مکالمے کی میز پر آنا ہی پڑتا ہے. اگر ہم اپنے آس پاس دیکھیں تو گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان سمیت شام اور عراق میں جاری خونی جنگوں سے نا کوئی خاطر خواہ حل نکالا جا سکا اور نا ہی کبھی جنگوں سے دیر پا امن کو قائم کیا جاسکا.

آج کے دور میں جنگیں لڑنے کے طور طریقوں میں بھی مکمل طور پر تبدیلی آچکی ہے اکیسویں صدی کی جنگ دو ممالک کے درمیان میڈیا کی زبان سے لڑی جانے لگی ہے جسے عرفِ عام میں نفسیاتی جنگ کہا جاتا ہے. اس ہی طرح بہت چالاکی کے ساتھ دشمن ملک اکثر اپنے میڈیا کو استعمال کرتا ہوا اپنے مدِ مقابل ملک کے نوجوان کے ذہن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے میڈیا کی اس نفسیاتی جنگ میں اسے دشمن ملک کے کچھ ناراض سیاستدانوں کی بھی مدد مل جاتی ہے جو اپنے ہی ملک کے مفادات کے خلاف کام کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں یا پھر حکومت وقت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ دشمن کے ہاتھوں میں باآسانی کھیلنے لگ جائیں. یہاں ہمیں یہ بات مکمل طور سمجھنا چاہیے کے کسی بھی ملک کا سیاستدان وہاں کی عوام کا نمائندہ ہوتا ہے اور وہ نمائندہ اگر کسی دشمن ملک کے ہاتھوں استعمال ہو رہا ہے تو اس کے پیچھے کئی وجوہات ہو سکتی ہیں. ضروری نہیں کہ ہم اسے صرف اسی تناظر میں دیکھیں جس کی عینک ہم نے پہن رکھی ہے.

بات ہو رہی تھی میڈیا وار کی تو جناب، یہ اکیسویں صدی ہے اور اکیسویں صدی کا سب سے طاقتور اگر کوئی ” پلر ” ہے تو وہ صرف اور صرف میڈیا ہی ہے. آج کے دور میں میڈیا بشمول سوشل میڈیا کو باقاعدہ جنگی مقاصد کے لیے کس خوبی سے استعمال کیا جاتا ہے، یہاں یہ بات دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ دو ممالک کے درمیان دوستی سے لیکر جنگی حالات کو ہوا دینے تک کا کام آج میڈیا سے ہی با آسانی لیا جا رہا ہے.

اب آتے ہیں پاکستانی میڈیا کی جانب تو صاحبو..! ہمارا میڈیا بھی کسی سے کم نہیں ہمارے ملک کا یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو مُردہ ایشو کو لمحے بھر میں زندہ کرنے کیساتھ ہی بھولی بھالی ناسمجھ عوام کو مشتعل کر کے رکھ دیتا ہے. بقول عمران خان ” حکومت وقت کچھ میڈیا ہاؤسز کو پیسوں سے خرید کر انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہے “. ان کے مطابق صرف پنجاب حکومت نے ہی بیس ارب روپے کے اشتہارات دے کر کچھ میڈیا ہاؤسز کو صرف اپنی تعریفوں کے لیے استعمال کیا.

اگر ہم غور کریں تو ہمیں یہ اندازہ ہوگا کہ پاکستان میں میڈیا کو درحقیقت آزادی مشرف کے دور آمریت میں ملی تاہم میرے کچھ احباب کا خیال ہے کہ میڈیا کو آزادی 1990 کی دہائی میں مل چکی تھی جس سے میں یکسر اختلاف کرتا ہوں. میں نوّے کی دہائی والی بات سے اس لیے بھی متفق نہیں ہوں کہ اُس دور میں الیکٹرانک میڈیا سمیت سوشل میڈیا کا وجود نا ہونے کے برابر تھا. پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں میڈیا نے اپنے عروج کی نئی منازل کو طے کیا اور یوں مقابلے کی ایک فضا قائم ہوئی اور ایک کے بعد دوسرا میڈیا ہاؤس وجود میں آتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے الیکٹرانک میڈیا اپنی کامیابیوں کی منزلیں طے کرتا ہوا آج آسمان کی بلندیوں کو جا لگا ہے.

اس عرصے کے دوران ہونے والی تمام تر سیاسی ہل چل نے میڈیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور کئی بار ریاست نے طاقت کے نشے میں آکر الیکٹرانک میڈیا کو اپنے آہنی شکنجوں میں جکڑنے کی کوشش کی اور کئی بار کامیابی کیساتھ اسے اپنے آگے جھکنے پر مجبور بھی کیا. یہ سب کچھ 2005 کے بعد سے تواتر کے ساتھ ہوتا رہا، کبھی تو یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ لندن سے آنے والی صرف ایک کال پر ہی کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں مخصوص یا ناپسندیدہ چیلنز کی نشریات کو فی الفور بند کر دیا جاتا تھا، کئی شہروں میں کیبل کی تاریں ہی کاٹ دی جاتیں اور نشریات کئی روز تک تعطل کا شکار رہتیں.

ماضی میں کئی میڈیا ہاؤسز کو حکومت کی جانب سے اشتہارات کی پابندی کا بھی سامنا بھی کرنا پڑا. کئی اینکرز کے ٹاک شوز عتاب کا شکار رہے۔ اسی طرح کے اور کئی نشیب و فراز ہیں جن سے گزر کر پاکستانی میڈیا آج بھی اپنی بلوغت کی جانب رواں دواں ہے. اس بیچ وہ اپنے ماضی کو لیکر تمام تر سیاسی حربے بھی سیکھ چکا ہے۔ اس طرح یہ کہنا بجا ہوگا کہ اب میڈیا کا وہ دور ہے جس میں وہ حکومت کے ساتھ براہ راست جنگ تو نہیں کر سکتا اور نا ہی کسی طور بھی وہ حکومتی پالیسیوں کو لے کر اس کی کھلم کھلا مخالفت کر سکتا ہے مگر کچھ کچھ سیاسی پینترے، چالیں سیکھ کر حکومتوں سے مقابلے کی پوزیشن میں ضرور آگیا ہے. یہ ہی وجہ ہے کہ کئی میڈیا ہاؤسز باقاعدہ حکومت کے گُن گاتے نظر آتے ہیں. یوں عمران خان کا شکوہ بھی کچھ حد تک جائز ہی ہے مگر کیا کیا جائے کہ میڈیا ہاؤسز اور ان میں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین فقط انقلابی نعروں سے تو اپنا گھر نہیں چلا سکتے انہیں اپنا ادارہ چلانے سمیت ملازمین کے اخراجات کو بھی مدِ نظر رکھنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ حکومتی اشتہارات کی مد میں کافی کچھ لینے کے منتظر رہتے ہیں.

میڈیا اور حکومت کے مابین ہونے والی اس دھینگا مشتی کا ایک افسوس ناک پہلو جس کا شکار عوام قریب ایک دہائی سے لگاتار ہو رہی ہے وہ یہ کہ میڈیا اور حکومت کی اس سرد جنگ میں بیچاری عوام پر توجہ نا حکومت کی رہی اور نا ہی میڈیا نے اس کے مسائل کا صحیح معنوں میں ادراک کیا. افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میڈیا کے ساتھ مل کر سیاسی شعبدہ بازوں نے اپنی چالوں سے پاکستان کے عام شہری کو آج بھی دو وقت کی روٹی تک محروم کر دیا ہے۔ بنیادی سہولیات کس چڑیا کا نام ہے، عام شہری کو اس سے کوئی غرض نہیں بلکہ اسے میڈیا نے سیاستدانوں کی تقاریر دھرنوں، ڈراموں اور ٹاک شوز تک محدود کر دیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی کُل آبادی کا لگ بھگ 65 فیصد حصہ میڈیا ہاؤسز نے اپنی ” بریکنگ نیوز ” والی پالیسی کے گرفت میں لے رکھا ہے. پاکستان کی آدھی آبادی مکمل طور پر کیبل ٹی وی کیساتھ براہ راست منسلک ہے اور دس سے پندرہ فیصد کے لگ بھگ آبادی ڈش یا سیٹلائٹ پر انحصار کرتی ہے.

اب آتے ہیں زرا چینلز کے لائسنس کے اجراء کی جانب تو یہ بات بھی بڑی حیران کن ہے کہ میڈیا کی اس تاریخ اور اسکی اس حد تک کامیابی کے پیچھے بھی پرویز مشرف دور کا ہاتھ ہے۔ اگر ہم ریکارڈ پر نظر دوڑائیں تو 2003 اور 2004 میں الیکٹرانک میڈیا کے گیارہ چینلز کو لائسنس دیئے گئے. اس طرح 2005 اور 2006 میں تین اور پرویز مشرف کے جاتے ہوئے دور یعنی 2007 میں کل گیارہ لائسنس کا اجراء کیا گیا. اس لیئے میں ہمیشہ پرویز مشرف کے دور کو میڈیا کے لئے ایک انقلابی دور کہتا ہوں۔ اس کے بعد ایک جمہوری دور کی شروعات ہوئی جس میں فقط ایک ہی سال 2009 میں ہی تیس کے قریب لائسنس جاری کیئے گئے۔ یوں 2010 میں چھ اور 2013 میں صرف دو لائسنس جاری کیے گئے..

دوسری جانب اکیسویں صدی کا میڈیا میں سب سے بڑا انقلاب سوشل میڈیا کا وجود میں آنا ہے جس کی عام عوام تک رسائی کی مثال نہیں ملتی. ایک رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا کے صارفین کی تعداد اس وقت دو ارب سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ چونکہ سوشل میڈیا ایک آزاد پلیٹ فارم ہے جس پر دنیا بھر کے صارفین اپنی آواز آسانی کے ساتھ بلند کرتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں نے الیکٹرانک میڈیا کی طرح اسے بھی اپنے کنٹرول میں کرنے کی کوشش کرتے ہوئے قانون سازی کر لی جسے سائبر کرائم ایکٹ کا نام دیا گیا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان سمیت دنیا بھر میں میڈیا کی طاقت سے انکار ممکن نہیں۔ حال ہی میں ترکی کی فوجی بغاوت کو میڈیا ہی کے ذریعے کچلا گیا… مگر ماضی میں ہم دیکھتے آئے ہیں کہ میڈیا ہی کی غلط رپورٹنگ کے باعث عراق اور لیبیا پر جنگ مسلط کر دی گئی.. الیکٹرانک میڈیا بشمول سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کی آواز بن کر اقتدار کے اعلٰی ایوانوں تک پہنچیں اور اب جنگ و جدل کے ماحول سے نکل کر عوام کے مسائل اور انکے دیر پا حل کی جانب توجہ دیں.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply