مثنوی معنوی از مولانا روم۔۔۔ قسط نمبر 6 ۔۔۔۔ لالہ صحرائی

مثنوی معنوی از پیرِ رُوم

نثر نگاری و اندازِ بیان

لالہء صـحـرائی

بادشاہ کا لونڈی پر عاشق ہونا:

اے دوستو، یہ قصہ سنو، یہ خود ہمارے موجودہ حال کی حقیقت ہے، اگر ہم اپنی موجودہ حالتوں کا سراغ لگائیں اور ان سے سبق سیکھیں تو ہم دنیا سے بھی اور عقبیٰ سے بھی پھل کھائیں اب سے پہلے زمانے میں ایک بادشاہ تھا، جس کی حکومت ملک دنیا پر بھی تھی اور ملک دین پر بھی، ایک دن بادشاہ اپنے خواص کے ساتھ شکار کےلئے نکلا، پہاڑ اور جنگل میں وہ شکار کی تلاش میں سرگرداں تھا کہ اچانک عشق کے جال میں شکار ہو گیا اس نے راستے میں ایک لونڈی دیکھی اور اس کے حسن پر فریفتہ ہو گیا، اس کی جان کا پرندہ جب پنجرے میں تڑپا تو مال و زر دے کر اس لونڈی کو خرید لیا، بادشاہ لونڈی کو خریدنے میں تو کامیاب ہو گیا لیکن وصل کا مرحلہ آنے سے پہلے وہ لونڈی تقدیر سے بیمار ہو گئی بعض اوقات ایسی صورتحال بھی پیش آتی ھے جیسے کہ ایک شخص کے پاس گدھا تھا لیکن پالان نہ تھا، جب اس نے آنہ آنہ جمع کر کے پالان خریدا تو گدھے کو بھیڑیا اٹھا کے لے گیا، جیسے کہ ایک شخص کے پاس پیالہ تھا لیکن پانی ہاتھ نہ آتا تھا، جب پانی تک پہنچا تو پیالہ ٹوٹ گیا۔ بادشاہ کی حالت بھی کچھ ان حرماں نصیبوں جیسی ہو گئی تھی، اس نے دائیں بائیں سے طبیبوں کو جمع کیا اور کہا کہ ہم دونوں کی جان اب تمہارے ہاتھ میں ھے، میری جان معمولی ہے۔ میری جان کی جان اب وہ مہ جمال ہے، سمجھو کہ میں دکھی اور زخمی ہوں اور میرا علاج وہ مہ جبیں ہے، پس جس نے میری جان کا علاج کر دیا وہ میرے موتی اور مونگے کے خزانے کا حقدار ٹھہرے گا۔

طبیبوں نے کہا اے بادشاہ، ہم سب حکماء یک جان ہو کر خوب غور و فکر کریں گے اور علاج کریں گے، ہم میں سے ہر ایک اپنی جگہ ماہر اور حاذق طبیب ہے، ہمارے پاس ہر درد کا مرہم ہے لیکن دوستو تکبر کی وجہ سے انہوں نے انشاءاللہ نہیں کہا، اسی لئے خدا نے انسان کی مجبوری ان پر واضع کر دی، وہ اپنے کام میں ماہر ہونے کے باوجود تکبر کی بنا پر ٹھوکر کھا گئے۔ انشاءاللہ نہ کہنے سے میری مراد سیہ دِلی ہے، بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو انشاءاللہ کہے بغیر بات کرتے ہیں لیکن انہیں وہ ٹھوکر نہیں لگتی، وجہ یہ کہ ان سعادتمندوں کی جان انشاءاللہ کی روح کے ساتھ رہتی ہے، جب بندہ دل سے اپنی ذات کو خدا کی ذات کا رہین منت سمجھتا ھے تو اس کی جان انشاءاللہ کی روح کے عین مطابق ہو جاتی ھے، جب دل میں یہ عقیدہ پختہ ہو تو ظاہری الفاظ کی اتنی ضرورت نہیں رہتی طبیبوں نے جس قدر بھی علاج معالجہ اور دوا دارُو کیا سب بیکار رہا اور مرض بڑھتا گیا، لونڈی گُھل گُھل کر بال جیسی ہو گئی اور بادشاہ اسے دیکھ دیکھ کر خون کے آنسو روتا رہا۔

میرے عزیز جب موت آتی ھے تو طبیب بیوقوف بن جاتا ہے، دوا اپنا نفع پہنچانے میں گمراہ ہو جاتی ھے، تقدیر جب تدبیر پر حاوی ہوتی ہے تو شکنجبین طمانیت کی بجائے صفرا بڑھا دیتی ھے، روغن بادام اپنی خاصیت کے برعکس خشکی بڑھانے لگتا ہے، ہلیلہ قبض کرنے لگتا ہے اور پانی مٹی کے تیل کی طرح آگ کا مددگار بن جاتا ھے ان دواؤں نے یہی صورتحال اس لڑکی کے ساتھ پیدا کی، اس کے دل کی سُستی بڑھ گئی، نیند کم ہو گئی، آنکھوں میں جلن اور دل درد سے بھر گیا، شربت اور دواؤں کے الٹے اثر نے بادشاہ کے سامنے طبیبوں کی آبرو ختم کر دی۔

بادشاہ کا رجوع الی اللہ :

بادشاہ نے جب طبیبوں کی بے بسی دیکھی تو ننگے پاؤں مسجد کی طرف بھاگا، وہ مسجد کی محراب میں جا کے سجدہ ریز ہو گیا، اس کے آنسوؤں سے سجدے کی جگہ تر ہو گئی، جب وہ فنا کی گہرائیوں سے باہر آیا تو حمد و ثناء میں خوب زبان کھولی اے وہ ذات باری تعالیٰ کہ میری یہ دنیا کی سلطنت تیری معمولی سی بخشش ہے، میں کیا کہوں کہ تو خود سب پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے، ہمارا اور ان طبیبوں کا حال سب کا سب تیری عام مہربانی کے بغیر بیکار ہے اے وہ ذات پاک کہ جو ہمیشہ میری ہر حاجت کی جائے پناہ ہے، ہم پھر سے راستہ بھٹک گئے لیکن تیرا حکم ہے کہ ” اگرچہ میں تیرا بھید جانتا ہوں پھر بھی تو اپنی ظاہری حالت کو میرے سامنے بیان کردے” جب بادشاہ نے تہہ دل سے فریاد کی تو خدائے تعالیٰ کی بخشش کا دریا جوش میں آگیا، روتے روتے بادشاہ کو وہیں نیند آگئی، اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ ظاہر ہوئے اور بولے اے بادشاہ بشارت ہے کہ تیری حاجتیں پوری ہوئیں، اگر کل کوئی اجنبی شخص تیری طرف آئے تو وہ ہماری طرف سے بھیجا ہوا ہو گا، وہ ایک ماہر طبیب ہے، وہ سچا اور ایماندار ہے سو تم بھی اسے سچا جاننا، پھر اس کے علاج میں پورا پورا سحر انگیز اثر دیکھنا اور اس کے مزاج میں خدا کی قدرت دیکھنا۔

بادشاہ جب خواب سے جاگا تو لونڈی کے غلام سے ایک بار پھر بادشاہ بن گیا، اس کا حوصلہ اور صبر سب لوٹ آیا، صبح کا سورج ستاروں کو روپوش کرتا ہوا مشرق سے طلوع ہونے کے قریب ہوا اور وہ دن ظاہر ہونے لگا جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ بادشاہ صبح دم جھروکے میں جا کھڑا ہوا تاکہ اس بھید کو دیکھ لے جو اس پر ظاہر کیا گیا تھا، اس نے ایک کامل پُر ہنر شخص آتا ہوا دیکھا جس کا چہرہ اندھیرے میں سورج کی طرح روشن تھا، وہ دور سے چاند جیسا آ رہا تھا، معدوم اور موجود تھا خیال کی طرح، جیسے خیال موجود تو ہوتا ہے لیکن نظر نہیں آتا میرے عزیز دنیا میں خیال، معدوم کی طرح ہوتا ہے، تو دنیا کو بھی خیال کی طرح چلتی پھرتی چیز سمجھ، ان دنیا داروں کی صلح اور لڑائی خیال کے مطابق ہوتی ہے، ان کا فخر اور ذلت بھی خیال ہی سے ھے لیکن وہ خیالات جو اولیاء کےلئے جال ہیں، خدا کے باغ کے حسینوں کا عکس ہیں (یعنی دنیا کا لڑائی اور صلح کا اپنا اصول ہے اور قابل فخر باتیں بھی ان کی اپنے خیال کے مطابق طے کی ہوئی ہیں جبکہ اولیاء کےلئے قابل فخر صرف وہ خیالات ہیں جو خدائے تعالیٰ کے باغ میں اگائے گئے ہیں یعنی ان کا معیار حدود و رضائے الہی کے اندر رہنے والے خیال تک محدود ہوتا ہے) وہ خیال جو بادشاہ نے خواب میں دیکھا اس مہمان کے چہرے پر ظاہر ہوا۔ یعنی مہمان کو آتے ہوئے دیکھ کر اس کے دل میں یہی خیال آیا کہ واللہ یہ وہی بھیجا ہوا طبیب ہے، خدا کے باغ کے حسینوں کے عکس سے یہی مراد ہے کہ جو خیال اور تعبیر خدا کی طرف سے حاصل ہو وہی باعث شرف اور طمانیت بخش ہے، خدا سے غافل رہ کر جو خیال اور تدبیر اختیار کی جائے اس کی تعبیر ویسی ہی ناخوشگوار ہوتی ہے جیسی دنیا دار اطباء کے ہاتھوں ظاہر ہوئی۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو طبیب اپنے مریض کےلئے شفا کی دعا کرتا ہے اس کے ہاتھ میں اللہ پاک شفا رکھ دیتے ہیں مگر یہاں جو طبی نظام آج رائج ہے اس میں یہ رجحان کم ہی دیکھنے میں آتا ہے) ولی میں اللہ کا نور ظاہر ہوتا ہے، اگر تو صاحب دل ہے تو اچھی طرح دیکھ لے گا، وہ اللہ کا ولی جب دور سے نظر آیا تو اس کے سراپا سے نور برستا تھا بادشاہ دربانوں کی بجائے خود آگے بڑھا اور آنے والے غیبی مہمان کا پرتپاک استقبال کیا اس طرح کہ جیسے شکر گلاب کی پتی سے پیوست ہوئی، دونوں سمندری تیرنا سیکھے ہوئے، دونوں جانیں بلا سے سلی ہوئی، ایک پیاسا اور دوسرا پانی جیسا، ایک مست اور دوسرا شراب جیسا (یعنی دونوں اپنے اپنے میدان کے ہنرمند مگر ایک ضرورت مند اور دوسرا مددگار)

بادشاہ نے کہا میرا معشوق تو تھا نہ وہ لیکن اس دنیا میں کام سے کام نکلتا ہے، آج سے آپ میرے لئے مصطفےٰ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہو اور میں آپ کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ کی طرح سے ہوں، میں آپ کی خدمت کےلئے کمربستہ ہوں۔

اے مرا تو مصطفیٰ، من چوں عمر از برائے خدمتت بندم کمر ادب اور بے ادبی کا بیان:

از خدا جوئیم توفیق ادب بے ادب محروم ماند از فضل رب

ہم خدا سے ادب کی توفیق چاہتے ہیں کیونکہ بے ادب خدا کے فضل سے محروم رہتا ہے۔ بے ادبوں نے نہ صرف اپنے آپ کو خراب کیا بلکہ اپنے تمام اطراف میں بھی آگ لگا دی، ایسوں کو آسمان سے بغیر خریدے اور بیچے، بغیر کہے اور سنے آسمان سے خوان پہنچتا تھا لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے چند بے ادبوں نے کہا، لہسن اور مسور کہاں ہے؟ اس بے ادبی اور بد ذوقی کے بعد آسمان سے خوان اترنا بند ہو گیا اور پھر سے کدال، کھیتی اور درانتی کا غم لوٹ آیا پھر حضرت عیسیٰ نے جب سفارش کی تو اللہ تعالیٰ نے خوان اور طباق میں مال غنیمت بھیجا، جب بے ادبوں نے “اتار ہم پر خوان” کہا تو پھر یہ سلسلہ بند ہو گیا، پھر گستاخوں نے ادب چھوڑا اور بچا کھچا اٹھا رکھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں سمجھایا کہ یہ مستقل ہے اور زمین سے غائب نہ ہوگا، بدگمانی اور لالچ کرنا شاہی دسترخوان پر ناشکری ہوتی ہے اسی لئے ان فقیر صورت لالچ کے ندیدوں کی وجہ سے وہ رحمت کا دروازہ ان پر بند ہو گیا، جب آسمان سے من و سلویٰ بند ہو گیا پھر اس دسترخوان سے کسی کو کوئی فائدہ نہ پہنچا زکواۃ نہ دینے کی وجہ سے ابر نہیں آتا اور زناکاری سے اطراف میں وبا پھیلتی ہے، تجھ پر جو غم کی آندھیاں آتی ہیں وہ بے باکی اور گستاخی کی وجہ سے بھی ہیں، جو شخص دوست کے راستہ میں بے باکی کرتا ہے وہ مردوں کا رہزن اور نامرد ہے یہ آسمان ادب سے پرنور ہے اور ادب سے ہی فرشتے پاک اور معصوم ہوئے، سورج گرہن گستاخوں کو ڈرانے کےلئے ہوتا ہے اور شیطان گستاخی کی وجہ سے ہی مردود بنا، سلُوک کے راستے میں جو گستاخی کرتا ہے وہ حیرت کی وادی میں ڈوب جاتا ہے۔

حال شاہ و مہماں بر گو تمام زانکہ پایانے ندارد ایں کلام

اس بیان کا تو کوئی انت نہیں ھے اس لئے واپس اپنے قصے کی طرف چلو تاکہ بادشاہ اور مہمان کا باقی حال کہیں

بادشاہ اور مہمان طبیب کی ملاقات :

بادشاہ جب مہمان کے سامنے گیا تو بادشاہ ہونے کے باوجود فقیر بن گیا، دونوں ہاتھ پھیلائے اور طبیب سے معانقہ کیا دست بکشاد و کنارانش گرفت ہمچو عشق اندر دل و جانش گرفت دست و پیشانیش بوسیدن گرفت و زمقام و راہِ پُرسیدن گرفت ایک محبوب کی طرح مہمان کو دل و جان میں لیا، اس کے ہاتھ اور پیشانی پر چومنا شروع کیا، مہمان کے مقام اور راستے کا حال دریافت کیا پُرساں پُرساں میکشیدش تا بہ صدر گفت، گنجے یافتم اما بہ صبر بادشاہ حال احوال پوچھتا پوچھتا مہمان کو محل کے صدر دروازے تک لے آیا، کہا آپ کی صورت میں مجھے ایک خزانہ مل گیا ھے لیکن میرے صبر سے، صبر کڑوا ہوتا ہے لیکن بلآخر میٹھا اور مفید پھل دیتا ہے اے اللہ کے نور اور تنگی دور کرنے والے “صبر کشادگی کی کُنجی” ہے کے مصداق تیری ملاقات ہر سوال کا جواب ہے، بے شک تجھ سے مشکل حل ہوتی ہے، جو کچھ ہمارے دل میں ہے تو اس کا ترجمان ہے، جس کا پیر دلدل میں پھنس جائے تو اس کا مددگار ہے مرحبا یا مجتبیٰ یا مرتضیٰ اِن تَغِب جَاء القَضَا ضَاقَ الفَضَاء خوش آمدید اے پسندیدہ ، اے برگزیدہ اگر تو غائب ہوا تو موت آجائے گی، فضا تنگ ہو جائے گی تو قوم کا آقا ہے، جو تجھے نہیں چاہتا وہ بے شک ہلاک ہوایقیناً وہ ہرگز نہ رکا ہلاک ہونے سے، جب وہ مجلس اور خوانِ کرم ختم ہوا تو بادشاہ نے مہمان کا ہاتھ پکڑا اور اسے حرم سرا میں لے گیا۔

بادشاہ کا طبیب غیبی کو بیمار کے کے پاس لے جانا

بادشاہ نے طبیب کو بیمار کا حال سنایا اور پھر اسے بیمار کے پاس لے گیا، طبیب حاذق نے بیمار لڑکی کے چہرے کا رنگ دیکھا، نبض دریافت کی اور قارورے کا معائنہ کیا، مرض کی علامتیں اور علاج کے اسباب بھی سنے طبیب نے کہا جو دوا انہوں نے کی ہے وہ تعمیر نہیں تخریب کر گئی، انہوں نے بلا سبب جانے دوا کی جو اسے مزید ویران کر گئی ہے، وہ طبیب اس کی اندرونی حالت سے لاعلم تھے، جو غلطی اور غلط بیانی انہوں نے کی ہے میں ان جیسی حرکت کرنے سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں طبیب نے جب لڑکی کا مرض دیکھا تو سب راز اس پر کھل گیا لیکن سر دست اس نے بادشاہ سے چھپائے رکھا، اس کا مرض صفرا اور سَودا سے نہیں تھا بلکہ لکڑی کی بُو دھویں سے ظاہر ہو جاتی ہے، وہ دل کی مریضہ تھی اس کا بدن ٹھیک لیکن دل کو گہرا روگ تھا، وہ دل کے روگ میں گرفتار تھی، دل کی بیماری سے عاشقی ظاہر ہے، اس بیماری جیسی کوئی بیماری نہیں علت عاشق ز علتہا جُداست عشق اُصطرلاب اسراِ خداست۔

عاشق کی بیماری سب بیماریوں سے جُدا ہے، عشق خدا کے بھیدوں کا اصطرلاب ہے (اصطرلاب مطلب فلک پیما)

عاشقی خواہ اِدھر کی ہو یا اُدھر کی بالآخر اس شاہ تک ہماری

راہ نما ہے، میں عشق کی تعریف یا بیان جو کچھ بھی کروں لیکن جب عشق میں پڑتا ہوں تو اس بیان پر شرمندہ ہوتا ہوں کیونکہ عشق بیان سے باہر کی چیز ہے گرچہ تفسیر زباں روشن، گرست لیک عشق بے زباں روشن تر ست اگرچہ زبان کی تشریح روشنی ڈالنے والی ہے لیکن بے زباں عشق زیادہ روشن ہے جب قلم لکھنے میں مصروف تھا جب عشق پر پہنچا تو خود قلم چِر گیا، جب اس حالت کے بیان کی بات آئی تو قلم ٹوٹ گیا اور کاغذ بھی پھٹ گیا، عقل اس کی شرح میں مٹی میں پھنسے گدھے کی طرح سو گئی پھر عشق اور عاشقی کی شرح بھی عشق نے ہی کی (یعنی عشق کی تشریح الفاظ سے ممکن نہیں البتہ جب کسی کے ہاتھوں عشق ہوتا ہوا نظر آئے تو ہی سمجھ آتی ہے کہ اسے عشق کہتے ہیں) آفتاب کی دلیل خود آفتاب ہے پس اگر تجھے دلیل درکار ہے تو اس (عشق) سے منہ نہ موڑ، یہ اپنی دلیل آپ ہے، سایہ اگر عشق کا پتا دیتا ہے تو سورج ہر وقت جان کو نور دیتا ہے، سایہ قصہ گو کی طرح تجھے سُلاتا ہے سورج جب نکلتا ہے تو چاند شق ہو جاتا ہے، دنیا میں سورج جیسا کوئی مسافر نہیں لیکن روح کا سورج باقی ہے جس کےلئے کوئی کل گزشتہ نہیں ھے، سورج اگرچہ خارج میں ایک ہی ہے البتہ کوئی اس جیسا اور بھی تصور کیا جا سکتا ہے لیکن وہ سورج جس سے عالم بالا مست ہے اس کی انسانی ذہن اور خارج میں کوئی مثال نہیں، اس کی ذات کی تصور میں گنجائش کہاں کہ تصور میں اس کی کوئی مثال آ سکے۔

شمس تبریزی کہ نور مطلق ست آفتاب ست و ز انوارِ حق ست چوں حدیث روئے شمس الدین رسید شمس چہارم آسماں سر در کشید واجب آمد چونکہ بُردم نامِ اُو شرح کردن رمزے از انعام اُو شمس تبریزی مکمل نُور ہے جو سورج ہے اور حق کے نوروں میں سے ہے، جب شمس الدین کے چہرے کی بات آگئی تو چوتھے آسماں کے سورج نے اپنا منہ چھپا لیا، اب جبکہ میں نے ان کا نام لے لیا ہے تو ضروری ہو گیا کہ ان کے انعام کی تھوڑی سی شرح کر دوں اس وقت میری روح عشق حقیقی سے ایسے مستفید ہو گئی ہے جیسے حضرت ایوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کے لباس کی خوشبو سونگھی ہو، برسوں کی صحبت کا حق ادا کرنے کے لئے اس خوش احوال کا کچھ حال بیان کرنا چاہئے تاکہ زمین و آسمان ہنس پڑیں، عقل، روح اور آنکھیں سو گُنا ہو جائیں میں نے کہا اے! دوست سے دور پڑی ہوئی ہے، اس بیمار کی طرح جو طبیب سے دور ہو، مجھے مجبور نہ کر میں فنا ہوں، میری سمجھ درماندہ ہے، میں اس کی پوری تعریف نہیں کر سکتا، مدہوش جو بات بھی کہے خواہ تکلف کرے یا دراز بیانی مدہوش کےلئے مناسب نہیں کہ وہ کلام کرے، جو کچھ اس حالت میں وہ کہتا ہے چونکہ وہ مناسب نہیں ہوتا اور تکلف کی وجہ سے اور بھی نامناسب لگاتا ہے میں کیا کہوں؟ میری ایک رگ بھی ہوش میں نہیں ہے، اس یار کی تفصیل جس کا کوئی شریک نہیں ہے، میرا تعریف کرنا ہی خود تعریف نہ کرنا ہے اس لئے کہ یہ وجود کی دلیل ہے اور اس کے لئے وجود کا سوچنا بھی غلط ہے اس لئے اس فراق اور خونِ جگر کی تفصیل اب کسی دوسرے وقت کےلئے رکھ چھوڑ اس (روح) نے کہا مجھے کھلا کہ میں بھوکی ہوں، جلدی کر کہ وقت تیز تلوار ہے اے دوست صوفی ابن الوقت ہوتا ہے (جو واردات قلبی سے مغلوب ہو کر کرامت دکھا دے) کل کا حوالہ دینا سلوک کے مناسب نہیں، مثالاً یوں سمجھ لو کہ صوفی ابن الحال ہوتا ہے (جو واردات قلبی سے مغلوب نہ ہو اور ضبط رکھے)

Advertisements
julia rana solicitors

اگرچہ دونوں مہینوں اور سال سے بے نیاز ہیں لیکن تو شائد خود صوفی نہیں، نقد کی تباہی ادھار سے ہوتی ہے میں نے اس سے کہا کہ یار کا راز چھپا ہوا اچھا ہوتا ھے البتہ تو اسے ایک قصے کے ضمن میں سن لے، بہتر طریقہ یہی ہوتا ہے کہ معشوقوں کا راز دوسروں کے قصے میں بیان ہو جائے اس (روح) نے کہا اچھا اب الجھی ہوئی باتیں نہ کر، بہتر ہے سب کچھ کھلم کھلا، بے پرواہ اور بے خیانت کہہ دے، رسولوں کے راز اور اشارے بتا کہ دین کا ذکر کھلم کھلا بہتر ہے نہ کہ پوشیدہ، پردہ اٹھا دے اور بے پردہ کہہ کیونکہ میں محبوب کے ساتھ پیرہن میں نہیں سما سکتی ( پابند حدود نہیں رہ سکتی) میں نے کہا اگر وہ آنکھوں کے سامنے بے پردہ ہوگا تو نہ تُو رہے گی، نہ کنارہ نہ وسط رہے گا (یعنی ضرورت سے بڑھ کر وصل وبال بن جاتا ھے) مراد مانگ لیکن اندازے کے مطابق مانگ، گھاس کا ایک تنکا پہاڑ کو برداشت نہیں کر سکتا، وہ سورج جس سے سارا عالم روشن ہے اگر تھوڑا سا آگے آ جائے تو سب کو جلا دے گا، اب ہونٹ سی لے اور آنکھیں بند کرلے تاکہ دنیا کا جان و دل تباہ نہ ہو، فتنہ و فساد اور تباہی کی کوشش نہ کر اور اس سے زیادہ شمس تبریز کے بارے میں جستجو نہ کر اِس قصےکا تو اختتام نہیں ہے، وہ بات پھر سے کہہ اور اُس (بادشاہ والے) قصے کا بیان پھر سے شروع کر۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply