ہماری رنگین کائنات۔۔۔محمد یاسر لاہوری

ڈیجٹل کیمرے کے بغیر۔۔۔میں نے یہ تمام تصاویر (نیبیولا، چاند سورج سیاروں اور ستاروں کی) موبائل کیمرہ اور اپنے 4.5 انچ قطر Diameter والے ٹیلی سکوپ سے لی ہیں۔موبائل سے یہ کام کرنا ناممکن تو نہیں لیکن بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔
یہ کل دس تصاویر ہیں۔جنہیں میں نے ایک ہی تصویر میں جوڑ کر اکٹھا کر دیا ہے۔اس تحریر میں آپ تصویر میں موجود ان تمام فلکیاتی اجسام کے متعلق پڑھیں گے۔

تصویر میں ترتیب کچھ یوں  ہے۔

1-سیارہ زہرہ
2-سیارہ مشتری
3-سیارہ زحل
4-اوراین نیبیولا
5-چاند
6-سورج
7-انٹارس ستارہ
8-بیتلجوز ستارہ
9-سائریس ستارہ

1-سیارہ زہرہ Venus
دائیں طرف سب سے اوپر ہلال کی شکل والا یہ سیارہ زہرہ Venus planet ہے۔زمین کے دو ہمسائے سیارے ہیں۔ایک طرف مریخ Mars اور دوسری طرف زہرہ یعنی Venus ہے۔یہ سیارہ زمین سے دیکھنے پر چاند کی طرح گھٹتا بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔اس سیارے کا گھٹنا اور بڑھنا بتاتا ہے کہ اس کا مدار Orbit زمین اور سورج کے درمیان میں ہے۔رات کے وقت چاند کے بعد زہرہ سیارہ آسمان پر چمکنے والے تمام فلکی اجسام میں سب سے روشن چیز ہے۔زہرہ ہمارے نظام شمسی Solar system کا سب سے گرم سیارہ بھی ہے، اس کا اوسط درجہ حرارت 462 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔زہرہ کا اوربیٹل پیریڈ بھی ہمارے ںظام شمسی کا سب سے لمبا ہے (کسی سیارے یا ستارے وغیرہ کا اپنے محور کے گرد ایک چکر لگانا اوربیٹل پیریڈ Orbital period کہلاتا ہے)
عطارد اور زہرہ ہمارے نظام شمسی کے دو ایسے سیارے ہیں جن کے پاس اپنا کوئی بھی قدرتی چاند نہیں ہے۔زہرہ سیارہ اس قدر روشن ہوتا ہے کہ زمین کے بعض حصوں سے اسے دن کی روشنی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

2-سیارہ مشتری Jupiter
دائیں طرف دوسرے نمبر پر ہمارے نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ مشتری Jupiter planet ہے۔سورج کی طرف سے یہ ہمارے نظام شمسی کا پانچواں سیارہ ہے۔مشتری ایک گیسی سیارہ ہے۔یعنی اس پر کھڑا ہونے کے لئے آپ کو اس پر ٹھوس سطح نہیں ملے گی۔اس کا فاصلہ زمین سے 60 کروڑ کلومیٹر سے لے کر 90 کروڑ کلومیٹر تک ہو سکتا ہے۔اس تصویر میں آپ مشتری کی گیسی پٹیاں بھی دیکھ سکتے ہیں۔مشتری کے پاس لگ بھگ ساٹھ سے اوپر چاند ہیں۔جن میں سے چار مشہور گیلیلین چاند ہیں جنہیں 1610ء میں ایک اٹالین فلکیاتدان گیلیلیو گیلیلی نے اپنی دوربین سے دریافت کیا تھا (چار گیلیلین چاند۔۔گانیمید، کیلسٹو، یوروپا اور آئی او io ہیں)

3-سیارہ زحل Saturn
اسی لائن میں تیسرے نمبر پر نظام شمسی کا دوسرا سب سے بڑا گیسی سیارہ زحل Saturn planet ہے۔سورج کی طرف سے یہ ہمارے نظام شمسی کا چھٹا سیارہ ہے۔اس تصویر میں آپ زحل کے گرد خوبصورت قدرتی حلقوں Rings کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔یہ حلقے کیسے وجود میں آئے اس متعلق ہونے والی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ حلقے زحل کے ایک چاند کی باقیات ہیں جسے زحل کی کششِ ثقل نے توڑ پھوڑ دیا تھا، بعد میں زحل کی کشش ثقل نے اس کے ملبے کو اپنے ارد گرد گھمانا شروع کر دیا۔دوربین کے ذریعے تمام سیاروں میں سے زحل کا نظارہ کرنا مسحور کر دیتا ہے خاص کر تب، جب اس کے Rings یعنی یہ حلقے واضح ہوں۔1610 عیسویں سے پہلے دوربین ایجاد نہیں ہوئی تھی اس لئے گیلیلو گیلیلی نے ہی پہلی بار زحل کے حلقوں کو دریافت کیا تھا۔ایک عام (بیس سے تیس x زوم والے ٹیلی سکوپ سے اس کے حلقوں کو با آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔زحل کی سطح کو ہائیڈروجن، ہیلیم اور میتھین گیسوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔

4-اوراین نیبیولا Orion
دائیں طرف والی لائن کے آخر میں نا ہی کوئی سیارہ ہے اور نا ہی یہ کوئی ستارہ ہے۔یہ اوراین نیبیولا Orion nebula ہے۔نیبیولا کو اردو میں سحابیہ بھی کہتے ہیں۔یہ وہ واحد نیبیولا ہے جو زمین سے ننگی آنکھ کے ساتھ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔زمین سے تیرہ سو چوالیس 1344 نوری سال کی دوری پر گیس اور گرد کے یہ عظیم بادل اپنے اندر بہت سے ستاروں کو جنم دے رہے ہیں۔ایسے ہی سحابیوں میں ستارے بنتے ہیں۔ایک اچھے اور بڑے ٹیلی سکوپ سے اس کا نظارہ کرنا انسان کو دنیا و مافیھا سے بے خبر کر دیتا ہے۔گیسوں سے بنے یہ رنگا رنگ بادل اور ان میں چمکتے خوبصورت ستارے یہ بات بتاتے ہیں کہ “اس کائنات کے بنانے پر ہی توجہ نہیں دی گئی بلکہ اس میں خوبصورتی کے وہ تمام مناظر بھی بھرے گئے ہیں جو کسی بھی ذی شعور مخلوق کو مبہوت کرنے کے لئے کافی ہیں”
ستارے بنانے والی یہ نرسری (فیکٹری) زمین سے قریب ترین ستارے بنانے والی نرسری ہے۔اوراین Orion nebula کے یہ بادل 25 پچیس نوری سال کی مسافتوں تک پھیلے ہوئے ہیں (یہ کتنے بڑے فلکیاتی علاقے تک پھیلے ہوئے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ “خلائی جہاز وائجر وَن کو اس کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جانے کے لئے کم و بیش چار لاکھ چھپن ہزار 456000 سال لگ جائیں، یاد رہے وائجر ون خلائی جہاز 62000 باسٹھ ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہا ہے)

5-ہماراچاند The Moon
درمیان والی لائن میں اوپر نیچے چاند کی دو تصاویر ہیں۔یہ ہماری زمین کا اکلوتا چاند ہے۔تقریبا ساڑھے تین ہزار کلومیٹر 3500km ڈائی میٹر کا حامل ہمارا چاند 27.3 دنوں میں زمین کے گرد ایک چکر پورا کرتا ہے۔یہ ہمارے نظام شمسی کا پانچواں سب سے بڑا چاند ہے۔اناستھرو سائٹ نامی نایاب پتھر کا یہ عظیم گولہ اپنی تخلیق کے دن سے لے کر آج تم اپنی ڈیوٹی زمین کے گرد چکر لگاتے ہوئے سر انجام دے رہا ہے۔بعض احباب کے نزدیک یہ نظریہ پایا جاتا ہے کہ چاند کی اپنی روشنی ہے۔ایسا بالکل نہیں ہے، ایک چھوٹے ٹیلی سکوپ سے چاند کو دیکھا جائے تو ان کا یہ نظریہ غلط ثابت ہو جاتا ہے۔اناستھرو سائٹ نامی چمکیلے پتھر سے بنی چاند کی سطح پر جب سورج کی روشنی پڑتی ہے تو وہ روشنی منعکس ہو کر زمین تک پہنچتی ہے۔جب شروع کی قمری تاریخوں میں چاند بڑھ رہا ہو یا آخری تاریخوں میں کم ہو رہا ہو تو تب دوربین کے ذریعے چاند کی سطح کو دیکھنے پر ہمیں یہ بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ چاند کا کچھ حصہ روشن ہے اور کچھ اندھیرے میں ہے۔روشنی اور اندھیرے کے درمیان والا حصہ آپ کو حیران و مسحور کر دے گا جب آپ دیکھیں گے کہ چاند پر موجود بہت بڑے بڑے گڑھے آدھے روشن ہیں اور آدھے سائے میں ہیں۔

6-ہمارا سورج Sun
درمیان میں ہمارے سورج کی تصویر ہے جو کہ ایک بادلوں والی صبح میں طلوع کے وقت لی گئی ہے۔سورج ہم سے پندرہ کروڑ کلومیٹر دور ہے۔چودہ لاکھ 1400000 کلومیٹر کا ڈائی میٹر رکھنے والے ہمارے سورج کی سطح کا درجہ حرارت ساڑھے پانچ ہزار 5505 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔سورج ہمارے نظام شمسی کی ہر چیز کو اپنے ساتھ لئے ہوئے 251 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے پچیس کروڑ سالوں میں ملکی وے کہکشاں کے گرد ایک چکر پورا کرتا ہے۔ہمارا سورج ہماری کہکشاں کے مرکز سے کم و بیش 25000 پچیس ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے۔یاد رہے پچیس کروڑ سال یعنی ملکی وے کے ایک چکر کے دوران سورج اکیس نوری صدیوں کے برابر سفر کرتا ہے (ایک نوری صدی میں 100 نوری سال ہوتے ہیں اور ایک نوری سال میں روشنی ساٹھ کھرب میل کا فاصلہ طے کرتی ہے)
سورج کی سطح پر ابلتی گیسوں کے مناظر اچھے سے دیکھنے کے لئے کم از کم آپ کے پاس 300x سے 350x والی دوربین ہونی چاہیے۔

انتباہ❌
(سورج کو دیکھنے کے لئے دوربین کے آگے ایک خاص قسم کا فلٹر لگایا جاتا ہے جسے سولر فلٹر کہا جاتا ہے۔اگر آپ یہ فلٹر استعمال نہیں کریں گے تو سورج کی طرف دوربین کرتے ہی آپ کی آنکھ اور دوربین دونوں ضائع ہو جائیں گے)

7۔ستارہ انٹارس Antares
دائیں لائن میں پہلے نمبر پر ستارہ انٹارس کی تصویر ہے جو جنوبی آسمان کا سب سے روشن ستارہ ہے۔رات کے آسمان کا یہ پندرواں روشن ترین ستارہ ہے۔آج کل آپ اس ستارے کو رات بارہ بجے کے بعد عین جنوب کے تقریبا وسط میں چمکتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔اس کی پہچان یہ ہے کہ یہ ستارہ ٹمٹماتا ہوا سرخ رنگ کو ظاہر کرے گا۔ہماری زمین سے 600 نوری سال کی مسافت پر یہ ستارہ اپنی سطح کو تین ہزار ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت سے گرم رکھتا ہے۔ڈائی میٹر کے حساب سے یہ سورج سے ساڑھے آٹھ سو 850 گنا زیادہ بڑا ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ اب تک کی تحقیق کے مطابق یہ انسانی علم میں چوتھا سب سے بڑا ستارہ ہے (اس ستارے کے متعلق تفصیل سے پڑھنے کے لئے پہلے سے لکھا ہوا میرا مضمون “انٹارس ستارہ” پڑھیں)

8۔ستارہ بتلجوز Betelgeuse
چھ سو بیالیس 642 نوری سال کی مسافت پر یہ ستارہ رات کے آسمان کا دسواں 10 روشن ترین ستارہ ہے۔اس کو آپ سردیوں کے سیزن میں اوراین برج Orion Constellation میں اس کی سرخ رنگت کی وجہ سے با آسانی ڈھونڈ سکتے ہیں۔دس ملین یعنی ایک کروڑ سال کی عمر گزار چکا یہ ستارہ ایک محتاط اندازے کے مطابق آئندہ دس لاکھ سال کے اختتام پر اپنی موت کو گلے لگا لے گا (یاد رہے کہ ستاروں کی موت کی پشین گوئی حتمی طور پر نہیں کی جا سکتی، فلکیاتی اسکیل پر سیاروں ستاروں وغیرہ کی عمریں کروڑوں اربوں سال میں ہوتی ہیں۔۔۔لہذا ان کی پیدائش یا موت کو بیان کرتے ہوئے ہم اگر یہ کہیں کہ آئندہ چند ہفتے تک یا چند لاکھ سال تک فلاں ستارے کی موت واقع ہو سکتی ہے تو اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا، ہو سکتا ہے اس ستارے کی موت واقع ہو چکی ہو اور آئندہ کچھ دن مہینے یا سالوں تک ہمیں یہ سپرنووا دھماکے کی صورت میں اپنی موت کی خبر سنا دے)
یہ ہمارے سورج سے اس قدر بڑا ہے کہ اس کی موت عام طریقے سے نہیں ہو گی بلکہ یہ ایک سپرنووا (Supernova) دھماکے سے اپنی زندگی کے اختتام کو پہنچے گا۔بہت بڑے سپرنووا دھماکے کے نتیجے میں یہ اپنے اندر سے اتنی روشنی اور حرارت کو خارج کرے گا اور اپنا سائز اتنا بڑا کر لے گا کہ ممکن ہے کچھ ہفتوں تک زمین سے دیکھنے پر رات کو یہ چاند کی طرح نظر آیا کرے گا۔مزید یہ کہ دن کے وقت بھی اس کے نظر آنے کے امکانات ہوں گے (اگر تب تک اس کی موت کا مشاہد کرنے کے لئے زمین اور اہل زمین یہاں موجود ہوئے تو یہ منظر اہل زمین کو ضرور مسحور کر دے گا) بیتلجوز سائز میں ہمارے سورج سے اس قدر بڑا ہے کہ اگر اس کو سورج کی جگہ رکھ دیا جائے تو مشتری تک کے تمام سیارے یہ اپنے اندر لے لے گا۔

9۔ستارہ سائریس Sirius
زمین سے نظر آنے والے ہزاروں ستاروں میں سب سے روشن ستارہ سائریس ہے۔زمین سے آٹھ اعشاریہ چھ 8.6 نوری سال دور یہ دو ستاروں کا ایک سسٹم ہے۔ان میں سے ایک ستارے کا نام Sirius A اور دوسرے ستارے کا نام Sirius B ہے۔سائریس Sirius B پر کشش ثقل اس قدر زیادہ ہے کہ “اگر آپ وہاں تین گرام مادہ (کوئی بھی چیز جس کا وزن تین گرام ہو) لے کر جا سکیں تو اس کا وزن وہاں Sirius B ستارے پر ایک ہزار کلو 1000 Kilos ہو گا۔سائریس ستارہ ہمارے سورج سے پچیس گنا زیادہ روشن ہے۔اس کی روشنی نا ہی سرخ ہے اور نا ہی پیلی۔بلکہ یہ ستارہ تھوڑا سا نیلا پن لئے ہوئے سفید روشنی بکھیرتا ہے جو کہ دوربین سے دیکھتے وقت انتہائی خوبصورت دکھائی دیتی ہے۔ننگی آنکھ سے دیکھنے پر یہ ایک ہی ستارہ نظر آتا ہے لیکن ایک نہایت طاقتور اور بڑی دوربین سے آپ اس کے ساتھ دوسرے چھوٹے ستارے کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔

یہ ہماری رنگین کائنات کے کچھ دلفریب مناظر اور ان کی معلومات ہے۔جو لوگ ناسا کی لی ہوئی تصاویر کو جھٹلا کر اپنے آپ کو باعقل و شعور ثابت کرتے رہتے ہیں ان کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ تمام تر تصاویر میں نے اپنی چھت (لاہور) سے لی ہیں۔یہ بات اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ کچھ احباب کے نہایت جہالت والے نظریات آئے دن آنکھوں سے گزرتے رہتے ہیں۔

ایک صاحب فرما رہے تھے کہ یہ جو سیارے ہیں۔۔۔ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔۔ناسا لوگوں کو بیوقوف بناتا ہے۔
ایسے ہی ایک اور صاحب نے فرمایا کہ “ستارے کوئی ایسی چیز نہیں جیسی ناسا ہمیں دکھاتا ہے”
ایک اور صاحبِ عقلِ کُل فرما رہے تھے کہ “چاند کے اندر اپنی روشنی ہے جو وہ گھٹاتا بڑھاتا رہتا ہے”
ایسے لوگوں کی انتہاء درجے کی جاہلانہ باتوں کو اگر آپ شمار کرنا چاہیں تو اس چھوٹی سی تحریر مین ممکن نہیں۔صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ خود کو بیوقوف بنا کر اپنی اس حماقت پر خوش ہونا عقلمندی نہیں ہے۔اختلاف کیجیے لیکن اختلاف کے لئے آپ کے پاس کوئی واضح دلیل بھی ہونی چاہیے۔آپ ایک ایسی چیز کو جھٹلا رہے ہیں جو آنکھوںکے سامنے ہے۔

ناسا کو ہم سائڈ پر کر دیتے ہیں۔
آپ سیاروں اور ان کے گرد گھومتے چاندوں کے وجود کو مانتے ہی نہیں۔۔۔جبکہ میں نے ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
آپ کہکشاؤوں کا انکار کرتے ہیں۔۔۔میں پچھلے سیزن میں کئی بار اینڈرومیڈا گلیکسی کو اپنے ٹیلی سکوپ سے براہ راست دیکھ چکا ہوں۔
آپ سیٹلائٹ کا نکار کرتے ہیں۔۔۔میں نے چاند کی طرف ٹیلی سکوپ کا رخ کرتے وقت تقریبا 2 بار سیٹلائٹ کو گزرتے دیکھا۔
ان باتوں سے کیا نتیجہ اخذ کروں میں؟ کیا میں انتظار کروں کہ آپ میں سے کوئی اٹھ کر مجھ پر فتوی لگائے کہ “میں ناسا کا ایجنٹ ہوں۔۔۔!!! کیا میں انتظار کروں اس بات کا کہ کوئی مجھ پر الزام لگائے کہ “میں پیسے لے کر یہ باتیں پھیلا رہا ہوں”

خدارا! علم پھیلائیں۔۔۔جہالت نہیں!
سائنس و ٹیکنالوجی میں اس قوم و ملک کی ترقی کا باعث بنیں نا کہ زوال کا!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ستارہ سائریس کے متعلق تفصیلا پڑھنے کے لئے نیچے دیا گیا لنک اوپن کریں۔

https://m.facebook.com/groups/2100179193327606?view=permalink&id=2447522171926638

ستارہ انٹارس کے متعلق ایک تفصیلی تحریر نیچے لنک میں۔

https://m.facebook.com/groups/2100179193327606?view=permalink&id=2427965637215625

سورج اور چاند کے بارے میں نہایت پرتجسس آرٹیکل نیچے دیئے گئے لنک میں۔

https://m.facebook.com/groups/2100179193327606?view=permalink&id=2339614836050706

سیارہ مشتری پر ایک چھوٹی سی تحریر نیچے لنک میں۔

Advertisements
julia rana solicitors

https://m.facebook.com/groups/2100179193327606?view=permalink&id=2399797080032481

Facebook Comments

محمد یاسر لاہوری
محمد یاسر لاہوری صاحب لاہور شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت عرصہ سے ٹیچنگ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سائنس، فلکیات، معاشرتی بگاڑ کا سبب بننے والے حقائق اور اسلام پر آرٹیکلز لکھتے رہتے ہیں۔ جس میں سے فلکیات اور معاشرے کی عکاسی کرنا ان کا بہترین کام ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply