جہاد اور غربت کا باہمی تعلق…عظمت نواز

ہم پانچویں جماعت میں تھے تو ایک نیا طالب علم ہماری جماعت میں داخل ہوا، نام سمیع اللہ۔ بولنے میں ذرا سا توتلا مگر بہت ذہین بچہ طالب علم۔ کوئی اتا پتہ نہ تھا کہ کہاں سے ہے اور کون ہے. چند دن میں جب دوستی ہو گئی تو اس نے بتایا کہ وہ یتیم ہے اور کسی اور گاؤں سے اس کی بہن بیاہ کر ہمارے گاؤں آئی یے تو یہ بہن کے پاس رہتا ہے۔

اس کا گھر ہمارے گھر ذرا سے دور تھا سو گھروں میں آنا جانا نہ تھ۔ بہت دن جب گزر گئے تو ایک دن سمیع کے ساتھ اس تجسس میں کہ کس گھر میں رہتا ہے، دیکھنے اس کے گھر جا پہنچے۔ وہاں کوئی گھر نہیں تھا البتہ ڈیڑھ کمرے پر مشتمل ایک کھولی نما چیز تھی. وہاں ایک بالکل سمیع جتنی یا اس سے کوئی دو تین سال عمر میں بڑی ایک لڑکی برتن دھو رہی تھی۔  سمیع سے پوچھا تو پتہ چلا یہی تو اس کی بہن ہے جو بیاہ کر ہمارے گاؤں آئی ہے اور جس کے گھر وہ رہتا ہے۔ پر اس گھر میں تو ہم گاؤں سے شہر جاتے ہوئے کبھی کبھار ایک ادھیڑ عمر بندہ دیکھا کرتے تھے جو اس گھر کے باہر گوشت کی دکان کرتا تھا. خیال آیا اس کے بیٹے سے اس لڑکی کی شادی ہوئی ہوگی مگر مزید انکشاف کیا ہوا، جی وہی جو آپ سوچ رہے ہیں. اسی بوڑھے سے اس لڑکی کا بیاہ ہوا تھا۔

خیر کوئی حیرانی والی بات نہیں۔ اس گھر میں غربت کا کیا عالم تھا، وہ لکھنے کا حوصلہ نہیں۔ جب ہم چھٹی جماعت میں پہنچے تو کلاس کے شروع میں ایک ہفتہ تک سمیع سکول نہ آیا تو ہم پتہ لینے اس کے گھر پہنچے. اس کی بہن نے بتایا کہ اب وہ سکول نہیں آئے گا، پوچھا تو بتایا وہ کل سے کنڈکٹر کی نوکری پر لگ گیا ہے، ہم پلٹ آئے. اس دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اب سمیع کی تو جان چھوٹ گئی پڑھائی سے، کاش کسی طور ہم بھی اس عذاب سے بچ سکتے۔

کچھ دن بعد ابا کے ساتھ گاؤں سے شہر والی گاڑی پر سوار ھوئے تو سمیع کو اس گاڑی کے پیچھے کنڈکٹر کے طور پر لٹکا ھوا پایا۔ یوں پہلی اور آخری دفعہ اس کو کنڈکٹری کرتے دیکھا اور پھر گردش ایام نے کبھی ملاقات نہ ہونے دی۔ آٹھویں جماعت پاس کر جانے کے بعد ہم شہر چلے گئے اور پھر واپسی ہوئی، بارھویں جماعت کے بعد۔  کہیں سے پتہ چلا کہ سمیع شہید ہوگیا ہے، کہاں شہید ہوا؟ کس کے ساتھ گیا؟ یہ سب پتہ کرنے کے لیے پرانے یار بیلیوں کے پاس پہنچا تو خبر یہ تھی کہ چونکہ کشمیر کا جہاد ان دنوں جائز چل رہا تھا سو سمیع وہاں شہید ہوا۔ جی وہی ہمارا اپنا مقبوضہ کشمیر۔ ایک ہفتہ تو اس کی بہن نے ایک آنسو نہ بہایا کہ لانے والوں نے وعظ میں شہید پر رونا منع فرما دیا تھا۔ مگر ایک ہفتہ ہی گزرا کہ اس کی بہن تب سے اب تک نیم پاگل سی پھرتی ہے۔

لکھاری بنا سجا کر کہانیاں لکھتے ہیں، یہ ہم جیسے اناڑیوں کے بس کی بات نہیں۔ اس کہانی میں بھی کوئی خاص بات بالکل نہیں ہے لیکن یہ آخری دو لائنیں ہیں جن پر غور کے واسطے یہ ساری کتھا لکھی۔  وہ مجاہدین آزادی جو سمیع کو راہ خدا میں لے کر گئے تھے وہ اس وقت چھہ گز کی دستار میں ہوتے تھے، اب اس کی لمبائی بڑھ کر بارہ گز ہوگئی ہے۔ کرشمہ خداوندی یہ ہے کہ اس کے بعد بھی بے شمار راہ خدا کے متوالے کافی سارے جہادوں میں گئے مگر کبھی شہادت کے رتبے کو نہ پایا. بلکہ ایک انھوں نے کیا، ان کے کسی ایک بھائی، بھانجے، بھتیجے، کسی قریبی عزیز تک نے جام شہادت آج تک نوش نہیں فرمایا. مگر سمیع جیسے جتنے یتیموں کو لے کر گئے وہ سب شہادت کے رتبے پر فائز ہوکر لوٹے۔

وہ جہادی بھرتی والے صاحبِ جبہ و دستار اور ان کے احباب نے کشمیر کا جہاد ناجائز قرار دیے جانے کے بعد ڈھیر سارے جہادوں میں حصہ ڈالا. حصہ ڈالا کا مطلب یہ کہ جوان تگڑے بچے خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر بھرتی کیے۔ پر یہ حقیقت ہے کہ خود ابھی تک شہادت کو ترس رہے ہیں؛ بدنصیب۔

سمیع کی کھولی کی جگہ اب ایک پکا بڑا گھر ہے. اس راز سے پردہ یوں اٹھا جب لوگوں نے بتایا کہ اس کے اللہ کی راہ میں نکلتے ہی فورا اس ادھیڑ عمر مرد نے دو پکے کمرے بنائے تھے۔ شاید سمیع کے جہاد میں جانے کے فورا بعد فتح ہوئی ہو اور اس نے مال غنیمت سمیٹ کر بھیجا ہو جس سے دو کمرے بنا لیے گئے ہوں…

Advertisements
julia rana solicitors

جنگ ایک منافع بخش کاروبار ہے. ٹینک اور ٹینک شکن میزائل اور جنگی جہاز اور اینٹی ایئر کرافٹ میزائل ایک ہی کمپنی بناتی ہے اور اپنے ہی وسائل سے میدان جنگ تک پہنچاتی ہے. اس سارے کاروبار میں انسانی سرمائے کی جہاں جہاں ضرورت پڑتی ہے اس کی فراہمی کے لیے بھرتی سنٹر جگہ جگہ کھلے ہوئے ہیں. اپنے بچوں کو انسانی گوشت کے ان بیوپاریوں سے بچانا آپ کا اپنا کام ہے.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”جہاد اور غربت کا باہمی تعلق…عظمت نواز

  1. تحریر کےمتن پر اور بھی بہت سے لوگ تبصرہ کریں گے اور مجھ سے کئی گنا بہتر تبصرہ کریزن گے.

    لیکن مجھے اس وقت عظمت کے اندازِ تحریر پر تبصرہ کرنا ہے. ماشاءاللہ عظمت کے قلم اور تحریر میں روز بروز پختگی بڑھتی جارہی ہے. جو قابلِ تحسین بھی ہے اور قابلِ رشک بھی.

    تصنع اور ملمع کاری سے سجی تحریر کی مثال ایسے ہے جیسے کسی ادھیڑ عمر خاتون نے کلو کے حساب سے میک اپ تھوپ کر حسین نظر آنے کی کوشش کی ہو.

    جبکہ سادگی میں جو حسن ہے اس کی بلاخیزی سے کون واقف نہیں…

    اس لیے کسی بھی تحریر کو سراہنے سے پہلے اس کی جو پہلی چیز نوٹ کرتا ہوں. وہ اس تحریر کی سادگی ہے. اوربلاشبہ اس تحریر کی سادگی ہی اس تحریرکا حسن ہے…

    جیتے رہو عظمت نواز… اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ

Leave a Reply