• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مسئلہ کشمیر کا ممکنہ حل۔۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

مسئلہ کشمیر کا ممکنہ حل۔۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

بیسویں صدی کی تاریخ بین الاقوامی مسائل و تنازعات سے بھری پڑی ہے، ان تنازعات میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو آج دن تک حل طلب ہیں، لیکن ان تمام تنازعات میں سے کسی ایک کا بھی اس کے دورانیے، تباہی، ہلاکتوں، جنگوں ومظالم کی بابت، مسئلۂ کشمیر سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس تنازعے کی دونوں اطراف ایٹمی قوتوں کی موجودگی معاملے کو اور بھی گھمبیر بنائے ہوئے ہے۔ ان دونوں فریقین کا نکتۂ نظر اور ان کے مقاصد جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ معاملے کے الجھاؤ کو تاریخی نگاہ سے سمجھا جائے۔

تختِ برطانیہ سے آزادی اور تقسیمِ برصغیر کے وقت دو نئے ممالک ، پاکستان یا بھارت، کے ساتھ الحاق کیلئے ہر ریاست کو آزادی  ء  انتخاب کی اجازت دی گئی، اور عمومی طور پر مسلمان اکثریت پاکستان اور ہندو اکثریت ہندوستان کے ساتھ الحاق کرتے دکھائی دئیے، ایک نکتۂ نظر یہ ہے کہ اس وقت کے کشمیر کے مہاراجہ، ہری سنگھ، نے کسی بھی ریاست سے الحاق کی بجائے ایک آزاد ریاست کو ترجیح دی، جس پر کشمیر کی اکثریت مسلمان آبادی اس فیصلے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، مگر دوسرا نظریہ اس کے برخلاف ہے کہ ہری سنگھ چونکہ مقامی آبادی کے جھکاؤ کو پرکھ چکا تھا کہ یہ پاکستان کے ساتھ الحاق کے خواہاں ہیں، اس لیے ہندوستان کی مدد سے مقامی مسلمانوں کے خلاف ریاستی قوت استعمال کرنے کی ٹھانی، اور خطے میں ظلم و بربریت کی بنیاد رکھی، صورتحال کوئی بھی  رہی ہو۔ مسلمانوں کے خلاف اسی رویے کو دیکھتے ہوئے یا پھر مسلمان کشمیریوں کے ساتھ مذہبی اظہارِ یکجہتی کیلئے ،صوبۂ سرحد سے پختون قبائل نے کشمیری حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا، جس سے خوفزدہ ہوکر ہری سنگھ نے ہندوستان سے مداخلت کی درخواست کی، اور بدلے میں ہندوستان کے ساتھ الحاق کی پیشکش کی، ہندوستان کے مطابق ہری سنگھ نے چھبیس اکتوبر 1947ء کو ، Instrument of Accession of Jammu and Kashmir State، نامی ڈاکومنٹ پر دستخط کرتے ہوئے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا حکومتی سطح پر اعلان کر دیا تھا، مگر ایسے کسی بھی معائدے سے دو دن قبل پختون قبائل کہ مدد سے ہری سنگھ کے فیصلے کے خلاف مقامی کشمیریوں نے آزاد کشمیر نامی خطے کہ بنیاد رکھی، جس کا مرکز مظفر آباد ٹھہرا، جبکہ گلگت، ہنزہ و دیگر شمالی علاقہ جات بغیر کسی کشمکش کے پاکستان کا حصہ قرار پائے، پاکسان نے ایسے کسی بھی ڈاکومنٹ یا حکومتی اعلان کو مکمل مسترد کیا کہ بین الاقوامی سطح پر نہ صرف یہ ڈاکومنٹ مشکوک ہے، بلکہ عوام کی مرضی کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہی اختلاف اس تنازعے کی بنیاد بنا جو آج دن تک جاری ہے۔

ہندوستان کے وزیراعظم جواہرلال نہرو نے ریڈیو پیغام کے ذریعے عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ کشمیر میں کشیدگی کو ریفرینڈم کے ذریعے حل کیا جائے گا اور کشمیری عوام اپنے حق میں جو فیصلہ کریں گے وہ ہم سب کو قبول ہوگا، نہرو کا یہ بیان آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے، اسی طرح اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کے پلیٹ فارم پر متعدد دفعہ اس تنازعے پر بحث ہوچکی، اقوامِ متحدہ کے ریزولوشنز ( 13 اگست 1948ء، 5 جنوری 1949، 14 مارچ 1950ء) کے مطابق کشمیریوں کو ریفرینڈم کے ذریعے ان کی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے، اور پاکستان بھی اسی حل کا قائل ہے، مگر ہندوستان کی یہی ہٹ دھرمی ہے کہ چونکہ ہری سنگھ ہندوستان کے ساتھ الحاق کے معائدے پر دستخط کر چکے تھے، اس لئے مزید کسی ریفرینڈم کی ضرورت نہیں۔

بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کا کیس تین وجوہات کی بنیاد پر انتہائی کمزور ہے، پہلی وجہ یہ کہ اگر مہاراجہ ہری سنگھ نے چھبیس اکتوبر کو ہندوستان کے ساتھ الحاق پر دستخط کر بھی دیئے تھے جو یہ بات جان لینی چاہیے کہ اس واقعے سے دو روز قبل، چوبیس اکتوبر کو آزاد کشمیر، گلگت و دیگر شمالی علاقہ جات ہری سنگھ کے دائرۂ اختیار سے نکل چکے تھے، اس لیے ہری سنگھ ان علاقوں کی قسمت کے فیصلے کا حق نہ رکھتا تھا، دوسری وجہ یہ کہ اقوامِ متحدہ و تمام جمہوری اصولوں کے مطابق ہر قوم کو حقِ خود ارادیت حاصل ہے، اور یہاں ہندوستان اس بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرتا دکھائی دیتا ہے، اور تیسری وجہ یہ کہ آج تک یہ بات معلوم نہ ہو سکی، کہ چھبیس اکتوبر کو ہری سنگھ، جو اپنی جان بچانے کیلئے سری نگر سے جموں کی طرف ، راستے میں تھا، ہندوستان کے ساتھ الحاق کی دستاویزات پر اس نے کہاں اور کس حالت میں دستخط کئے؟، اس معاملے پر مؤرخ نے اپنے منہ میں پانی بھر رکھا ہے، انہی وجوہات کی بنیاد پر ہندوستان مسئلۂ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر لانے سے گریزاں رہا، باوجودیکہ اگلے کئی سالوں، 1951، 1952 اور 1957ء میں اقوامِ متحدہ میں کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے حوالے سے مذکورہ بالا ریزولوشنز کی تجدید ہوتی رہی۔

اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی مداخلت سے خطے میں جنگ بندی عمل میں لائی گئی، ہندوستان اور جموں وکشمیر کے درمیان ، دہلی ایگریمنٹ، کے نام سے معاہدہ طے پایا، جس پر جواہرلال نہرو اور شیرِ کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے دستخط کئے، اسی معاہدے کی آڑ میں بھارت نے جموں و کشمیر کو اپنے ملک کا حصہ بنانے پر غور شروع کیا، 1951ء میں جموں اور کشمیر میں ایک اسمبلی کا قیام عمل میں آیا، اور اسی اسمبلی نے ، جو کہ سیاسی طور پر ہندوستان کے زیرِ اثر تھی، جموں و کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی قراد دار منظور کر ڈالی، جو کہ کشمیریوں کی امنگوں کے سراسر خلاف تھی، اس سے معاملہ گھمبیر تر ہوتا گیا۔

مسئلہ  کشمیر کو لے کر دو فریقین شاید کم تھے کہ 1962ء میں، چین بھی اس میں کُود پڑا، ہندوستانی قبضے میں واقع کشمیر، چین کو تبت سے ملانے والی اہم ترین شاہراہ کی گزرگاہ ہونے کی وجہ سے چین کیلئے اسٹریٹجک اہمیت کا حامل تھا، اسی شاہراہ کو لے کر چین اور ہندوستان کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہوا، اور چین نے آگے بڑھتے ہوئے لداخ کے ایک بڑے رقبے پر اپنا قبضہ جمالیا، اب کشمیر کے حوالے سے فریقین کی تعداد دو کی بجائے تین ہو چکی۔
اگلے سالوں میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان دو مزید جنگیں، 1965 اور 1971ء میں لڑی گئیں اور ہر دفعہ اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی مداخلت سے نہ صرف جنگ بندی ، بلکہ کشمیر سمیت تمام مسائل کے جمہوری و پرامن حل پر اتفاق رائے قائم ہوا، مگر افسوس کہ اس کو عملی جامہ کبھی نہ پہنایا جا سکا, اس کے بعد سے پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی، مجاہدین کی کاروائیوں، کارگل کے واقعے، اکیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان کے مختلف شہروں میں خودکش حملے، بالخصوص پارلیمنٹ پر ہونے والے حملے نے کشمیر کے معاملے پر پاکستان کی پوزیشن کو بین الاقوامی سطح پر انتہائی کمزور کر دیا ، اگرچہ کارگل اور سیاچین کے واقعے کے بعد پرویز مشرف دور میں کشمیر کے معاملے پر کچھ پیش رفت ہوئی اور ہندوستان پاکسان کے تعلقات کافی حد تک بہتر ہوتے محسوس ہوئے، مگر ممبئ حملے کے واقعے نے تمام کئے کرائے پر پانی پھیر دیا، ہندوستان کی طرف سے الزام ہے کہ پاکسانی مجاہدین اس کاروائی میں ملوث ہیں، وہ دن اور آج کا دن کشمیر کا تنازع اپنی جگہ بغیر کسی پیش رفت کے موجود ہے، آگے تاریخ ہے، جس کہ تفصیلات میں جانے کا موقع نہیں۔

کشمیر کے تنازعے کی حقیقی تصویر دیکھنے کیلئے ضروری ہے کہ کشمیر سے گزرتے دریاؤں کی اہمیت، جو ہند و پاک کی زمینی سیرابی کیلئے ناگزیر ہیں، پر غور کیا جائے، انیسویں صدی کے آخر میں، پنجاب (متحدہ ) کی زرخیز زمین کی سیرابی کو دریاؤں اور نہروں کے جس نظام کی تعمیر کی گئی، اس میں سندھ کو مزید پانچ شاخوں میں تقسیم کر دیا گیا، جس میں سے دو، جہلم اور چناب، اور خود سندھ بھی، جو موجودہ پاکستان کے پنجاب کو سیراب کرتے ہیں، جموں اور کشمیر سے گزرتے ہیں، جبکہ راوی، بیاس اور ستلج ہندوستانی پنجاب کی زرخیزی کا ذریعہ ہیں، 1948ء میں بڑھتی چپقلش کے نتیجے میں ہندوستان نے پاکستان کو ان پانیوں کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی، لیکن تنازع پرامن طریقے سے حل ہوا، اگرچہ ان دریاؤں کے پانی کے حوالے سے ہندوستان اب بھی دھونس دھمکی سے نہیں چوکتا۔

تنازعہ کشمیر کے حل کی تین ہی صورتیں ہیں جو ممکن ہو سکتی ہیں، اور ان تینوں صورتوں کا ، کشمیر میں ریفرینڈم پر انحصار نہیں، یعنی کہ کشمیریوں کو حقِ خودارادیت کا موقع دیا جائے، یا نہ دیا جائے، ہر حال میں تنازعے کے حل کی صرف درج ذیل تین صورتیں ہیں جو اپنے اندر مخصوص پیچیدگیاں لئے ہوئے ہیں۔
پہلی صورت یہ کہ پوری وادی کسی ایک ملک، پاکستان یا ہندوستان، کے حوالے کر دی جائے، یا کشمیری عوام ریفرینڈم کے ذریعے کسی ایک ملک کے ساتھ الحاق کا اعلان کریں۔
لیکن اس صورت میں کچھ مشکلات ہیں، سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ بھارت یا پاکستان میں سے کوئی ایک ملک بھی اس بات پر متفق نہیں ہوگا کہ پورا کشمیر دوسرے ملک کے حوالے کر دیا جائے، وہ کشمیر جس کیلئے گزشتہ بہتر سالوں سے خون بہایا جاتا رہا ہے، دوسرا کمزور پہلو یہ کہ اقوامِ متحدہ اس معاملے میں بے بس نظر آتی ہے، بے شمار ریزولوشنز کے باجود عملی طور پر کچھ نہ کیا جا سکا، یہاں ایک تیسرا پہلو ، چین کی خطے میں دلچسپی ہے، تقسیم سے قبل کی ریاستِ کشمیر کے کچھ علاقے اس وقت چین کے قبضے میں ہیں، اور چین نہ صرف یہ کہ ان علاقوں کو واپس نہ کرے گا، بلکہ اپنی معاشی و جغرافیائی خواہشِ وسعت میں ً ھل من مزید ً کا نعرہ لگاتا دکھائی دے گا۔

دوسری صورت، ایک آزاد اور خودمختار ریاستِ کشمیر۔
یعنی کہ اگر کشمیر کے لوگ کسی کے ساتھ الحاق نہیں چاہتے، بلکہ ریفرینڈم کے ذریعے ایک آزاد ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں تو ایسی صورت میں تینوں فریق، ہندوستان، پاکستان اور چین کھُل کر ایک دوسرے کے سامنے آئیں گے، کیونکہ ہر ملک کا مستقبل اور مفادات جزوی طور پر کشمیر سے جڑے ہیں، بلکہ ریاستِ کشمیر اس وقت معاشی اور دفاعی طور پر تین حصوں میں بٹی ہے ، آزاد ملک کی صورت میں تین مختلف ممالک کے پنجوں سے نکلنا ، بھاری خون ریزی کے بغیر ممکن نہ ہوگا، اس سے اگلا قدم، ایک نئے آزاد ملک میں مختلف مذہبی اور قومی دہشتگرد تنظیموں کے پنپنے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں، عین ممکن ہے کہ ایسی صورت میں افغانستان میں موجود مختلف جہادی تنظیمیں اپنا اگلا ہیڈ کوارٹر کشمیر کو منتخب کر بیٹھیں، کشمیر کے علیحدہ ملک کا نعرہ ہندوستان کیلئے سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوگا کہ ایسی صورت میں آسام اور ناگا ریاست کے مطالبات کے ساتھ ساتھ خالصتان کی تحریک کو بھی تقویت ملے گی۔

تیسری صورت، جغرافیائی حدود و شناخت کو مدنظر رکھتے ہوئے وادی کو دو حصوں میں بانٹ دیا جائے کچھ حصہ ہندوستان کو، اور کچھ پاکستان کے حوالے کر دیا جائے، (جس حصے پر چین قابض ہے، وہ حصہ اس کے پاس رہنے دیا جائے )،اس صورت میں خود کشمیری متفق نہ ہو پائیں گے، اگر ریفرینڈم کے ذریعے کچھ علاقے ہندوستان کے ساتھ اور کچھ پاکستان کے ساتھ الحاق پر اتفاق کر بھی لیتے ہیں تو بھی کشمیر کی چھاتی پر ایک لائن آف کنٹرول برقرار رہے گی، جو ہندوستان اور پاکستان کا بارڈر کہلائے گی، اسی مقام پر وہی جھڑپیں اور کشمکش جاری رہی گے جو آج ہے، اور مختلف تنظیمیں اپنی اپنی خدمات اسی تناظر میں پیش کرتی رہیں گی جیسا کہ آج ہو رہا ہے، ایسا بٹوارہ کوئی نتیجہ نہ دے پائے گا، زمین جنبد نہ جنبد گل محمد، والے محاورے کے مصداق صورتحال وہی رہے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان تینوں صورتوں میں سب سے خطرناک اور خونریز، دوسری صورت ہے، یعنی کہ ایک آزاد اور خود مختار ریاستِ کشمیر، مگر مسئلے کا حقیقی حل بھی یہی ہے،
رواں صدی کے آخر تک دنیا کے نقشے پر ممالک کی تعداد لگ بھگ پانچ سو ہو جائے گی، اس وقت معاشی حالات اور قومی حساسیت جیسے عناصر کا تقاضا ہے کہ زیادہ مگر چھوٹے ممالک کا قیام عمل میں لایا جائے، اور کشمیر کے معاملے میں بھی حقیقی اور پائیدار ،مگر مشکل ترین حل یہی ہو گا کہ کشمیر ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے سامنے آئے، باقی دو صورتیں حل نہیں، بلکہ صرف معاملے سے جان چھڑانے والی بات ہوگی، مگر اس خطرناک اور خونریز حل، جس کے بغیر چارہ نہیں، کیلئے ضروری ہے کہ تنازعے کو بین الاقوامی سطح پر اس حد تک اجاگر کیا جائے کہ دنیا کے بڑے ممالک اور انسانی حقوق پر کام کرتی تنظیمیں نہ صرف متوجہ ہوں بلکہ اقوام متحدہ کو مجبور کریں کہ دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کے وجود، نہ صرف وجود بلکہ اس کے استحکام کیلئے ہر ممکن کوشش اور مدد کی جائے، مگر اس کیلئے خطے میں چین کے معاشی اثرات کو کم کرنا، افغانستان میں ایک پرامن حکومت کا قیام، ہندوستان اور پاکستان کے عوام کو شعور و تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی طویل جدوجہد درکار ہے، وگرنہ معاملہ مؤبیس کے رِبن , Moebius tape, کی مانند ایک ہی سطح اور دائرے میں گھومتا رہے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply