امریکہ کے باطن کی فتح،ظاہر کی شکست

شاہ نواز فاروقی عالم اسلام کے چند ایسے لکھنے والوں میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے علم کے ساتھ عمل کی خوبیوں سے بھی نوازا ہے۔ ان کا انداز تحریر حیران کن حد تک دل اور ذہن کو بیک وقت مسخر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔وہ نہایت مخلص اور امت کے درد سے سرشار صاحب قلم ہیں۔ ان کے اخلاص اور ایمان میں کسی شک و شبہ کی ذرہ بھر بھی گنجائش نہیں لیکن فرائیڈے اسپیشل مورخہ 18 تا 28 نومبر 2016میں امریکی انتخابات سے متعلق ان کے کالم "امریکہ کے باطن کی فتح ،ظاہر کی شکست" میں، انہوں نے ٹرمپ کی کامیابی کے حوالے سے امریکہ ،اس کے فلسفے اور اسکی نفسیات کا جو تجزیہ کیا ہے اس میں چند بنیادی نوعیت کی کمزوریاں ہیں جن کی نشاندہی بہت ضروری ہے۔ عموماً اسلامی تحریکیں مغرب کے حوالے سے ابھی تک انہی غلطیوں میں مبتلا ہیں جن کی اصلاح بہت ضروری ہے۔

شاہ نواز فاروقی صاحب نے لکھا ہے کہ مغرب آزادی، جمہوریت، مساوات، علم اور ترقی صرف اپنے لئے چاہتا ہے اور دوسروں کے لئے نہیں چاہتا بالخصوص مسلمانوں کے لئے تو بالکل نہیں چاہتا۔ وہ مسلمانوں کے لئے صرف غلامی، آمریت، عدم مساوات، جہالت اور پسماندگی چاہتا ہے ۔ مغرب نشاۃ ثانیہ ، روشن خیالی کی بات کرتا ہے مگر اس نے نوآبادیات قائم کیں ۔ روشن خیالی مغرب کا ظاہر تھا اور نوآبادیاتی تجربہ اس کا باطن۔انسان مرکز کائنات تھا، یہ اس کا ظاہر ہے اور دو عالمی جنگیں اس کا باطن۔ دوسرے معنوں میں وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ مغرب کا ظاہر تو بہت اچھا ہے مگر باطن بہت خراب ہے۔ وہ اصول میں تو بالکل درست ہے مگر عمل میں بالکل غلط ہے ۔ اس کے تمام عقیدے تو درست ہیں مگر اس کا عمل Practice بالکل غلط ہے یعنی مغرب بس منافق ہے جو قول و فعل کے تضاد میں مبتلا ہے۔ دوسرے معنوں میں شاہ نواز صاحب! آپ مغرب کو مومن دیکھنا چاہتے ہیں کہ جیسا اس کا ظاہر ہے ویسا ہی اس کا باطن ہونا چاہیے، وہ اندر اور باہر ، خارج اور داخل میں ایک ہو جائے؟

اس تجزیے کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ شاہ نواز فاروقی صاحب نے روشن خیالی، آزادی، مساوات، جمہوریت، علم، ترقی کی جدید مغربی اصطلاحات کو من وعن تسلیم کر لیا۔۔۔یعنی یہ سب الحق ہیں۔مغرب کی خامی یہ ہے کہ وہ اس الحق کو صرف اپنے تک محدود رکھنا چاہتا ہے دوسری قوموں اور بالخصوص مسلمانوں کو وہ اس الحق سے سیراب ،فیض یاب ہونے کی اجازت دینے پر تیار نہیں ہے، وہ اپنے الحق کی توسیع نہیں چاہتا ۔ یہ الحق عالمگیر نہیں، جغرافیائی حدود میں مقید ہے۔ آپ اس کی عالمگیریت کے مدعی ہیں۔خصوصاً مغرب کی اقدار کی توسیع عالم اسلام کے لئے بھی ہونی چاہئے۔ عالم اسلام کو بھی روشن خیالی ، آزادی، مساوات، ترقی، جمہوریت ملنی چاہیے۔ دوسرے معنوں میں روشن خیالی، آزادی، جمہوریت، مساوات ،علم، ترقی ایسی عظیم مغربی اور آفاقی اقدار ہیں کہ مغرب ان سب اقدار کا دائرہ عالم اسلام تک وسیع کر دے تو مغرب کا ظاہر و باطن ایک ہو جائے گا اور اگر مغرب کا ظاہر و باطن ایک ہو جائے گا تو یہ ہر ایک کے لئے قابل قبول ہے اور امت مسلمہ کو بھی اس پر اصولاً اعتقاداً،عقلاً کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

شاہ نواز فاروقی صاحب کے کالم راقم کئی سال سے پڑھ رہا ہے ۔ تہذیبوں کی کشمکش، اسلام اور مغرب کی کشمکش، دونوں تہذیبوں کی مابعد الطبیعاتی اساسات اور بنیادی اختلافات پر شاہنواز فاروقی صاحب نے گزشتہ بیس سالوں میں بے تحاشہ لکھا ہے اور بہت عمدہ لکھا ہے مگر حیرت ہے کہ ان کا تازہ تجزیہ ان کے تمام سابقہ تجزیوں کی نفی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مغرب اور اسلام میں، مغرب اور مشرق میں کوئی مابعد الطبیعاتی، اعتقادی، بنیادی، اصولی اختلاف ہی نہیں۔ دونوں تہذیبوں کے منابع، مصادر، ماخذات، اعتقادات ایک ہی ہیں۔شاہ نواز صاحب نے دانستہ یا نادانستہ اپنی تمام تحریروں، بلکہ اپنے استاد محترم سلیم احمد اور محترم حسن عسکری کے تمام اصولوں اور جدوجہد اور تحریروں کا ہی انکار کر دیا ہے اور دونوں تہذیبوں کے مابین بنیادی اختلافات، تنازعات کی نفی کر دی ہے۔

بنیادی سوال صرف یہ ہے کہ حقوق کسی تصور الخیر سے نکلتے ہیں یا حقوق خیر سے ماورا ہوتے ہیں۔ حقوق کے معاملے میں تمام انسان برابر ہوتے ہیں۔ سب کے فطری حقوق Natural Rights کیا ان کی پیدائش کے ساتھ ہی بحیثیت انسان ان کا حق بن جاتے ہیں، لہذا سب کے حقوق اولاً مساوی ہوتے ہیں، ثانیاً حقوق دیتے ہوئے کوئی شرط عائد نہیں کی جا سکتی، نہ کسی شرط کی بنیاد پر حقوق چھینے جا سکتے ہیں۔ دوسرے معنوں میں حقوق غیر مشروط ہوتے ہیں، ان پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔ شاہ نواز صاحب نے یہاں وہی نقطہ نظر اختیار کیا ہے جو رالس نے اپنی کتاب Theory of Justice میں اختیار کیا ہے ۔ رالس اکیسویں صدی کا وہ عظیم سیاسی فلسفی ہے جس نے مغرب میں مرتے ہوئے لبرل ازم کی موت کو اپنی Deontoligical Liberal Theory کے ذریعے نئی زندگی بخشی اور اس نے فکری و نظری طور پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ لبرل ازم کسی الخیر، الحق کا قائل نہیں۔ وہ کسی الخیر کا علمبردار نہیں، نہ ہی وہ کسی خاص تصور الحق کی نمائندگی کرتا ہے۔ حالانکہ تاریخی طور پر یہ ایک جھوٹ ہے۔ اس کی تفصیل ہم نے اپنےایک طویل مضمون "مغربی فکر کے مصادر و منا بع " میں قلم بند کر دی ہے اور تمام مصادر کے حوالے بھی اس میں ثبت کر دیے ہیں۔ آئندہ قسط میں اس کے حوالے بھی درج کردیں گے۔ لبرل ازم نے خود کو Deontological ثابت کرکے دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے حالانکہ میکس ویبر اور جان لاک کی کتابوں کو پڑھ لیا جائے تو صاف صاف معلوم ہو تا ہے کہ لبرل ازم Deontological نہیں ہوتا۔ وہ Ontological ہوتا ہے لہذا لبرل ازم میں حقوق صرف اس انسان کے لئے ہوتے ہیں جو انسان کی اس تعریف پر پورا اتر سکے جو کانٹ کے مضمون What is enlightenment میں بیان کی گئی ہیں کہ انسان وہ ہے جو عالم ،وحی الٰہی اور ڈاکٹر کی اتھارٹی تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ جو اپنی عقل کے سوا کسی پر بھروسہ نہ کرے، جو رہبری و رہنمائی کے لئے کسی خارجی، بیرونی، آسمانی ذریعے کی طرف نہ دیکھے بلکہ اپنے اندر ، اپنے نفس کے اندر اپنی عقل ، اپنے اندرون میں جھانکے، ایسا انسان ہی روشن خیال ہو سکتا ہے اور ایسے ہی انسان کے لئے انسانی حقوق ہیں۔ جان لاک نے دس کروڑ ریڈ انڈین کے قتل کی اجازت نہایت افسوس کے ساتھ اس لئے دی تھی کہ وہ انسان نہیں بن سکے تھے۔ یعنی وہ نجی ملکیت کے قائل نہ ہو سکے، وہ پیسہ جمع کرنے پر آمادہ نہ ہو سکے، وہ مال ، املاک میں اضافے کی جدوجہد کے لئے تیار نہ تھے، وہ جائیداد، نجی ملکیت ، املاک رکھتے ہی نہیں تھے۔ لہذا وہ انسان ہی نہیں تھے اور وہ انسان بننے کے قابل بھی نہیں ہوسکے۔ اس لیے مجبوراً ایسے دس کروڑ انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا انسانیت کی ضرورت ہے ۔ حیرت ہے شاہ نواز صاحب اس لبرل ازم سے شکوہ کر رہے ہیں کہ اس کا ظاہر اچھا ہے بس باطن خراب ہے، وہ اچھا ہو جائے اور عالم اسلام کو بھی اپنی عظیم اقدار ، روشن خیالی، آزادی، نرمی، مساوات سے مالا مال کر دے۔

ہم یہ کہتے ہیں کہ مغرب کا ظاہر بھی اس کے باطن کی طرح ہے ۔مغرب ، امریکہ، جدید مغربی فلسفہ، منشور انسانی حقوق بنیادی طور پر ایک نئی مابعد الطبیعات کے علمبردار ہیں۔ یہ حاضر و موجود کی مابعد الطبیعات Metaphysics of Presence ہے جس میں خدا کی جگہ انسان مرکز کائنات ہے جس میں یہ دنیا ابدی Eternal ہے۔ لہذا اس دنیا کو ہی جنت بنانا ہے جس میں عقلیت پرستی ہی خیر ہے، جس میں انسان خود اپنی پرستش کرتا ہے۔ یہی Humanismہے۔ لہذا اس نفس پرستی، عقل پرستی کو ممکن بنانے کا طریقہ صرف ایک ہے وہ آزادی کا عقیدہ ہے ۔ خدا سے، اقدار سے ، مذاہب سے ، روایات سے، تاریخی ،نسلی، مذہبی، لسانی ، جغرافیائی اجتماعیتوںکا خاتمہ ایک سول سوسائٹی قائم کرنا ہے۔ یہ لبرل ازم کی منزل ہے۔ امریکہ کا سب سے بڑا فلسفی رچرڈ رارٹی بھی وہی بات کہتا ہے جو ایک زمانے میں شاہ نواز صاحب کہتے تھے کہ اسلام سے مکالمہ ممکن نہیں ۔ ایک کانٹی نینٹل فلسفی اپنے ایک مکالمے میں لکھتا ہے کہ ہم نے کبھی پوپ سے مکالمہ نہیں کیا تو ہم اسلامی جدیدیت پسندوں سے مکالمہ کیوں کریں؟ دوسرے معنوں میں وہ اسلام کو الحق نہیں سمجھتا اور اس کے الحق کو درست تسلیم نہیں کرتا۔ لہذا وہ اسلام سے کسی مکالمے کا قائل نہیں، البتہ اسلام کے خاتمے کا قائل ہے۔ لہذا دہشت گردی کے نام پر جاری جنگ اصلاً اسلام کے خاتمے کی جنگ ہے۔ اس جنگ کے باوجود شاہ نواز فاروقی صاحب امید کر رہے ہیں کہ امریکہ اپنے ظاہر کے مطابق اپنے باطن کی اصلاح کرے گا اور اگر کرے گاتو وہ ہمیں قابل قبول ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

فاروقی صاحب نے ظاہر و باطن کے مسئلے میں یورپ پر بھی اعتراض کیا ہے حالانکہ مغرب کے فلسفےکا مولد وطن ،مرکز اصلاً یورپ ہی ہے، امریکہ نہیں۔ ان کو اعتراض ہے کہ یورپ میں ننگوں کے کلب اور ننگوں کے ساحل ہیں مگر وہاں ننگے انسان کو آزادی ہے، برقعے والی کو آزادی نہیں اور امریکہ انسانی حقوق کا چمپئن ہے مگر وہاں انسانوں کو یعنی مسلمانوں کو حقوق نہیں دیے جا رہے۔ یہ اعتراض بھی بنیادی طور پر غلط ہے ۔یورپ آزدی کے الخیر کو مانتا ہے، لہذا ننگوں کی آزادی اس الخیر کے تحت ہے۔ برقع خدا کی بندگی کی علامت ، آزادی کی نفی ہے، لہذا ہیومن رائٹس کے الخیر کی نفی ہے۔ لہذا جو الخیر کا انکار کر دے اس کے حقوق ہی نہیں ہوتے مثلاً اسلام میں خدا کے رسول کے منکر کا ریاست، حکومت، اقتدار، عدالت میں کوئی حق نہیں، وہ ذمی ہے یا معاہد۔ اسے مسلمانوں کے برابر مرتبے اور حق نہیں ملتے۔ کافر، خلیفہ، سپہ سالار، گورنر، چیف جسٹس نہیں بن سکتا۔ ذمیوں اور معاہدین کے طے شدہ حقوق ہوتے ہیں۔ مغرب میں ذمی کا بھی حق نہیں جو ان کے الخیر کو نہیں مانتا، واجب القتل ہے۔ حیر ت ہے شاہ نواز فاروقی صاحب جیسے انسان اتنی سی بات کو نہیں جانتے بلکہ جانتے بوجھتے بھول گئے ہیں۔

Facebook Comments

وحید مراد
ایم۔اے،ایم فل،پی ایچ ڈی اسکالر،رائٹر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply