• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ظلمت سے نور کا سفر(قسط9)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

ظلمت سے نور کا سفر(قسط9)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں
میرے غم خانے میں کچھ ایسا اندھیرا بھی نہیں

مسکن ادویات سے لی ہوئی مصنوعی نیند سے جب اسکی آنکھ کھلی تو ۔۔۔ اسے طبیعت میں وہ تازگی محسوس نہیں ہوئی، جو ایک بھرپور قدرتی نیند سے اٹھ کر انسان روح تک کو سرشار پاتا ہے ۔۔۔ عجیب بوجھل دل و سُن دماغ کے ساتھ کھڑکی کھولی اور طلوع ہوتے سورج کی طرف متوجہ ہوئی ۔
“کتنا خوبصورت لگ رہا ہے اور روشنی بھی ٹھنڈی اور بھلی محسوس ہو رہی ہے ،ساتھ میں فضاء بھی پرکیف اور منظر روح کو تسکین لیے ہے ۔واہ کیا برکت محسوس ہوتی ہے طلوع صبح میں”
وہ خود سے باتیں کرنے لگی ۔۔

روشن آفتاب کی چمک ایک بھرپور زندگی کے آغاز کی علامت بن کر اس کے سامنے تھی ۔
ایک خیال اس کے ذہن میں بجلی کی طرح کوندا. ماضی کی طرف جھانکا اور پلک چھپکتے ہی اسے لگا اس کی زندگی بھی آفتاب کی طرح بھرپور تھی ۔۔۔ساتھ ہی دوسری سوچ نمودار ہوئی کہ آفتاب غروب بھی ہوتا ہے شام کا اداس منظر آفتاب کے زوال اور اس کا ڈوبنا اس کی موت کا اعلان ہے ۔
یہ سوچتے ہی اسے بے چینی، اضطراب اور وہم کے ساتھ ساتھ کل کی ڈاکٹر سے گفتگو بھی یاد آگئی.
“ضحی تمہیں ایک نفسیاتی عارضہ لاحق ہے جسے ” موت کا خوف” یعنی” ڈیتھ فوبیا” کہتے ہیں ۔”
ڈاکٹر کے الفاظ اس کے کانوں میں سرگوشیاں کرنے لگے ۔۔
“یا اللہ میں کہاں آ گئی، میں نے تو کچھ بھی نہیں  دیکھا زندگی میں، کیا میں مر جاؤں گی اتنی جلدی، نہیں نہیں، یہ نہیں ہوسکتا ”
فضول، ناممکن اور کسی حد تک ابنارمل سوچیں جو کسی سے بھی شیئر کرے تو پاگل ہونے کی سند کے لیے کافی ہیں ۔دل و دماغ میں سرگوشیاں کرنے لگی ۔
اسے ایک دم ایسے لگا اس کے سینے پر دباؤ بڑھ رہا ہے ۔دل کو کچھ اذیت کا سامنا ہے ۔جو جو وہ موت کو سوچتی، اسے اپنے ذہن کو قابو رکھنا اور سینے پر بڑھتے درد کو کم کرنا مشکل ہونے لگا درد بازو میں بڑھا،
اسے اپنے درد اور اذیت سے زیادہ اس مسئلے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال زیادہ تکلیف دہ لگی جو اسے گھر والوں کے رویے سے درپیش تھی ۔۔۔
جلدی سے زینکس کی گولی پانی سے لی اور خود کو فرش پر آڑھے ترچھے انداز میں گرا دیا، مرگی کے مریض کی طرح اذیت میں ہاتھ پاؤں گھومانے لگی ۔
زندگی کے اس رخ نے اس کی ذاتی زندگی تو متاثر کی ہی کی، اس کے رہن سہن کو بھی دیمک زدہ کردیا ۔ جس کا اندازہ اس کے کمرے کی بے ترتیبی, اس کے اندر برپا بے چینی و اضطراب کے طوفان کا پتہ دے رہی تھی ۔
اس کی زندگی ڈپریشن کے بھنور میں بنا کسی سمت کے تعین کے بس گھومتی ہی جا رہی تھی اور اب فوبیاز میں ڈھلنے کے بعد اس ہوا کے بگولے کے مرہون منت تھی جو بے لگام ہر چیز کو تہس نہس کرتا ہوا بے سمت چلا جاتا ہے ۔ اور وہ خود کو اسی کیفیت میں محسوس کرنے لگی ۔
نڈھال پیلا چہرہ، سیاہ حلقے اور پپڑی جمے ہونٹ، صدیوں کی مسافت چہرے سے عیاں تھی ۔ کچھ اذیت ناک لمحوں کے بعد وہ اٹھی اور بیڈ پر بیٹھ گئی ۔
سائیڈ ٹیبل پہ موجود دوائیوں کے انبار پہ نظریں جم گئیں ۔ان دوائیوں سے اسے چنداں فرق نہیں پڑا تھا، الٹا نظام انہضام مزید بدتر ہوگیا، کھانا ہضم ہونے سے قاصر بلکہ طعام کے بعد بے چینی و اضطراب کا مؤجب تھا۔جسم میں پانی اور خوراک کی کمی سے دل کی دھڑکن بے ترتیب اور پٹھے کمزور ہوچکے تھے ۔ خود کو برسوں کی بیمار اور ایسے محسوس کرتی جیسے ایک ضعیف العمر انسان بستر مرگ پر موت کی چاپ کو بتدریج محسوس کرتا ہے ۔
اب ضحی نے اپنے کمرے میں پناہ لے لی تھی۔ جسمانی کمزوری سے تھک کر اس نے اپنے گرد خودساختہ تنہائی کا حصار بنا لیا ۔اس کمفرٹ زون میں وہ بس اپنے بیڈ پہ بیٹھی ڈری سہمی موت کے خوف میں اک اک پل گزار رہی تھی ۔خوف، منفی سوچیں اور دیگر منفی احساسات اسکی شخصیت کو گرد آلود کرنے کے ساتھ ساتھ اسکی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو مکمل طور پر زنگ آلود کر رہے تھے ۔
معاشی تنگی سے گھر کے ماحول پہ گہرا اثر پڑا تھا کاروبار پر بے توجہی سے اس کی سپروائزر نے نیت خراب کر لی ۔اور رویوں میں تلخیوں نے اپنی جگہ الگ بنا لی ۔
کبھی کبھی اسے لگتا کہ زندگی بوجھ بن گئی ہے۔ ایسے میں اس تاریک دور میں شہزین بالکل اپنے نام کی طرح تاریکیوں میں امید کے مثبت دیے ڈھونڈ کر جلا دینے والی لڑکی اسکی بچپن کی دوست تھی ۔ جو سمجھداری کے ساتھ زمانہ کی گرم سرد کو بخوبی جانتی تھی ۔ اور اسکی بدلتی حالت پر اس کی دل جوئی کرتی لیکن اس روگ سے وہ بھی لاعلم تھی، کیسی بیماری ہے جو میری عزیز دوست کو خزاں زدہ درخت کی طرح بے رونق کرتی جا رہی ہے ۔
“چلو یار کسی اور ماہر نفسیات سے ملتے ہیں ۔”
شہزین نے اسے کہا!
اور وہ اسے مشہور سائیکالوجسٹ کے پاس لے گئی ۔۔۔
“اتنے عرصہ سے میں ادویات لے رہی ہوں، اب تو ان کا اثر بھی کم ہوتا جا رہا ہے، بلکہ میری ایگزئیٹی میں زیادہ اضافہ ہونے لگا ہے، جس کی وجہ سے خود کو ناکارہ محسوس کرتی ہوں ۔آپ برائے مہربانی مجھے ان ادویات کے اثر سے نکالیں”
ایک شور سا اس نے کلینک میں سنا ۔وہی اس کی ایک تیکھے مزاج اور خوبصورت نین نقش والی لڑکی سے ملاقات ہوئی، جس کے چہرے کی تازگی کو پتا نہیں کیا روگ لگا ہوا تھا ۔
وہ تلخ مزاج اور اکھڑی اکھڑی تھی۔ بپھرے ہوئے طوفان بنی وہ ماہر نفسیات پر چلا رہی تھی ۔پھر تھک کر باہر سبزے میں بنے بینچ پر بیٹھ گئی ۔تو ضحی نے قریب جا کر اپنی پانی کی بوتل اسے تھمائی ۔
ضحی، شور شرابے سے گھبراتی تھی ، اور اتنا بولنے کا تصور ہی اسے گھبراہٹ کا شکار کردیتا تھا ۔مگر اس احساس کو لیے کہ کوئی بھی اسے نہیں سمجھتا مگر وہ سمجھتی ہے کہ ذہنی دباؤ سہنا کس قدر مشکل ہے ۔
“اسلام علیکم مجھے ضحی کہتے ہیں”

Advertisements
julia rana solicitors

ضحی نے خوش دلی سے اپنا تعارف کروایا ۔
“میرا نام آمنہ ہے۔”
اس تیکھی سی لڑکی نے اپنا تعریف کروایا۔ ضحی اس سے ان باتوں کی وجہ پوچھنے لگی ۔کہیں نہ کہیں ضحی کے دل میں خوف کنڈلی مار کر بیٹھا تھا کہ کہیں ماہر نفسیات کی غلط دوائیوں کی وجہ سے خود یہ نہ مرجائے ۔اس خوف نے اسے آمنہ سے قریب کیا ۔
آمنہ نے پانی پیا، گہرے سانس لے کر عام معمول کے لہجے میں کہا ۔۔
“اصل میں ان ڈاکٹروں کا قصور نہیں ہے، ان کی زیادہ تر عمر نفسیاتی بیماریوں کو پڑھنے اور انکے علاج معالجہ کو نظریاتی طور پہ سمجھنے میں گزر جاتی ہے ۔روزانہ کی بنیاد پر مختلف مقدمات ان کی نظروں سے گزرتے ہیں ۔جس کی وجہ سے یہ معاشرتی رویوں اور حقیقی نفسیات سے کوسوں دور ہوتے ہیں ۔ ان کا اندر دوسروں کے دکھ درد سمیٹ کر بھر چکا ہوتا ہے اس میں امید کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ سب مقدمے ایک جیسے لگنے لگتے ہیں اور پھر سب سی بری بات ان کو دوائیوں کا عادی بنانا ہے۔ جو مسائل انکی ہمت اور حوصلہ افزائی سے ہی حل ہوسکتے ہیں وہ دوائیوں سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجتاً دوائیاں چھوڑنے سے مریض کے ہارمونز کم یا زیادہ ہوجاتے ہیں۔ مریض دوائیوں کا عادی نشئی بن جاتا ہے۔ یہ دوائیاں چاول کے آٹے کے غلاف میں ہوتی ہیں مگر کب تک؟ پہلے سے تباہ حال معدے کو مکمل برباد کردیتی ہیں۔ یہی سب میرے ساتھ ہوا ہے اور میں خود پر قابو نہیں پا سکی اور ان سے آکر کہا کہ آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ میں خود پر ذرا سی محنت کرکے بِنا دوائی کے ٹھیک ہوسکتی ہوں، یہ ٹھیک ہے کہ اس میں مضبوط ارادے کے ساتھ کچھ عرصہ لگتا ہے مگر یہ پھر بھی بہتر حل ہے ۔”
آمنہ نے بات مکمل کرکے دوبارہ پانی پینا شروع کردیا اور ضحی ہونق سی شکل بناۓ بیٹھی تھی ۔کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ بنا دوائیوں کے تھراپی کے ذریعے وہ بلکل ٹھیک ہوجاۓ۔ بار بار ہسپتال کے چکروں میں لگنے والے پیسوں کی بچت سے وہ گھر میں کچھ پیسے دے سکتی تھی ۔مگر کیا وہ ٹھیک ہوگی ۔ کیا یہ لڑکی میری مدد کرے گی۔ یہ بھی تو کوئی فیس مانگے گی۔؟؟ اپنی اوور تھنکنگ کی بدولت وہ خود سے سوال اور جواب کرنے لگی ۔۔۔
آمنہ جیسے اس کی شکل پڑھ رہی تھی ۔ آہستہ سے بولی”سنو!!! مت کھاؤ دوائیں، تم ٹھیک ہوجاؤگی۔ تمہیں بس خود پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ”
ضحی نے اس کی بات غور سے سنی ۔۔۔ اور کہنے لگی
“کیسے؟”
آمنہ اس کی بات سن کر ہنسنے لگی، اور کہا “میری حالت سے بھی سمجھ نہیں لگی پانچ سال سے بھگت رہی ہوں ۔ جس چیز پر میں عمل نا کرسکی دوائیوں کے اثرات سے میری جسمانی کارکردگی متاثر ہوئی، لیکن میں اب ذہنی طور پر مضبوط ہو رہی ہوں خود کی قوت ارادی سے، سب میڈیسن پھینک دی اور آج اس پر غبار نکالنے آ گئی ”
حیرت سے ضحی نے اسے دیکھا ۔۔
” آمنہ !!!! ایک بات میرے ذہن میں گھومتی ہے، سوال اٹھتا ہے سوچ ایک غیر مرئی چیز ہے جو نظر نہیں آتی ۔ کیا اس کا علاج مادی چیزوں سے ممکن ہے ۔؟”
آمنہ نے چونک کر دیکھا. اس کی ذہانت پر حیران ہوئی اور سوچ میں پڑ گئی. اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت موجود ہے اور ایک فیصلہ کیا کہ جس اذیت سے میں عرصہ دراز سے گزر رہی ہوں. اِسے گزرنے نہیں دو گی ہر ممکن طور پہ اس کی رہنمائی کروں گی.
” ضحی میری سمجھ میں اب یہ بات آئی ہے گو کہ بہت دیر ہو چکی، سوچ کا علاج سوچ ہی سے ہے اچھی تھراپی یا کونسلنگ سے سوچ کو بدلا جا سکتا ہے منفی سوچ کو اچھی مثبت سوچ سے بدل لو، تم سوچ رہی ہو گئی کیسے ممکن ہے؟ ہمیں اپنا لائف سٹائل بدلنا پڑے گا”
ضحی نے ہچکچا تے ہوۓ پوچھا
“کیا تم میری مدد کرو گی؟ ”
آمنہ نے خوشی سے دمکتے چہرے کے ساتھ کہا کہ “ہاں بلکل میں تمہاری مدد کروں گی۔ میں یہ چاہتی ہوں کہ مجھے جتنا عرصہ بنا رہنمائی کے در در بھٹکنا پڑا ویسے کوئی اور نہ بھٹکے ۔ اس ظلمت کے اندھیرے میں اپنے حصے کا دیا جلا کر میں کسی کا نور تک کا سفر آسان کردوں ۔”
آج آمنہ ضحی سے ملنے آرہی تھی ۔ گو کہ اس دن بات چیت اچھی رہی مگر وہ بہر حال انجان طبیعت کی تھی اس لیے ضحی کچھ بے چین تھی ۔دفعتاً باہر دروازے پر دستک ہوئی ۔ یہ ضرور آمنہ ہوگی
جاری ہے ۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply