مڈل ایسٹ کی جیو پالیٹکس۔۔۔۔۔ عامر حسینی

(کامریڈ حسینی کا یہ مضمون خالصتا ایک سیاسی تجزیہ ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ اسے فقط سیاسیات کے ایک طالب علم کی حیثیت سے پڑھیں)

“نظریاتی جدال کے پیچھے پیچھے چلتی عملیت پسند سیاست”

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف مجھے اپنی مزاحیہ طبعیت اور ایک طرح کی خاص شرارتی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے رکھنے کی وجہ سے ہمیشہ پسند آئے ہیں-لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ میں اس پسندیدگی کے سبب ان کے ایرانی ویل سیٹلڈ مڈل کلاس پس منظر اور نیولبرل مارکیٹ اکانومی سے محبت کو نظر انداز کردوں گا-اور یہ بات بھی نظر انداز کردوں گا کہ سعودی عرب کو ایک جدید ماڈریٹ ریاست بنانے کے خواہش مند جواد ظریف جیسے ” عملیت پسند ” سیاست دان کیسے ایرانی سخت گیر ملّاؤں کے ہاتھوں اپنے ہاں میوزک، آرٹ ، فلم ، ڈرامہ ، مرد و زن کے آزادانہ میل میلاپ پہ پابندیوں اور شرعی عدالتوں سے ایرانی ولائت فقیہ سے انحراف کرنے والوں کو سزائیں سنانے پہ خاموشی اختیار کرتے ہیں-اگرچہ مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ ایران کے موجودہ سیاسی نظام کے اندر جعفر پناہی کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ آزادی سے اپنے خیالات کے تحت فلم بناسکے-اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ عورتیں آج بھی گراؤنڈ میں جاکر مردوں کی فٹبال ٹیم کا میچ نہیں دیکھ سکتیں-اور قرۃ العین طاہرہ پہ بنی نئی فلم کو آج بھی ایرانی سینما کی سکرین میسر نہیں آسکتی –لیکن پھر بھی ایران سعودی عرب تو ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی وہاں پہ آرٹ ، فلم ، تھیڑ ، میوزک ، ڈرامہ ، عورتیں اس قسمت کا شکار ہیں جیسی ڈیسٹنی سعودی عرب میں ان کی ہے-اور میں حق لگتی بات کہوں گا کہ دنیا میں مسلم معاشرے ہوں یا غیر مسلموں کی اکثریت والے معاشرے، ایرانی شعیت سے ان کو کم از کم سلفی تکفیر ازم اور سلفی جہاد ازم ، دیوبندی تکفیری فاشزم جیسے خطرات نہیں ہیں کہ ان معاشروں کا کلچر ، تہذیب ، ان کے ہاں مل جل کر رہنے کی روایت اور مذہبی نسلی شناختوں کے تنوع کو باقی رہنے کے حق کو خطرہ لاحق ہوجائے-

سعودی وہابی ازم اور ایرانی شیعہ ازم میں مماثلت ، برابری ڈھوںدنے والے دانشوروں اور لکھاریوں پہ مجھے ہنسی آتی ہے-یہ خوامخواہ اپنے آپ کو ایک امپوٹنٹ قسم کی غیرجانبدار لکھاری ثابت کرنے کی بھونڈی حرکت بھی لگتی ہے-میں ایرانی انقلاب کے بعد وہاں پہ غالب آنے والے سیاسی نظام اور ایرانی آئین کی کئی ایک شقوں کا ہمیشہ سے شدید ناقد رہا ہوں-اور مری تنقید کوئی غیرجانبدارانہ نہیں رہی ہے-میں ایرانی انقلاب میں شامل سیاسی قوتوں میں ہمیشہ سے “تودے پارٹی ” یعنی کمیونسٹ پارٹی آف ایران اور ان کے حامیوں کا طرف دار رہا ہوں اور پھر اگر اسلام پسندوں میں کسی گروہ کی طرف میں نے جھکاؤ محسوس بھی کیا تو وہ ڈاکٹر علی شریعتی ہیں-اور میں حوزہ علمیہ قم سے اٹھنے والی شیعی سیاسی مذہبی روایت کے ویسے ہی خلاف رہا ہوں جیسے میں عراق میں باقرالصدر شہید کے سرمایہ دار نواز اور اخوان المسلمون کے مرشد عام سید قطب سے مطابقت رکھنے والے خیالات پہ مبنی اسلام ازم کا محالف رہا ہوں-اور آج بھی اپنے مارکسی موقف کے ساتھ کھڑا ہوں-

میں اگر خود کو “علی شناس ” کہتا ہوں تو اس کی بھی سماجی-مادیاتی –جدلیاتی بنیاد ہے نہ کہ میں کسی یوٹوپیا یا کسی ڈوگ ما –تحکمانہ قضیہ پہ اس شناسی کی بنیادیں رکھتا ہوں-اگرچہ مجھے اس بات کی پرواہ کبھی نہیں رہی کہ مرے کچھ مارکسی دوست مرے فکری ارتقاء کی کہانی بیان کرتے ہوئے یہ حکم صادر کریں ” عامر حسینی کا فکری ارتقاء بھٹوازم سے مارکس ازم اور مارکس ازم سے شیعہ ازم پہ آکر اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے ” –لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ میں ان مارکسسٹوں میں کبھی شامل نہیں رہا جو شام کے اندر ” آزاد شامی فوج ” کے اندر سے سوشلسٹ انقلاب کو برآمد ہوتا دیکھ رہے تھے اور بہار شام کے اندر جن کو عالمی طاقتوں اور علاقائی طاقتوں کے پٹھے نظر نہیں آرہے تھے-جنھوں نے امریکی اور سعودی اتحادیوں کی “جہادی پراکسی ” کے زریعے “اسد حکومت گراؤ ” پروجیکٹ کے خوفناک نتائج کا اندازہ لگانے سے انکار کرڈالا تھا-اور نہ ہی میں ان مارکسیوں اور لبرلز میں کے ساتھ کبھی اتفاق کرپایا جو پاکستان کے اندر ” شیعہ نسل کشی ” کی اصطلاح کو پہلے پہل سرے سے استعمال نہیں کررہے تھے اور ان کو سنّی اسلام –شیعہ اسلام کی مساوات اور بائنری بہت پسند تھی اور وہابی ازم کے جنوبی ایشیائی ماڈل “دیوبندی تکفیری فاشزم ” کا وجود وہ سرے سے تسلیم کرنے سے ہی انکاری تھے-اور آج بھی کئی ایک لبرلز اس بارے بات کرنے سے شرماتے ہیں-اس لئے اس معاملے میں مجھے جواد ظریف کم از کم ایسے لبرلز اور ایسے مارکسیوں سے بہتر پوزیشن کے مالک لگتے ہیں جب وہ سعودی عرب اور وہابی ازم پہ بات کرتے ہیں-

مجھے یہ کالم لکھنے پہ نیویارک ٹائمز میں شایع ہونے والے ان کے ایک آرٹیکل نے مجبور کیا ہے-جس کا عنوان ہے ؛

“لیٹ اس رڈ دی ورلڈ آف وہابی ازم “

اس آرٹیکل کے آغاز میں ہی جواد ظریف نام نہاد پبلک ریلیشنز فرم پہ خوبصورت طنز کرتے ہیں جن کو “داغدار ” پیٹرو ڈالر لینے میں کوئی عار نہیں ہے کہ وہ رائے عامہ کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہی ہیں کہ القائدہ کا شام میں اتحادی سلفی تکفیری گروپ “جبھۃ النصرہ” اب نہیں رہا بلکہ اس کے ترجمان نے سی این این سے بات چیت کرتے ہوئے سننے والوں کو یہ بتایا کہ “نصرہ فرنٹ ” نے اپنے آپ کو القائدہ سے الگ کرلیا ہے-اور اب یہ مادریٹ /اعتدال پسند بن گیا ہے-جواد ظریف کہتے ہیں :

“تاریک زمانوں کی مذہبی جنونیت کو 21ویں صدی میں “روشن گر وژن ” کہہ کر فروخت کیا جارہا ہے-ایسی پی آر فرموں (جن کے اکثر کلائنٹس سعودی ہوتے ہیں جوکہ نصرہ کو بہت زیادہ فنڈنگ کرتے ہیں )کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ سعودی کلائنٹس کی تباہ کن پالیسوں کے ثبوت کو ان کے وجود سے ہٹ کر فوٹو شاپ کرنا ممکن نہیں ہے-اگر کسی کو کوئی شک تھا بھی تو حال ہی میں دوسرے “اعتدال پسندوں ” کی جانب سے ایک بارہ سالہ لڑکے کا سرقلم کیے جانے کی وڈیو نے ان کے سامنے ایک ڈرادینے والا ثبوت رکھ دیا ہے-“

ویسے نصرہ فرنٹ کے اعتدال پسند بن جانے کے اعلان سے مجھے بھی یاد آگیا ہے کہ 80ء کی دھائی میں امریکی سی آئی اے ، آئی ایس آئی نے بھی یکے بعد دیگرے کئی گروپوں کو کبھی اچھے اور کبھی برے مجاہدین قرار دیا تھا-ایک زمانے میں پاکستانی جرنیلوں کا “اچھا مجاہد ” حکمت یار تھا اور پھر حکمت یار سمیت پرانے مجاہدین اکثر گروپ برے ٹھہر گئے اور ” تحریک طالبان افغانستان ” اچھے مجاہدین کی صورت ابھرکے سامنے آئے-کشمیر میں ایک زمانے تک حزب المجاہدین پاکستانی ایجنسیوں کی ڈارلنگ رہی پھر یہ تھوڑی ولن بن گئی اور اس کی جگہ پہلے “حرکۃ الانصار ” نے لی اور جب “حرکۃ الانصار ” عالمی دہشت گردی لسٹ میں آئی تو “جیش محمد ” ڈارلنگ بنی رہی اور جیش محمد کو بھی ثانوی کردار دینا پڑا اور اس کی جگہ آہستہ آہستہ ” لشکر طیبہ ” نے لی جو آج کل پاکستان میں ” جماعت دعوہ ” ہے-پاکستان میں کئی حلقے سابقہ سپاہ صحابہ کا نیا برانڈ ” اہلسنت والجماعت ” کو اعتدال پسند سنّی دیوبندی قوت قرار دینے پہ مصر ہیں جن میں حامد میر ، طلعت حسین ، نجم سیٹھی بھی شامل ہیں اور وہ طاہر اشرفی کی پاکستان علماء کونسل کو بھی اعتدال پسند سیاسی –مذہبی قوت قرار دیتے ہیں –اور یہ دلائل دینے میں کئی بڑے لبرل نام بھی آگے آگے ہیں-اور مجھے نجانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ مین سٹریم میڈیا میں کئی حلقے سعودی کلائنٹس کے کہنے پہ ان جیسے گروپوں کو اعتدال پسند ثابت کرنے میں زور لگاتے ہیں اور پاکستان میں “شیعہ –سنّی ” بائنری کا ہر اول دستہ پیٹرو ڈالر لیکر یہ کام سرانجام دے رہا ہے-

جواد ظریف کا کہنا ہے کہ امریکی ورلڈ ٹریڈ سنٹر پہ 11 ستمبر 2011ء کو ہونے والے حملوں کے بعد سے عسکریت پسند وہابی ازم کئی چہرے بدل چکا ہے لیکن اس کے نیچے سب کی آئیڈیالوجی اور فکر ایک ہی ہے-

لیکن جواد ظریف اس کہانی کو نائن الیون سے کیوں شروع کرتا ہے –وہ اس کہانی کو 60ء کی دھائی سے شروع کیوں نہیں کرتا جب خود امریکی سامراج مڈل ایسٹ میں کمیونزم کا راستہ روکنے اور عوامی سوشلسٹ تحریکوں کے خلاف وہابی ازم کی جدید تحریک اخوان المسلمون کے اسلام ازم کو استعمال کررہا تھا اور سلفی جہاد ازم کو پروان چڑھا رہا تھا-کیا صرف اس لئے کہ اس زمانے میں ایرانی ملّاوں میں اسلام پسند خود بھی اخوان المسلمون کی طرح کے پین اسلام ازم کو پروان چڑھارہے تھے اور وہ مڈل ایسٹ میں سوشلسٹ و کمیونسٹوں کو اپنا سب سے بڑا دشمن خیال کرتے تھے-جیسا کہ ہم نے 80ء کی دہائی میں دیکھ بھی لیا تھا کہ ایرانی سرکاری ملائیت نے سید قطب مرشد عام اخوان المسلمون کے نام سے ایک یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا تھا اور ایک بہت بڑے سیمینار کا انعقاد بھی کیا گیا تھا –اور ایرانی رجیم نے بعد ازاں حماس کے ساتھ بھی برادرانہ تعلقات قائم کئے تھے-یہ تو برا ہو “اسد رجیم بدلاؤ پروجیکٹ” اور یمن میں “حوثی قبائل ” کی بغاوت کا کہ اخوان المسلمون اور حماس کا جھکاؤ دوسرے کیمپ کی جانب ہوگیا اور یوں ایران کے اسلام پسند ملّاؤں اور اخوانی کیمپ کے درمیان ہنی مون پیریڈ ختم ہوگیا-اس زمانے میں حزب اللہ بھی لبنانی معاشرے کو مکمل طور پہ ایک پولیٹکل اسلام پسند معاشرے میں ڈھالنا چاہتی تھی اور بڑی شدت پسندی کا مظاہرہ کرتی تھی –یہ تو رفیق حریری کے قتل کے بعد حالات بدلے اور حزب اللہ کا آج الائنس ہی سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں اور بعث ازم کے حامی سوشلسٹ قوم پرستوں کے ساتھ ہے-

جواد ظریف ” وہابی ازم ” جیسی وسیع اصطلاح استعمال کرتا ہوا طالبان کو بھی اس میں شامل کرتا ہے اور میں یہاں پہ سمجھتا ہوں کہ اسے “دیوبندی ازم اور سعودی وہابی ازم ” کی باہمی رشتہ داری پہ ایک بریفینگ ضرور لینی چاہئیے –لیکن یہاں پر جواد ظریف سعودی عرب کی موجودہ پالیسی بارے بالکل درست تبصرہ کرتا ہے-وہ بالکل ٹھیک کہتا ہے:

“سعودی عرب اپنے مغربی سرپرستوں کو اپنے کم بصیرتی پہ مبنی حربوں کی حمایت کرنے کی کوششیں کررہا ہے-اور کم بصیرتی پہ مبنی حربوں کی بنیاد اس غلط مقدمے پہ ہے کہ عرب دنیا کو جتنا زیادہ افراتفری کا شکار کیا جائے گا اس سے ایران کو زیادہ نقصان پہنچایا جاسکے گا-یہ خود فریبی پہ مبنی اختراعات کہ علاقائی عدم استحکام ایران کو روکنے میں معاون ہوگا اور یہ کہ شیعہ و سنّی میں مفروضہ حریفانہ کشاکش دونوں تصادم کو ہوا دے رہی ہیں اور یہ اس حقیقت کو آشکار کررہی ہیں کہ علاقہ میں بدترین خون ریزی کا سبب وہابی عرب ہی بن رہے ہیں اور ان کے ہاتھوں سب سے زیادہ سنّی ہی مارے جارہے ہیں “

یہاں پہ جواد ظریف نے “فیلو سنّی ” کا لفظ استعمال کیا ہے جو کہ غلط ہے-کیونکہ وہابی عربوں نے کبھی بھی عربوں کی نان وہابی سنّی اکثریت کو اپنا ساتھی خیال نہیں کیا اور ان کے ساتھی صرف وہی سنّی گروہ بن سکے ہیں جنھوں نے اپنی سنّیت کو عرب وہابیت کے ہاتھوں بیچ دیا جیسے دیوبندی پاکستانی اور ہندوستانی جہادی و عسکری تنظیميں اور ان کی سرپرست دیوبندی حنفی ملائیت ہے-جاوید ظریف یہ ٹھیک کہتا ہے کہ دولت مند سعودی وہابی شیوخ کے ہاتھوں پیٹرو ڈالر لینے والے ان انتہاپسندوں نے جہاں کرسچن ، یہودی ، یزیدی ، شیعہ اور دوسرے کافروں کو نشانہ بنایا ہے وہیں ان کے سنّی عرب ساتھی بھی نفرت سے بھری اس درآمدہ ڈاکٹرائن –وہابی ازم کا شکار ہوئے ہیں-اصل میں یہ قدیم فرقہ وارانہ سنّی-شیعہ تنازعہ نہیں ہے بلکہ یہ وہابی ازم اور مین سٹریم اسلام کے درمیان ایک تصادم ہے جس کے اس خطّے اور اس سے باہر دور رس اثرات مرتب ہوں گے-

جواد ظریف بہت چالاکی سے مغرب بارے یہ خوش فہمی اپنے پڑھنے والوں کو فروخت کرتے ہیں کہ مغرب کی نگاہوں سے یہ بات پوشیدہ تھی کہ مڈل ایسٹ میں جس وہابی انتہا پسند آئیڈیالوجی کے زیر اثر دہشت گردی پروان چڑھی اور جو امریکہ کے عراق پہ حملے کے بعد عراق کے اندر سامنے آئی اس کا پروموٹر سعودی عرب تھا-حالانکہ مغرب کے حکمرانوں کو سب پتہ تھا – جواد ظریف سعودی حکمرانوں کو بھی آخر میں ایک لائن دیتے ہیں-وہ کہتے ہیں:

“صدام حسین کی حکمرانی کے زمانے میں عراق کے اندر جو علاقائی سٹیٹس کو تھا اسے ریاض کے شہزادے پھر سے بحال کرنا چاہتے تھے جوکہ ایک قربانی کا بکرا جابر آمر تھا جسے اپنے ساتھی عربوں ،سادہ لوح مغرب(کیا کہنے اس خطاب کے )کی خفیہ مالی امداد اور مادی سپورٹ حاصل تھی تاکہ نام نہاد ایرانی خطرے کو دور کیا جاسکے-اس میں صرف ایک مسئلہ تھا :مسٹر حسین بہت پہلے مرچکے تھے اور گھڑیال کی سوئی کو واپس پلٹایا نہیں جاسکتا تھا- جتنی جلدی سعودی عرب کے حکمران اس بدلی حقیقت کو مان لیتے ہیں ان کے لئے اتنا ہی سب کے لئے بہتر ہوگا-نئی حققتیں ہمارے خطے کی طرح ریاض کو بھی اکاموڈیٹ کرسکتی ہیں اور سعودی حکمرانوں کو اپنے طور طریقے بدل لینے چاہيں “

تبدیلی سے جواد ظریف کی مراد کیا ہے-اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ ریاض وہابی ازم کو دنیا بھر میں برآمد کرنے کے لئے جو اربوں ڈالر خرچ کرتا رہا ہے اور جس سے ایشیا سے لیکر افریقہ تک اور یورپ سے لیکر امریکہ تک اس تھیالوجیکل گمراہی نے بہت تباہی ہوئی ہے اس سے باز آئے-جیساکہ ایک سابق انتہا پسند جس کا تعلق کوسوو سے ہے نے “ٹائم میگزین ” کو بتایا ، ” سعودیوں نے یہاں اپنے پیسے سے اسلام کو مکمل بدل ڈالا ہے ” -اگرچہ وہابی آئیڈیالوجی نے ابھی مسلمان آبادی کی ایک اقلیت کو ہی اپنی طرف کھینچا ہے لیکن وہابی ازم تباہ کن اثرات مرتب کررہا ہے-تقریبا ہر وہابی دہشت گرد گروپ ہی اسلام کے نام کو استعمال کررہا ہے- القائدہ اور اس جیسے دیگر گروپ جو شام میں سرگرم ہیں سے لیکر نائیجیریا میں باکو حرام تک-سب کے سب اس ہلاکت خیز نظریہ سے متاثر ہیں-

جواد ظریف نے بالکل ٹھیک اندازہ لگایا ہے کہ ریاض زیادہ دیر تک ایرانی کارڈ کھیل کر اپنے اتحادیوں کو یمن یا شام کے اندر ملوث ہونے اور اس کی حماقتوں کا ساتھ دینے پہ راضی نہیں رکھ سکے گا-کیونکہ یہ سمجھ اب زیادہ ہوتی جارہی ہے کہ ریاض کی جانب سے مستقل انتہاپسندی کی سپانسر شپ اس کے توازن پیدا کرنے والی قوت کے دعوے کو جھٹلارہی ہے-

دنیا وہابیوں کی جانب سے کرسچن ، یہودی اور شیعہ بلکہ سنّیوں کو نشانہ بنانے پہ خاموشی سے بیٹھ کر تماشا نہیں دیکھ سکتی-مڈل ایسٹ کے ایک بڑے حصّے میں تو افراتفری ہے ہی ڈر یہ ہے کہ باقی کے حصّوں میں جہاں استحکام ہے وہاں تک بھی یہ افراتفری پھیلے گی اگر مین سٹریم اسلام اور وہابی ازم میں تصادم میں تصادم بڑھتا ہے تو-

جواد ظریف سعودی عرب کے حکمرانوں کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ ملکر وہابی ازم پہ مشتمل دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں میں شریک ہوجائیں –جبکہ سعودی عرب تو اپنے تئیں ان کوششوں میں پہلے سے ہی شریک ہے –وہ 34 ممالک کے فوجی اتحاد کا مقصد بھی دہشت گردی کا خاتمہ بتاتا ہے-مغرب نے ترکی کو شام کے اندر داعش کے خاتمے کے پروجیکٹ میں شامل کرلیا ہے اور ایرانی خود بھی ترک صدر سے گلے مل رہے ہیں-ایسے میں کردوں کا کیا ہوگا ؟ اس کی پرواہ نہ تو مغرب کو زیادہ ہے اور ایرانیوں کو بھی لگتا ہے اس کی زیادہ پرواہ نہیں ہے-جواد ظریف کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہ سعودی عرب سمیت گلف ریاستوں سے علاقائی طاقت کے توازن کے سوال پہ کوئی آبرومندانہ سمجھوتے کے خواہش مند ہیں –ایسی خواہش امریکی انتظامیہ کی جانب سے بھی سامنے آئی ہے-جان کیری اور سرگئی لاروف کے درمیان ہوئی ملاقاتوں اور شام میں جنگ بندی کا معاہدہ بھی اس پہ روشنی ڈالتا ہے-مجھے اس سارے معاملے میں قطیف اور بحرین کی شیعہ کمیونٹی سے خاصی ہمدردی محسوس ہورہی ہے اور خود یمن کے حوثی قبائلیوں سے بھی جنھوں نے اپنے اپنے ملکوں مین انقلاب کا خواب دیکھا تھا –ان کے ساتھ کیا ہوگا؟یہ کہنا اگرچہ ابھی قبل از وقت ہے-کیا عالمی اور علاقائی طاقتیں مڈل ایسٹ کی سکائی –پائیکوٹ معاہدے کے تحت ہونے والی تقسیم میں کوئی تبدیلی لائیں گی یا معاملہ سٹٹس کو تک محدود رہے گا ؟ کردوں کی آزاد ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہوپائے گا؟بحرینی عوام کو بادشاہت سے نجات ملے گی اور کیا ایرانی اس حوالے سے یو ٹرن لینے سے باز رہیں گے ؟ یہ سوال آنے والے دنوں میں مزید اہمیت اختیار کریں گے-اور سب سے بڑھ کر امریکی پالیسی مڈل ایسٹ میں کیا ہوگی ؟ کیا وہ ایرانی بلاک اور سعودی بلاک کو ایک ٹیبل پہ بٹھاکر ان کے درمیان کوئی سمجھوتہ کرانے میں کامیاب ہوں گے؟ اور سب سے بڑھ کر کیا افغان پروجیکٹ کی طرح شام و یمن کے پروجیکٹ اگر جینوا جیسے کسی معاہدے تک پہنچتے ہیں تو کیا اس جنگ کے پیدل سپاہی وہ افراتفری تو پیدا نہیں کردیں گے جو روسی فوجوں کے افغانستان سے انخلاء کے بعد سے پیدا ہونا شروع ہوئی تھی-سب سے زیادہ خطرہ تو اس امر کا ہے کہ جب عراق اور شام سے مغربی طاقتیں جائیں گی تو کیا شامی اور عراقی کردوں کے خلاف ٹوٹلی کرش جیسی پالیسی تو ترک، شام اور عراقی حکومتیں نہیں اپنالیں گی ؟

Advertisements
julia rana solicitors

 کامریڈ عامر حسینی نا شیعہ ہے نا سنی، فقط ایک ایسا انسان ہے جو ظلم اور مظلومیت، دونوں کا پردہ چاک کرنا چاہتا ہے۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply