نسیم پٹھانی بنام سرکار۔۔۔عامر عثمان عادل

آج فیس بک پر کھاریاں کی مشہور ہستی منشیات فروشی کا ایک بڑا نام نسیم عرف کبی پٹھانی کی گرفتاری کی خبر دیکھی۔ مزے کی بات یہ تھی کہ پولیس نے اسے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا۔ نسیم کی تصاویر کے ساتھ قبضے میں لی گئئ منشیات کے تھیلے دیکھے تو آج سے 15 سال پہلے کا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ ڈی ایس پی کھاریاں کا دفتر ،یہی نسیم پٹھانی اسی طرح رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ۔فرق صرف یہ تھا کہ تب چرس کی جگہ اعلی نسل کی ولائتی شراب پکڑی گئی،
اس وقت میں سٹنگ ایم پی اے تھا کسی کام کی غرض سے ڈی ایس پی کھاریاں سے ملنے انکے دفتر بیٹھا تھا مغرب کا وقت گزر چکا تھا اس وقت یہاں ایک نوجوان اے ایس پی تعینات تھے اتنے میں باوردی سب انسپکٹر نے اے ایس پی صاحب کو سلیوٹ پیش کیا اور کہا کہ ہم نے ایک بہت بڑی کاروائی  کے دوران نامی گرامی منشیات فروش خاتون کو گرفتار کرلیا ہے۔ اے ایس پی صاحب نے شاباش دی  تو دی ۔۔۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ وہ میری موجودگی کے باعث خود کو uneasy  محسوس کر رہے تھے۔ ادھر انسپکٹر اپنی کامیابی کی شاباش اسی وقت لینے کا متمنی تھا ،جبکہ اے ایس پی صاحب بعد میں بات کرنا چاہتے تھے ،انسپکٹر کے اصرار پر ملزمہ کو پیش کیا گیا انسپکٹر نے مزید داد پانے کی خاطر مال مقدمہ کا تھیلا کھولا اور خالص ولایتی مال کی دو تین بوتلیں بطور نمونہ صاحب کو پیش کر دیں ۔اے ایس پی صاحب نے نسیم کبی کو ڈانٹتے ہوئے پوچھا کہ تم کیوں یہ دھندا کرتی ہو
اس کا جواب آب زر سے لکھنے کے قابل تھا
کہنے لگی صاحب جی میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میں انکو روٹی کا نوالہ کھلانے کی خاطر یہ پاپ کرتی ہوں۔
گویا اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے شہر بھر کے بچوں کی رگوں میں زہر اتارتے ہوئے اسے ذرا سی بھی ندامت تھی نہ ملال۔۔
صاحب جی انسپکٹر کو مخاطب کر کے بولے لے جاو اسے اور سامان عبرت بنا دو۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london


میں دل ہی دل میں ڈپٹی صاحب کو سلیوٹ پیش کرتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اتنی بھاری مقدار میں مال برآمد ہونے کے بعد یہ بی بی تو اب گئی کام سے ،جلدی جلدی تو باہر آنے سے رہی۔
لیکن اگلے دن پتہ چلا کہ دختر انگور بیچنے والی کا جادو چل گیا وہ جو اصلی ولائتی شراب کی بوتلیں میری گنہگار آنکھوں کے سامنے کھولی گئی  تھیں وہ تو نظر کا دھوکا تھا نسیم کبی سے تو بس دو چار کتا مار قسم کی دیسی بوتلیں برآمد ہوئی  تھیں، لوگ بھی ذرا سی بات کا افسانہ بنا لیتے ہیں ۔۔۔میں کتنے دن تک یہی سوچتا رہا کہ بیچاری کتنی مجبور عورت ہے جسے اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانے کی خاطر کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں۔
بیتے ہوئے ان پندرہ سالوں میں نجانے کتنی بار نسیم بی بی اپنے بچوں کی خاطر پکڑی گئی، جیل بھگتی اور ہر بار ایک نئے عزم سے پھر غربت بھوک سے بر سر پیکار ہو جاتی ہے آج اسکی گرفتاری کی تصاویر دیکھ کر لگا کچھ بھی تو نہیں بدلا سوائے پولیس والوں کے وہی نسیم بی بی وہی منشیات بھرے تھیلے۔۔
کچھ بھی ہو جائے بھائی  آپ داد تو دیں اسکی مستقل مزاجی کی
نہ تم بدلے نہ دل بدلا نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کر لوں
کیس میں کوئی  جان نہیں ہوتی یا نظام عدل میں سقم ہے کہ نسیم بی بی زیادہ عرصہ پابند سلاسل نہیں رہتی اور کچھ ہی عرصہ بعد اہلیان کھاریاں کی خدمت نئے انداز سے شروع کر دیتی ہے۔
اس شہر پرساں میں کوئی  ایک بھی نہیں ایسا جو اس کے کام آسکے کیسے کیسے سخی موجود ہیں کتنے خیراتی ادارے ہیں کیسی کیسی این جی اوز ہیں اور ہے نا  ڈوب مرنے کا مقام کہ ایک بیچاری عورت اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے کیسا مکروہ دھندا کرنے پر مجبور ہے
ویسے یاد آیا وہ بچے تو اب جوان ہو چکے ہوں گے تو کیا وہ ماں کا بوجھ نہیں بٹاتے۔۔۔۔؟
تو پھر ہے کوئی  بڑے دل والا جو نسیم بی بی کو متبادل روزگار دلا دے کوئی  ایسا انتظام کر دے کہ یہ بیچاری دو وقت کا نوالہ عزت سے کما سکے۔۔
ہے کوئی   عالم ،کوئی مبلغ جو اسے نیکی کے راستے پر لا سکے
یا پورا شہر تماشائی  ہے۔۔؟

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply