• صفحہ اول
  • /
  • مشق سخن
  • /
  • انتخابات کا ڈھونگ، چند اھم سوالات۔۔۔ مولانا رعایت اللہ صدیقی

انتخابات کا ڈھونگ، چند اھم سوالات۔۔۔ مولانا رعایت اللہ صدیقی


اسلام میں خود کو امارت کا خواہش مند بنا کر پیش کرنا مناسب نہیں۔ کیوں کہ امارت کا خواہش مند تعاون سے محروم ہوجاتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ امارت کو اس پر ایک بوجھ بناکرلاد دیتاہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی عبد الرحمن بن سمرہ ؓ سے فرمایا: ’’ اے عبدالرحمن بن سمرہ امارت کے طالب نہ بنو، کیوں کہ اگر یہ تم کو مانگنے سے ملے گی تو تم پر بوجھ بن جائے گی اور اگر بے طلب ملے گی تو تم کو ہمہ جہت تعاون حاصل ہوگا‘‘ بخاری: حدیث نمبر۷۱۴۶، مسلم : حدیث نمبر ۱۶۵۲)

ہمیں یہ لولی پاپ بہت دیا جاتا ہے کہ چونکہ جمعیت میں جمہوریت ہے، شورائی نظام ہے اور انتخابات ہوتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ پوری جماعت کافیصلہ آگیا ہے لہذا اس جماعتی فیصلے کے سامنے سرِتسلیم خم کرناچاہیے۔۔۔لیکن جہاں تک ہمیں معلوم ہے جماعت کے اندر جو جمہوریت تھی۔۔ اور جو اب ہے اس میں بہت فرق ہے ۔۔۔۔۔

جس زمانے میں جمعیت علمااسلام میں حقیقی جمہوریت تھی۔۔۔کارکنوں کوجمعیت کااصل مالک اورسرمایہ سمجھا جاتا تھا۔ ان کومریدقسم کے اندھے بہرے خدام کے طورپرنہیں دیکھاجاتاتھا۔۔۔تواس زمانے میں جمعیت کاانتخابی نظام کچھ اس طرح تھا۔۔۔۔کہ سب سے پہلے مرکزی کنوینرکی تقرری کی جاتی تھی۔۔یہ تقرری مرکزی عاملہ کی ذمہ داری تھی ۔۔مرکزی کنوینرجب رکنیت سازی کاعمل مکمل کردیتاتونیچے سے اوپرتک تنظیمی انتخابات کاسلسلہ شروع ہوجاتا۔۔اوراس کیلئے طریقہ کاریہ تھاکہ مثلادس بنیادی ارکان مل بیٹھ کرطے کرتے تھے کہ ان دس میں سے تحصیل مجلس عمومی کیلئے کس نے جاناہے۔۔۔تحصیل عمومی کے ارکان اس طرح منتخب ہوتے اوروہاں جاکرصرف تحصیل امیراورجنرل سیکرٹری نہیں بلکہ تمام عاملہ اسی مجلس عمومی نے منتخب کرناہوتاتھا۔۔اس کے بعداسی عمومی کے دس دس ارکان مل بیٹھ کریہ طے کرتے تھے کہ ہم میں سے ضلع عمومی میں کس کوبھیجنا ہے۔ اسی طرح صوبے کیلئے اوراسی طریقے سے مرکزکیلئے۔

جب نیچے سے منتخب ہونے والے یہ مجلس عمومی کےارکان مرکزی عمومی میں پہنچ جاتے تو یہ باصلاحیت ترین افراد ہوتے۔۔کیونکہ تحصیل سے لیکرمرکزتک وہ اسی طرح ساتھیوں کے درمیان سے انہی کے جانب سے منتخب ہو کر آئے ہوئے ہوتے تھے۔اورپھر یہ لوگ آزادبھی ہوتے کیونکہ ان کوکسی کنوینرکی شناخت اورتعلق نے اس ادارے تک پہنچنے میں مددنہیں دی ہوتی تھی اسلئے وہ اپنی رائے اورفیصلے میں بالکل آزادہوتے۔اس طرح ان کاکام صرف یہ نہیں تھاکہ امیراورجنرل سیکرٹری منتخب کرکے اپنے گھروں کوروانہ ہوجائیں بلکہ تمام مجلس عاملہ کومجلس عموی نے ہی منتخب کرناہوتا تھا۔۔۔اگرکوئی قابل آدمی امیرمنتخب ہونے سے رہ جاتاتوپھراس کوجنرل سیکرٹری منتخب کیاجاتا۔ اگر کوئی باصلاحیت آدمی جنرل سیکرٹری منتخب نہ ہوپاتاتواس کونائب امیریاجوانیٹ سیکرٹری منتخب کیاجاتا۔ یہ طریقہ نہیں ہوتا تھاکہ پہلے امیرکسی کومنتخب کرواورپھراس کے چمچے کواس کے ساتھ جنرل سیکرٹری بنادواورگھرکوچلتابنو۔

لیکن اب مولانا فضل الرحمن نے دستور میں من مانی ترمیمات کرواکرواکردستورایسابنادیاہے کہ مرکزی کنوینرکو وہ خود منتخب کرتے ہیں اور سب سے زیادہ وفادار اور تابعدار بندہ اس کام کیلئے منتخب ہوتا ہے،کیونکہ اسی نے مولانا کی امارت کی راہ ہموار کرنا ہوتی ہے ۔دکھاوے کیلئے مولانا نے یہ بات مشہور کررکھی ہے کہ مرکزی کنوینر مجلس عاملہ منتخب کرتی ہے مگر یہ بھی دیکھیں کہ مرکزی عاملہ کون منتخب کرتا ہے ۔۔۔ظاہر ہے مولانا صاحب بقلم خود۔

جب مولانا صاحب اپنی مرضی سے اپنے پسند کے بندے کو مرکزی کنوینر منتخب کرلیتے ہیں تو سمجھو آدھی سے زیادہ جنگ مولانا نے ادھر ہی جیت لی ۔ کیونکہ مرکزی کنوینر یوں سمجھ لیں مرکزی الیکشن کمشنر ہوتا ہے جب آپ نے الیکشن کمیشن اپنی مرضی کا بنالیا تو آگے الیکشن جیتنے میں آپ کے چانسز سو فیصد بڑھ گئے ( پاکستان کے جنرل الیکشن میں بھی تو یہی فارمولا استعمال کیا جاتا ہے )۔

یہ کنوئنرجاکرآگے چاروں صوبوں میں وہ آدمی ڈھونڈکرصوبائی کنوینرز نامزد کرلیتا ہے جواس کے اعتماد کے بندے ہوتے ہیں ۔۔اسی طرح صوبائی کنوینرز اپنی مرضی سے اعتماد کے بندے کو ضلعی کنوینرزچن لیتا ہے۔ جب تنظیم سازی کامرحلہ آتاہے توضلعی کنوینراپنے من پسندافرادکوضلعی مجلس عموی ،صوبائی کنوینراپنے من پسندافرادکوصوبائی مجلس عمومی اورمرکزی کنوینرایسے من پسندافرادکومرکزی مجلس عمومی کارکن بناتاہے ۔جو پکے اعتماد کے بندے ہوتے ہیں اورجن سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ مولانا کی مرضی سے ہٹ کر کسی دوسرے بندے کو ووٹ دے سکتا ہے۔ ان منتخب شدہ افراد میں ان کی صلاحیت اور جماعتی خدمات کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا بلکہ ان کی واحد صلاحیت یہی ہوتی ہے کہ کنوینر کے اعتماد پر پورا اترتے ہیں وہ کنوینر جو مولانا کے اعتماد پر پورا اترنے کے باعث اس عہدے پر کام کررہا ہوتا ہے ۔

پھراس عمومی کاکام یہ ہے کہ مولانا کو بلامقابلہ امیرمنتخب کرے اوراس کے ساتھ مولانا کے من پسندچمچے کوجنرل سیکرٹری بنادے۔۔۔پھراس کے بعد مولانا اورجنرل سیکرٹری کایہ اختیارہے کہ وہ کن پلاسٹک کے بوتلوں کومرکزی عاملہ کے ارکان بناتے ہیں۔

مرکزی عموی کاکام یہ ہے کہ وہ مولانا کی یہ تقریریں پانچ سال تک سنتے رہیں کہ اسلام کوکیسے بڑے بڑے خطرے ان کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں ان کاکام بس جلسوں میں شریک عوام جیساہوتاہے کہ ہرقراردادپرہاتھ اٹھاکرآوازبلندکرتے ہیں جی جی منظورہے ، منظورہے۔

یہ تو ہوئی وہ ساری تفصیل جس میں سادہ طریقے سے بتادیا گیا کہ مولانا صاحب کس طرح ہر بار اپنی امارت کیلئے راستہ ہموار کرتے ہیں کسی کو اپنے سامنے امارت کے امیدوار کے طور پر برداشت نہیں کرسکتے ، پر بار بلامقابلہ امیر ہونا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ مگر یہاں چند سنجیدہ سوالات پیدا ہوتے ہیں ، جس کا جواب لینا جمعیت کے ہر کارکن کی ذمہ داری ہے۔

کیا اس ظالمانہ طریقے سے اپنے لئے ہر قیمت پر اپنے لئے امارت طلب کرنا شروع میں بیان کردہ حدیث کی صریح مخالفت نہیں ؟

کیا اس طرح کے امیر کےساتھ خدا کی مدد شامل حال ہوسکتی ہے ؟

مولانا صاحب نے جماعت پرقبضے کا بہترین اور بلٹ پروف سسٹم وضع کیا ہے۔ کیا جمیعت واقعی ایک جمہوری جماعت ہونے کا دعوی کر سکتی ہے؟

زرا سوچیئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply