اگر میں ایک باپ ہوتا اور میری بیٹی ہوتی۔۔آنند بردہ

ہو سکتا ہے میں اُس کیلئے بڑی زندگی نہ بنا پاتا، یعنی میں درمیانے درجے کا شخص ہوتا یا اُس سے کچھ زیادہ ہوتا یا کم ہوتا۔وہ میرے ساتھ سائیکل پہ یا موٹر سائیکل پہ سکول جایا کرتی مگر شاید ایسا نہ ہوتا۔
میری دیگر کئی ذمہ داریاں ہوتیں اور کئی مجبوریاں ہوتیں جیسا کہ ہوتی ہیں۔۔
وہ رکشے پہ جایا کرتی اور پھر وہ ہائی سکول کر لیتی۔
اب تک وہ بہت تیز ہو چکی ہوتی، اب اسکی قینچی جیسی زبان ہوتی جو اُس کی ماں کو بُری لگتی مگر مجھے اچھی لگتی۔ ہاں شاید ایسا ہی ہوتا۔

میں اُس کی اگلی پڑھائی کے متعلق فکر مند ہوتا اور سوچتا کہ اب بس کردینا چاہیے۔گھر میں میرا رویہ بدل چُکا ہوتا، شاید میں بیوی کو بتاتا کہ میں کیسے مشکل سے کماتا ہوں اور تم کیسے آسانی سے اُڑا دیتی ہو۔بیوی کے بھی اپنے تاثرات ہوتے۔ کتنا کچھ ایسا ہے جو ہو رہا ہوتا اور بیٹی اپنی پڑھائی کے متعلق دل ہی دل میں مجھے دلائل دیتی۔ اُس کے اندر ڈر بیٹھ جاتا کہ اب خدا جانے ابا کیا فیصلہ کرے گا۔
میرے اندر بھی ڈر بیٹھ جاتا کہ اگر بیٹی کالج تک جائے گی تو وہ کن راستوں سے گزرے گی؟

ہم دونوں اپنی اپنی جگہ ڈر رہے ہوتے۔ وہ میرے انکار یا تذبذب کو کئی نام دیتی مگر اصل خوف تک وہ کبھی نہ پہنچ سکتی۔وہ یہی سمجھتی کہ میرے ابو وہ باتیں نہیں جانتے جو باتیں ہماری بڑی بہنوں یا ہمسائیوں نے ہمیں بتائی ہیں۔شاید اُسے بھی مردوں میں دلچسپی ہوتی مگر ظاہر ہے اُس کی ایک حد ہوتی۔ ۔کم از کم پسند ناپسند کی حد!

ہاں! دنیا کی شوخ سے شوخ عورت بھی زیادہ سے زیادہ اِسی حد تک ہی جا سکتی ہوگی۔۔ بلآخر میں مان جاتا،اندرونی طور پہ نہیں بیرونی طور پہ ۔۔۔کیونکہ زمانہ مسلسل کہہ رہا ہوتا کہ بیٹیوں کی تعلیم ضروری ہے۔
وہ کالج اور کالج سے یونی ورسٹی تک کا خوشگوار اور تلخ سفر کرتی۔ بسوں اور ویگنوں کا، رکشوں اور ٹرینوں کا سفر۔

میری بیٹی کے مختلف جگہوں پہ مختلف نام اور مختلف قصّے ہوتے۔
بسوں اور ویگنوں کے تجربات، کالج اور یونی ورسٹی کے مہربان اور شفیق اساتذہ۔ ۔ کوئی ٹیچر میری بیٹی کا پسندیدہ بھی ہوتا  ۔
ہاں جیسا کہ ہوتا ہے ۔ ۔ لڑکیوں کا ایک فرشتہ صفت استاد جو لڑکوں کو تنہائی میں سمجھاتا ہے کہ دیکھو لڑکو! یہاں پڑھنے آئے ہو، لڑکیوں کے پیچھے مت بھاگنا، یہ بڑی کنجریاں ہوتی ہیں ۔ مُکر جاتی ہیں ۔  ان کے بدن کا ذائقہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے ۔
آہ! وہ کیسا پریکٹیکل اور سمجھدار ہوتا ۔۔
سب کا من پسند استاد۔ ۔ جسے انگلش میں آئیڈیل شخصیت کہتے ہیں۔

میری بیٹی کا کردار زمانے کے  اصولوں کے مطابق جیسا بھی ہوتا مگر معاشرے کا کردار طے شدہ ہے۔جسے بدلا نہیں جا سکا ۔۔۔ شاید بدلا جا سکتا بھی نہیں۔
کون بدلتا؟ آدمی ؟ عورت؟ کون بدلے گا ؟ آدمی؟ عورت یا میں ؟
میں جو آج ایک باپ ہوں مگر کبھی لڑکا تھا اور آج بھی شاید ایک مرد ہوں۔
ویسا ہی مرد کہ جیسا ہوتا ہے۔
میری بیٹی کی سند ہو جاتی۔
او میرا بڑھاپا ۔۔۔
میں اپنے بڑھاپے کو بھول گیا ۔۔۔
عجیب بات ہے ۔۔۔ خواب دیکھتے ہوئے میں اپنا بڑھاپے کو بھول گیا۔
میں بوڑھا ہو جاتا ۔۔۔ یعنی کمزور ۔۔۔ ذمہ داریاں اور اخرجات پہلے سے زیادہ اور میں پہلے سے زیادہ مجبور و بے بس۔۔ کئی لاکھ مجبوریاں ہیں ۔ یقیناً اُن میں سے کوئی مجبوری میرے نصیب میں بھی آتی ۔  آخر خدا انصاف کرنے والا ہے ۔ وہ مسائل بانٹ کر دیتا ہے ۔۔
ٹھیک ہے میں خواب دیکھ رہا ہوں مگر مجھے خواب کچھ تو حقیقت کے قریب رہ کر دیکھنا چاہیے۔یقیناً کوئی مسئلہ ہوتا اور میری بیٹی کو ملازمت کرنی پڑتی ۔اپنے تمام تر دلائل کے ساتھ  ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جیسے ابو جان! پہلی بار مردوں کا سامنا نہیں کرنا مجھے۔یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ میں بس میں جاؤں گی۔
وہ واقعی کتنی مضبوط ہو چکی ہوگی۔
کسی مرد نے اس کی ایڑھی پہ ایڑھی رکھی تھی ۔ کسی مرد نے اُس کے کان میں کچھ کہا تھا۔ کسی نے اُسے محبت میں دھوکا دیا تھا۔ یہ کتنے بیہودہ خیالات ہیں ۔۔۔ خواب میں ان کو سوچنا نہیں چاہیے۔ بس ان کو مان لیتا ہوں ۔۔
میری بیٹی بہت تجربہ کار اور پختہ ہو چکی ہے۔
آہ! میری بیٹی کتنی سنجیدہ ہو چکی ہے!
اور اُس نے اُس عورت کو چھپا لیا ہے جو بہت کمزور ہے۔ جو کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے۔ جو کسی بھی وقت رو سکتی ہے۔ جسے کسی بھی وقت مرد اغوا کر سکتا ہے۔
آہ۔۔۔ میری بیٹی پختہ ہو چکی ہے۔ یہ مان لینے کے سِوا میرے پاس کوئی راستہ بھی تو نہیں۔
معاشرہ بھی اب ویسا نہیں رہا۔ بسوں میں خواتین کی الگ جگہ ہے ۔ جہاں فقط ٹکٹ کاٹنے والا جا سکتا ہے یا بس چلانے والے کا شیشہ۔مجھے نہیں سوچنا چاہیے کہ پیچھے بیٹھی سواریاں اپنے اندر کیا سوچ رہی ہیں۔
میں کیوں سوچوں کہ جب بس اڈے پہ کھڑی ہوتی ہے تو سب مل کر کیا گفتگو کرتے ہیں۔رکشے والے بھی اب کچھ ڈرتے ہیں ۔شاید میرے محلے کے حاجی صاحب ہی اپنے رکشے پہ میری بیٹی کو اُس کی ملازمت کی جگہ پہ چھوڑنے جایا کریں گے ۔
آخر ہر محلے کے حاجی صاحبان ہوتے ہیں، میرے محلے میں کیوں نہیں ہونگے؟ خدا انصاف کرنے والا ہے وہ ہر چیز کو برابر تقسیم کرتا ہے۔میرا نہیں خیال کہ میں یہ بات سوچوں گا کہ اتنے حاجی صاحبان کے ہوتے ہوئے بدلاؤ کیوں نہیں آیا۔
میں کیوں سوچوں گا؟؟
اور بھی تو کتناکچھ ہے ۔ بیٹی کا معقول رشتہ بھی تو نہیں مل رہا۔ کسی کو میں کنجر لگتا ہوں کوئی مجھے کنجر لگتا ہے۔
کوئی ایک اصول تو ہے نہیں ۔۔
نہیں ۔۔ نہیں ۔۔بالکل نہیں ۔۔ میں ایک عمر گزار چُکا ہوں ۔
میرے خیال سے تب تک مجھے اتنا تو سمجھدار ہو جانا چاہیے کہ میں اپنی بیٹی کو ایک سکوٹی لے دوں،کچھ قرض لے کر، کچھ مانگ کر ، کچھ جوڑ کر ۔۔۔
کم از کم اتنی عُمر گزارنے کے بعد مجھے اتنا تو سمجھدار ہو جانا چاہیے۔ اِس پچھتاوے کے ساتھ کہ کاش یہ بات میں پہلے سمجھ جاتا۔۔۔۔
آہ ! میری بیٹی کا رشتہ کب ہوگا ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply