میں بھی مشال خان ہوں، میں بھی قتل ہو جاؤں گا!

میں بھی سوچتا، سمجھتا اور سوال کرتا ہوں ۔ مجھے بھی خوبصورتی، شاعری، امن اور محبت اچھی لگتی ہے، میں چاہتا ہوں سب انسان امن اور بھائی چارے سے رہیں۔ میں اپنے سے مخالف عقائد کے لوگوں کا زیادہ خیال رکھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ انہیں یہ محسوس نہ ہو کہ میں ان کے عقیدے کی وجہ سے ان سے تعصب برتتا ہوں۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ مکالمے سے لوگوں کو قائل کیا جا سکے، میں اپنے مذہبی عقائد کی تشہیر نہیں کرتا اور نہ کسی دوست سے اسکی مذہبی وابستگی کے بارے میں سوال کرتا ہوں۔ میرے نزدیک مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزارنے والا ایک قابلِ عزت شخص ہے، اسے بحیثیت شہری اپنے مذہبی شعائر کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ میں کبھی فرقوں کے چکر میں نہیں پڑا، کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ فرقے ایک مذہب کے ماننے والوں کو تقسیم کرتے ہیں، میں مذہب کی بنیادی تعلیمات کو اعشاریے سمجھتا ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ بنیادی معاملات کو چھوڑ کر مذہب کو بھی ترقی کرنی چا ہیے تاکہ وہ باقی دنیا کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکے ۔
میں تما م مذہبی اکابرین کی دل سے عزت کرتاہوں ، میں سمجھتا ہوں کہ اگر گاؤں کے چوہدری کی تضحیک کرنے سے عام انسان کی زندگی مشکل ہو جاتی ہے تو کسی بھی مذہب کو ماننے والے کسی ہستی کی تضحیک کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ نبیؐ تمام انسانوں کے لئے باعث ِ رحمت تھے ، انہوں نے عیسائیوں کو مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دی تھی، طائف کے شریر لڑکوں نے پتھر مار مار کر آپکو لہو لہان کر دیا تھا مگر آپ نے ا ن کے حق میں دعا کی تھی ۔میں کچرے والی بڑھیا والا واقعہ کو آج کے انسانی رویے کے تناظر میں دیکھتا ہوں تو نبیؐ کو صبر و استقامت اور اخلاقیات کا بہترین نمونہ پاتا ہوں، میں مدینہ کی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق پڑھتا ہوں تو ایک ماڈل ریاست کا نقشہ دیکھتا ہوں۔ میں ریاستی حقوق و فرائض، جنگ کے قوانین اور اقلیتوں کے حقوق کے ضمن میں نبیؐ کی حکمت عملی کو سراہے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ میں فرد، معاشرے اور ریاست کے تصور کو سوچنے، سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کرتا ہوں، اپنے حلقہ احباب سے بحث نہیں مکالمے کا خواہشمند ہوتا ہوں۔ جب کبھی بحث انتہائی نازک صورت اختیار کر لیتی ہے تو میں خاموشی اختیار کر لیتا ہوں۔ میں نازک مسائل پر بحث کرنے سے گریز کرتا ہوں، ایسے نازک مسائل جن کے ساتھ لوگوں کی جذباتی وابستگی ہو۔ ۔
لیکن میں حکومت ، نظام ِ حکومت، سیاسی جماعتوں کی منافقانہ پالیسیوں، استحصال، تاریخی مغالطوں، مذہبی جنونیت، مذہب کی آڑ میں عوام کا استحصال، طبقاتی تعلیم، عورت کو باندی سمجھنے کے معاملات اور کئی ایسی دوسری قباحتوں کا ناقد ہوں ، میں ان پر علمی تنقید اور منطقی بحث کو حق بجانب سمجھتا ہوں، میں ایک خاص مکتبہء فکر کے حامل لوگوں کی سرِ عام بدمعاشی پر احتجاج کو جائز سمجھتا ہوں، میں اقلیتوں کے بلاوجہ قتل کو ظلم سمجھتا ہوں، میں چھوٹی قومیتوں، برادریوں اور قبیلوں پر ہونے والی زیادتی کے خلاف رائے دیتا ہوں، میں سماج میں ہونے والے ہر ظلم ، زیادتی اور ناانصافی کے خلاف اپنی حیثیت کے مطابق حصہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے ہیجان کو قابو میں رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ مجھے پڑھنا چاہیے اور اپنی سوچ کو دوسروں تک پہنچانے کیلئے لکھنا بھی۔ جب میں لکھتا ہوں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ میرے ادھورے اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ کا لہجہ سخت نہ ہو۔میں دلیل اور منطق کا قائل ہوں ، میراماننا ہے کہ مخاطب کی بات کو اگر غور سے سنا جائے اور اسے بات کرنے کا موقع دیا جائے تو اسکا آدھا غصہ ختم ہوجاتاہے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ میں اپنے نظریات پر کسی کو قائل کرنے کی کوشش نہ کروں بلکہ میرا عمل یہ گواہی دے کہ میں اپنے نظریات پر کاربند ہوں اور میرا کوئی بھی نظریاتی عمل کسی فرد یا معاشرے کے لئے نقصان دہ نہیں۔ میں بھی اپنی ایک رائے رکھتا ہوں اور عمومی رویے سے اختلاف رائے بھی۔
میں خوفزدہ ہوں ، میں جب کسی بھی ناانصافی، بلوے کے ہاتھوں کسی کے قتل کو ریاستی قوانین کے برخلاف تاویل دینے کی کوشش کرتا ہوں تو میرے ساتھ کام کرنے والے اکثر لوگ اسے ناانصافی نہیں کہتے، مجھے سخت خوف آتا ہے جب لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ اگر کسی نے کسی کو فلاں الزام لگا کر مار ڈالا تو اس کی وجہ قانون و انصاف کے اداروں کی غیر فعالیت ہے۔ میں مشال خان کے خون کے خلاف احتجاجی بات کرتا ہوں تو میرے سامنے والا شخص مجھے عجیب نظروں سے گھورتا ہے۔ میں جب اس کی لاش کی بے حرمتی کا ذکر کرتا ہوں تو لوگ جواباً ایک مضحکہ خیز مسکراہٹ کا تبادلہ کرتے ہیں ، میں جب انہیں یہ باور کروانے کی کوشش کرتا ہوں کہ مجھے اسکی فیسبک کی وال سے کوئی قابلِ اعتراض مواد نہیں ملا تو “کچھ تو ہوا ہوگا” جوابی فقرہ مجھے کھانے کو دوڑتا ہے۔
مجھے اس احساس نے گھیر رکھا ہے کہ مذہبی بے حرمتی اور گستاخی کا الزام لگا کر خود ہی منصف اور جلاد بننا کتنا آسان ہو گیا ہے، اگر میرے کسی عزیز، رشتہ دار ، میرے ساتھ کام کرنے والے ساتھی یا میرے کسی مخالف کو مجھے اپنے راستے سے ہٹانا مقصود ہو تو وہ مجھ پر مذہبی بے حرمتی کا الزام لگا کر مجھے بے رحمی سے قتل کردے گا، میں دیکھتا ہوں کہ میری آہ و بکا سن کر بھی ہجوم سے کوئی میری مدد نہیں کرے گا، میرے چہرے کو کچل دیا جائے گا، میرے وجود کو بھی ننگا کر کے اس پر لاتیں اور جوتے مارے جائیں گے، میرے خون سے عمارتوں کے فرش رنگین ہوں گے، میری نحیف آواز بھی نعرہ تکبیر اور اللہ اکبر کے نعروں کے شور میں دب جائے گی، میرے منہ سے جاری کلمہ کوئی سن نہیں سکے گا، میری موت کے بعد میری لاش کو زمین پر گھسیٹا جائے گا، میرے جسم پر لگی ایک ایک ضرب کو میرے مخالفین اپنی بخشش کا ذریعہ سمجھیں گے۔ میری موت پر بھی رضویہ ٹی وی پر ایک پٹی چلے گی کہ آج ایک اور گستاخ رسول جہنم واصل ہوا۔
میرا خاندان غم و اندوہ اور شرم کے ملے جلے تاثرات سے میری لاش وصول کرے گا۔ میری ماں ، بہنیں ، بیوی، بیٹے میرے جنازے پر بین کریں گے ، میرے بھائی گلا پھاڑ پھاڑ کر احتجاجی چیخیں مارتے ہوئے آسمان کی جانب دیکھیں گے، میرے باپ کے نحیف کاندھے جھک جائیں گے اور اسکی آنکھیں پتھرا جائیں گی۔ تھانے میں میرے نام کی ایک فائل بنے گی ، میرا بھی کیس چلے گا، رشتہ دار چہ مگوئیاں کریں گے، ٹی وی پر دانشور میری موت کو جائز اور ناجائز قرار دینے پر بحث کر یں گے۔ کچھ مجھے ملعون کہیں گے، کچھ معصوم۔ قانونی تقاضے پورے کرتے کرتے وقت لگے گا۔ میرا خاندان ہر چیز اللہ کے انصاف پر ڈال کر شاید خاموش ہوجائیگا۔ اللہ انصاف کریگا کا پرسہ دیا جائیگا، ریاست کے قانون میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ ایک کے بعد ، دوسرا اور پھر تیسراحکمران حکومت کر ے گا۔ پھر مشال خان اور میری طرح کسی اور قتل پر ہم دونوں کا نام پھر سے خبروں کی زینت بنے گا۔

Facebook Comments

اظہر مشتاق
اظہر مشتاق سماج کے رِستے زخموں کو محسوس کرنے والا عام انسان ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply