مناجات بیوہ جدید ۔۔۔۔ حافظ صفوان محمد چوہان

ہم اس غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ مرد سری معاشرہ صرف ہمارے پاکستان ہندوستان میں ہے لیکن کئی سال سے بکرعید کے موقع پر شائع ہونے والی تحریروں کو پڑھنے سے اندازہ ہوا ہے کہ یہ گھناؤنا رواج ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے، یا کم سے کم ساری مسلم دنیا میں تو ضرور ہی چل رہا ہے۔ آپ جتنی تحریریں پڑھ لیں، سب میں بکروں اور بچھڑوں کے ساتھ شرارتیں ملیں گی اور ان کے گوشت کے لذیذ قصے ملیں گے۔ کہیں کوئی “اے مٹن پیارے مٹن پاک مٹن اے میرے پیارے مٹن” الاپ رہا ہوگا تو کہیں بکرے کی ماں کو منانے کے کوسنے دیے جا رہے ہوں گے۔ نہیں ملے گا تو بکروں اور بچھڑوں کی بیوگان کا نوحہ۔

اپنے سر کے سائیں کے جانے کے بعد ممیاتے بکروں کی بیوائیں کیا منمناتی ہوں گی اور ڈکراتے بچھڑوں کی بچھیاں کیا رانبھتی ہوں گی، یہ نہ کسی نے کبھی سوچا نہ لکھا۔ اپنے سرتاجوں کی چانپیں، کباب اور تکے بنتے دیکھنا کچھ انہی عفیفاؤں کا دل گردہ ہے۔ بوٹیوں کی رنگین تصویروں والے بڑے اخبار اور ٹی وی سکرینوں کے قیمہ بنانے اور سیخیں چڑھانے کے مناظر وہ دکھیارنیں کیسے دیکھتی ہوں گی، یہ کسی نے نہیں سوچا۔ سوشل میڈیا پر جب آپ لوگ ان کے مرحومین کے بارے میں لطیفہ بازی کرتے ہیں تو کبھی کسی مصیبت کی ماری بکری کی من من آپ کے کانوں میں بھی نہ پڑی ہوگی۔

اور ہاں، جن بچھڑوں کی منظورِ نظر بچھیاؤں کے کتخدا ہونے سے پہلے آپ
ان پر بغدے چھرے لے کر چڑھ دوڑے، ان کا نوحہ بھی کسی نے نہیں لکھا۔ کاش کوئی حالی ہوتا جو ان چھرا زدگان سے غمخواری کرتا اور آپ ماس خوروں کو شین حے دلاتا۔ بکرا بچھڑا بچھیا تو پھر بڑے جانور ہیں، آپ کی بھوک سے تو معصوم پرندے بھی تنگ آئے ہوئے ہیں۔ آپ کسی چوزے کو مرغ بنتا نہیں دیکھ سکتے۔ طائرانِ ہُوتی و لاہُوتی آپ کے بٹیریں لڑانے اور چوزہ بازی کے شوق سے بھی دق ہوئے پڑے ہیں۔

رنڈاپا کاٹتی بے چاری بکریوں بچھیاؤں کی درد ناک حالت حالی ہی کے الفاظ میں کچھ یوں ہوتی ہے…

دن ہیں بھیانک رات ڈراؤنی
یوں گزری یہ ساری جوانی
کوئی نہیں دل کا بہلاوہ
آ نہیں چکتا میرا بلاوہ
آٹھ پہر کا ہے یہ جلاپا
کاٹوں گی کس طرح رنڈاپا​
پیت نہ تھی جب پایا پیتم
پیت ہوئی تو گنوایا پیتم

Advertisements
julia rana solicitors london

کہنے کو تو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ آپ کہاں اس خوشی کے موقعے پر رانڈ بیوائوں کا سیاپا لے بیٹھے لیکن کیا کیجیے ہمارے مشرقی معاشرے خصوصاً بر صغیر میں ٹریجڈی ہمیشہ “ان” رہتی ہے۔ یہاں کے سیاسی رہنما بھی اپنی تقاریر میں پالیسی اور موقف بیان کرنے کے بجائے اپنی قربانیاں گنواتے اور ہمدردی کے ساتھ ساتھ ووٹ بھی سمیٹتے ہیں۔ بات ذاتیات کی حدود میں چلی جائے گی، اس لیے ہم مثالیں دینے سے احتراز کرتے ہوئے آپ سے صرف یہی عرض کریں گے کہ قربانی کرنے کے بعد نئی ودھوائوں کی دستگیری ضرور کیجیے گا کہ انہی کے دم قدم سے آپ کی اگلی عید پھر رنگین ہو گی ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply