یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت زیادہ بحث ہوئی ہے لیکن کسی نتیجے کے بغیر۔ یہاں، میں اس کے بارے میں اپنے خیالات بیان کرنا چاہوںگا۔ اس کے بارے میں دو آراء یا نظریات ہیں۔ پہلا نظریہ یہ ہے کہ سائنس مذہب کی مخالف یا دشمن ہے، چاہے وہ کوئی بھی مذہب ہو۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ سائنس مذہب کے ماتحت ہے ۔ میرے خیال میں دونوں نظریات درست نہیں ہیں۔ دونوں کا اپنا ڈومین یا دائرہ کار ہے۔
سائنس فطرت کا مطالعہ اور اس کے فطری قوانین کی دریافت ہے. اگرچہ لوگ کہتے ہیں کہ سائنس وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ صحیح نہیں ہے. سائنس وقت کے ساتھ ترقی کرتی ہے. یہ فطرت کے مشاہدے اور اس کی تشریح پر منحصر ہے۔اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، پودوں کو ایک غیر زندہ چیز کے طور پر سمجھا اور جانا جاتا تھا، یہ صرف 200 سال پہلے کی بات ہے جب ہمیں پتہ چلا کہ پودے بھی زندہ مخلوق ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پودے اس کی دریافت سے پہلے زندہ مخلوق نہیں تھے۔ وہ کائنات کے آغاز سے ہی زندہ مخلوق رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب سبزی خور کہتے ہیں کہ وہ گوشت نہیں کھانا چاہتے کیونکہ یہ زندہ جانوروں کو مار کر حاصل کیا جاتا ہے۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ سبزیاں کیوں کھاتے ہیں؟ سبزیاں بھی تو زندہ مخلوق ہیں۔ آپ مارےہوئے یا مردہ جانوروں کا گوشت نہیں کھاتے لیکن زندہ سبزیاں اور پھل کھا جاتےہیں۔ کیا زندہ سبزیوں کو ابالنا یا زندہ پھل کھانا ظلم نہیں ہے؟ صرف اس لیے کہ وہ کچھ نہیں کہتے، اور وہ چیخ کر احتجاج نہیں کرتے۔ آپ کو زندہ سبزیاں اور پھل کھانے میں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن غیر زندہ گوشت کھانے پر اعتراض ہے۔ آپ کو زندہ درخت کے پتے اور شاخیں کاٹنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے جو کسی بھی زندہ جانور کے عضو کو کاٹنے کے برابر ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ پودوں کو صدیوں سے غیر زندہ سمجھا جاتا رہا ہے۔
اب فزکس اور کیمسٹری پر غور کریں۔ دو صدیاں پہلے، کوئی نہیں جانتا تھا کہ کیمیائی رد عمل کیسےعمل پذیر ہوتے ہیں. پھر کیمسٹری مرکبات کے مختلف رد عمل اور ان کی ساخت کی دریافت کے ساتھ ترقی کرنے لگی ، جنہیں پہلےمرکبات کو صرف ایک ہی چیز یا عنصر سمجھا جاتا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مرکبات ان کی ساخت کی دریافت سے پہلے مرکبات نہیں تھے۔
اب مذاہب کی بات کریں تو یہ انسانی نفسیات کی ضرورت ہے۔ انسان کسی مذہب کے بغیر نہیں رہ سکتا، چاہے وہ کسی بھی مذہب کی پیروی کرے ۔یقینا ً ایسے لوگ بھی ہیں جو خود کو ملحد کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ خدا یا مذہب کو نہیں مانتے۔ ان کا مذہب انسانیت ہے۔ میں ان کے عقائد کا احترام کرتا ہوں لیکن ان سے اختلاف بھی رکھتا ہوں۔میرے خیال میں لادینیت بھی بذات خود ایک مذہب ہے۔ مثال کے طور پر ایک نابینا شخص اس گلاس کی موجودگی سے انکار نہیں کر سکتا جو اس کی پہنچ سے باہر ہے جب تک کہ اسے معلوم نہ ہو کہ گلاس کیا ہے۔اسی طرح صرف پیدائشی نابینا شخص ہی رنگوں کی موجودگی سے انکار کر سکتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رنگ موجود نہیں ہیں. لہٰذا اس کے رنگوں کی موجودگی سے انکار کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص جو بعد میں زندگی میں اندھا ہو جاتا ہے وہ کسی شے کے رنگ سے انکار کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسے رنگوں اور اس کی موجودگی کا علم ہے۔ لہٰذا، اس کے انکار کا مطلب رنگوں کی عدم موجودگی نہیں ہوگی اور پھر اس کے انکار کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی ملحد خدا کی موجودگی سے انکار کرتا ہے تو اس کے ذہن میں خدا کا تصور ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کا تصور غلط ہوسکتا ہے ، لیکن یہ خدا پر اس کے ایمان کو ظاہر کرتا ہے۔ کوئی بھی شخص کسی بھی چیز کی موجودگی سے انکار نہیں کرسکتا جب تک کہ اسے اس کے بارے میں کوئی احساس نہ ہو۔ یہاں میں ایک کہانی بیان کر تا ہوں جو میں نے اپنے ابتدائی بچپن میں پڑھی تھی۔ کہانی کچھ اس طرح ہےکہ ایک لڑکا پیدائشی طور پر نابینا بھکاری کے پاس کھیرلے کر آیا اور اس سے پوچھا کہ کیا وہ اسے کھانا پسند کرے گا۔ چونکہ بھکاری نے کبھی کھیر نہیں دیکھی تھی، اس لیے اس نے لڑکے سے پوچھا کہ کھیر کیا ہوتی ہے۔ لڑکے نے کہا کہ وہ سفید رنگ کی ہوتی ہے۔ بھکاری نے لڑکے سے پوچھا کہ سفید رنگ کیا ہوتاہے کیونکہ اسے رنگوں کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ لڑکے نے بھکاری سے کہا کہ یہ ہنس کی طرح ہوتا ہے۔ چونکہ بھکاری نے کبھی ہنس نہیں دیکھا تھا، اس نے پھر پوچھا، ہنس کیا ہوتاہے۔ چونکہ لڑکا ہنس کو بیان نہیں کر سکتا تھا ، لہذا اس نے ہنس کی گردن کی طرح اپنا ہاتھ موڑ کر اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ بھکاری نے اسے اپنے ہاتھ سے محسوس کرنے کی کوشش کی اور پھر کہا کہ وہ اتنی ٹیڑھی کھیر نہیں کھا سکتا۔ یوں ٹیڑھی کھیر والا محاورہ وجود میں آیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کی موجودگی یا عدم موجودگی سے انکار یا قبول کرنے کے لئے، اس کا ادراک ہونا ضروری ہے.
اس کہانی میں مزید سبق یہ ہے کہ کسی بھی ایسی چیز سے انکار جسے وہ سمجھ نہیں پاتا، اس کا مطلب اس کی عدم موجودگی نہیں ہے۔ کسی بھی چیز کی سمجھ اس کے ماضی کے تجربے یا رابطے پر منحصر ہے. یا پھر یہ کسی اور کے بیان پر منحصر بھی ہوسکتا ہے اگر وہ شخص قابل اعتماد ہے۔ لہٰذا ملحد کی طرف سے خدا سے انکار کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا موجود نہیں ہے۔ یہ صرف اس لئے ہے کیونکہ اس کے پاس اسکی موجودگی کے بارے میں کوئی سابقہ تجربہ یا رابطہ یا ثبوت موجود نہیں ہے۔ خدا کے وجود کا موضوع اس لئےدرمیان میں آیا کہ کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جو خدا کے بغیر ہو۔ لیکن مختلف مذاہب میں خدا کا تصور مختلف ہوسکتا ہے۔
چونکہ مذہب ایک علامتی اور مافوق الفطرت دنیا سے تعلق رکھتا ہے اور اس میں خیالات اور احکامات متعین ہیں ، جو وقت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتے اس وقت تک جب تک کہ مذہب میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی ہو۔اسی لئے مذہب کے پیروکار مسلسل بدلتی اور ترقی پذیر سائنس کو مذہب کے مخالف اور دشمن کے طور پر دیکھتے ہیں۔ مذہب کا جوہر اور موضوع علامتی یا ما فوق الفطرت دنیا ہے، اس کا سائنس سے موازنہ کرنا ناانصافی ہے۔ مذہب کے مطابق انسان دو جہتی ہے۔ ایک جہت یہ دنیا ہے اور دوسری جہت موت کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اس کے مطابق انسان کبھی بھی فنا نہیں ہوتا ۔اس کی ایک جہت موجودہ زندگی ہے اور دوسری جہت مرنے کے بعد کی زندگی ہے جو کبھی ختم نہ ہونے والی زندگی ہے۔ جبکہ سائنس کبھی بھی پوسٹ مورٹل جہت یعنی بعد از مرگ زندگی کے بارے میں بات نہیں کرتی ہے۔ صرف یہی نہیں، سائنس اخلاقیات اور اخلاقی اقدار کے بارے میں بھی بات نہیں کرتی ہے، جو اکثر مذہب کا یا سماج کا دائرہ کار ہوتا ہے۔اگرچہ لادینیت بھی اخلاقیات کے بارے میں بھی بات کرتی ہے ، اور عام طور پر معروف مذاہب سے کہیں بہتر بات کرتی ہے ۔اسی لئے میری رائے میں لادینیت کو مذہب ماننے کی یہ بھی ایک اور وجہ ہے۔ اس طرح، سائنس اور مذہب دو مختلف اکائیاں ہیں۔ دونوں ریلوے ٹریک کی طرح متوازی چلتے ہیں اور ایک دوسرے کو پار نہیں کرتے۔
یہ بھی نوٹ کیا جانا چاہیے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ کسی بھی مذہب میں وقت کے ساتھ کبھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ہر مذہب وقت کے ساتھ بدل گیا ہے. تبدیلی کی مقدار مختلف مذاہب میں مختلف ہوسکتی ہے۔ کچھ مذاہب ڈرامائی طور پر بڑی حد تک بدل گئے ، جبکہ دوسرے مذاہب تبدیلی کے لئے لچکدار رہے ہیں۔ محتلف مذاہب میں ہونے والی تبدیلی میں کوئی استثناء نہیں ہے. یہی وجہ ہے کہ ہر مذہب فرقوں میں تقسیم ہے۔ کوئی ایک مذہب ایسا نہیں ہے جو فرقوں میں تقسیم نہ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ہندو اور بدھ مت کے پیروکار اس سلسلے میں مجھ سے متفق نہ ہوں۔ لیکن اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ یہ دونوں مذاہب عالمگیر نہیں ہیں اور دنیا کے ایک خاص علاقے تک محدود ہیں۔ اس لئے ان مذاہب میں شاید کوئی تبدیلی نہ آئی ہو یا تبدیلی کی مقدار بہت کم ہو۔البتہ لادینیت، عیسائیت اور اسلام میں خاصی تبدیلی آئی ہے۔ ہندو اور بدھ مت کے پیروکار یا تو اپنے مذہب سے وابستہ رہتے ہیں یا ملحد بن جاتے ہیں یا پھر الہامی مذہب اختیار کر لیتے ہیں۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی سنا ہے کہ کسی شخص نے ان دونوں مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کو قبول کیا ہو۔ تاہم، ہندوؤں اور غیر ہندوؤں کے درمیان شادی غیر ہندوؤں کو ہندو رسم و رواج پر عمل کرنے پر مجبور کر سکتی ہے اگر ہندو پارٹنر زیادہ طاقتور یا غالب ہو۔جبکہ اسلام اور عیسائیت میں تبدیلیء مذہب عام ہے۔لوگ ان مذاہب میں داخل بھی ہوتے ہیں اور اس سےنکلتے بھی ہیں،
یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ لوگ یہ کیوں سوچتے ہیں کہ سائنس مذہب کے خلاف ہے یا مذہب کی دشمن ہے۔ ایک وجہ، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، سائنس کا موت کے بعد کی زندگی کے تصور کو قبول نہ کرنا ہے یا اس بارے میں خاموش رہنا ہے، جو کسی بھی مذہب کا لازمی حصہ ہے. دوسری وجہ مذہب میں علامتی غیر مرئی ہستیوں جیسے روح، بھوت اور جن وغیرہ کی موجودگی پر یقین ہے جس سے سائنس انکار کرتی ہے۔ تیسری وجہ علامتی واقعات کی سائنسی وضاحت ہے، جسے مذہب کی طرف سے قبول نہیں کیا جاتا . اس کی وضاحت ایک اردو مضمون میں بہت اچھی طرح سے کی گئی ہے جس کا عنوان ہے “، ماسٹر غاؤں غاؤں۔ جس میں ایک تعلیم یافتہ شخص رات کے وقت درخت کے نیچے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی یا کشش ثقل کے تصور کے بارے میں ناخواندہ دیہاتیوں کو بتاتا ہے، وہ اس پر ہنستے ہیں اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ لہٰذا جب مذہبی لوگ سائنس کو اپنے دیرینہ علامتی اور مافوق الفطرت نظریات کے پیچھے پائی جانے والی وجہ تلاش کرتے اور بیان کرتے دیکھتےہیں تو وہ سائنس سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ حالیہ مثال ایک اسلامی مدرسے کے طالب علموں کو پڑھا یاجانے والا سبق ہےجس میں ان کے استاد سورج کے گرد زمین کے گھومنے سے انکار کرتے ہیں۔ جب میں نے لٹریچر تلاش کیا تو میں نے پایا کہ ایک خاص اسلامی فرقے کے تمام علماء کا ماننا ہے کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھومتا ہے۔ وہ اسے قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سائنس مذہب کے خلاف ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ قرآنی آیات اور احادیث کی غلط تشریح کرتے ہیں۔ قرآن یا بائبل سائنس کی کتاب نہیں ہے۔ سائنس ان کتب کا دائرہ کار نہیں ہے۔ یہ الہامی کتابیں بعد از مرگ کی زندگی کے بارے میں بات کرتی ہیں یا پھر غیر مرئی اشیاء یعنی روح ‘جن وغیرہ کے بارے میں لہٰذا کسی بھی سائنسی دریافت کو قرآن یا بائبل میں دی گئی کسی بھی آیت یا بات سے اس کی وضاحت کرنا یا اس سے منسوب کرنا غلط ہے۔ یہ ان علماء کی ان آیات کی تشریح پر منحصر ہے.۔قرآن مجید میں ایک آیت ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ سورج اور چاند آسمان میں تیر رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ صدیوں پہلے لوگوں نے اس آیت کا ترجمہ کیسے کیا تھا جب ان کے پاس خلا اور نظام شمسی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن کوئی سائینسی معلومات فراہم کررہا ہے۔
ایک اور مثال انسانوں پر جن اور روحوں کے قبضے کی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں فلاں کام جن یا شیطان کے قبضے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ لوگ مرگی کے مریض کو مذہبی رہنماؤں کے پاس لے جاتے تھے تاکہ مریض کے جسم سے شیطان یا جن کو نکالا جا سکے۔ یہاں تک کہ آج کی دنیا میں بھی یہ غیر معمولی عمل نہیں ہے. میں اب بھی دیکھتا ہوں کہ یرقان کے شکار نوزائیدہ بچوں کو روحانی علاج کے لیے مولویوں اورمذہبی علماء کے پاس لے جایا جا تا ہے۔ مجھے اب بھی اپنی میڈیکل تعلیم کے دوران ایکلیمپسیا والی خاتون کا ایک کیس یاد ہے، جو بے ہوش تھیں اور ان پر دورے پڑ رہے تھے۔ اسے علاج کے لئے مختلف قبروں اور مذہبی علماء کے پاس لے جایا گیا تھا کیونکہ اس کے لواحقین کے مطابق اس پر جن کا قبضہ تھا۔ بعد میں اسے اسپتال لایا گیا جہاں اس کا علاج کیا گیا اور وہ صحت یاب ہوگئی۔ اس طرح کے واقعات مذہب کی غلط تشریح کی وجہ سے ہوتے ہیں کیونکہ ایسی چیزیں کسی بھی مذہب کے دائرہ کار میں نہیں ہیں۔ یہ مذہب کی غلط تشریح ہے جس کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے۔
جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے، اس وقت کوئی بھی مذہب اصل حالت میں نہیں ہے، چاہے وہ عیسائیت ہو یا اسلام یا کوئی اور مذہب۔ یسوع کے خدا کا بیٹا ہونے کا تصور دوسری صدی میں نمودار ہوا۔ پروٹسٹنٹ اور کیتھولک کے اہم فرقے صرف دو صدیاں پہلے نمودار ہوئے تھے۔ اسی طرح اسلام پہلی چند صدیوں تک ایک مذہب تھا۔ پھر یہ مختلف فرقوں میں تقسیم ہو گیا۔ لہٰذا ہر چیز کو مذہب کے دائرے میں لانا درست نہیں ہے۔ یہاں تک کہ سماجی و اقتصادی نظام بھی وقت اور نئی دریافتوں کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے۔ کسی بھی سماجی و اقتصادی نظام کو مذہب سے جوڑنا بھی ایک غلط عمل ہے۔
ایک اور وجہ یہ ہے کہ سائنس ارتقائی ہے جبکہ مذہب ایک مستحکم اور تبدیلیوں سے مبراء طرز زندگی سے متعلق ہے۔ حالانکہ یہ فرق بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوسکتا جب تک کسی خاص دور کے سماجی اور اقتصادی نظام کے ان طریقوں کو جو مذاہب کا حصہ نہیں ہوتے انہیں مذہب میں شامل کردیا جائے اور ان کو مذہب کا لازمی حصہ سمجھا جائے۔ جو مذاہب میں معمول رہا ہے خاص طور پر اسلام میں۔
سائنس اور مذہب کو ایک دوسرے کا دشمن قرار دینے کے لیے اور بھی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سچ نہیں ہے. دونوں کا اپنا ڈومین یا دائرہ کار ہے اور ان پر ان کے اپنے دائرے میں غور کیا جانا چاہیے۔ نہ تو سائنس کسی کو مذہبی رسومات ادا کرنے د روکتی ہے اور نہ ہی کوئی مذہب قدیم دور میں رہنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ لہٰذا دونوں کے درمیان موازنہ بند کر دینا چاہیے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کسی مذہب کے علماء قدیم دور میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور دنیاوی معملات کو مذہب کے تابع کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سائنسی حقائق سے منہ موڑتے ہیں۔
اس لئے میرا اس بات پر یقین ہے مذہب اور سائنس کا الگ الگ اپنا دائرہ کار ہے اور دونوں کو اپنے دائرہ کار میں رکھ کر دیکھنا چاہیے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں