بچے اور قربانی کے مناظر۔۔۔۔۔ عزیر سالار

جنگل کے انسان نے شعور کی طرف پہلا قدم بڑھایا تو اپنی خوراک کو خون آلود کچے ماس سے تبدیل کر کے بھنے ہوئے روسٹ تک جا پہنچا، وقت کے ساتھ اس میں نمک شامل کیا، پھر مسالے دریافت کیے، اور اب بات بلا مبالغہ ہزاروں ریسیپیز تک آ پہنچی ہے. یہ ساری شعور کی منزلیں تھیں جو انسان نے تن تنہا طے کیں. لیکن اس پروسیس کی چھلنی سے گزرنے میں حضرت انسان کو ہزاروں سال لگے، یہ خون آلود کچے ماس کا شیدائی جنگلی انسان بیاباں سے نکل کر ماڈرن شہروں میں بستیاں بسانے تک ہر گزرتے وقت کے ساتھ پہلے سے زیادہ مہذب ہو رہا ہے اور اب اسے تہذیب کی طرف ایک اور قدم بڑھانا ہے۔

دنیا کے مہذب معاشروں میں (خاص طور پر بچوں کو) خون دکھانے پر پابندی عائد ہے. آج آپ میڈیا پر خون نہیں دکھا سکتے- گزشتہ کچھ سالوں سے پیمرا کی طرف سے یہ پابندی پاکستانی میڈیا پر بھی عائد ہے. ایسا کوئی سین جس میں خون نظر آنے کا اندیشہ ہو، ہمارا میڈیا اسے بلیک اینڈ وائٹ میں دکھانے کا پابند ہے- یہاں تک کہ اب سوشل میڈیا پر بھی ایسی کسی خون خرابے والی تصویر پر پیشگی وارننگ دی جاتی ہے تاکہ “بچے اس کے شر سے محفوظ” رہیں۔

یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد عید الاضحٰی کے موقع پر قربانی کا جانور ذبح ہوتے وقت بچوں کو ان دور رکھنے کی ترغیب دینا تھا۔ ملک میں جاری افراتفری اور غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر ہمارے لیے اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اس قسم کے ہولناک مناظر سے دور رکھیں. ماہرین نفسیات کے مطابق غیر ارادی طور پر بچوں کے ذہنوں میں ان چیزوں کے بہت ہی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں. ذہنی ناپختگی کی وجہ سے انسانی فطرت میں موجود خون کی حرمت جاتی رہتی ہے جو بعد میں معاشرے میں فساد کا باعث بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آئے روز اس قسم کی ہولناک خبریں سنتے رہتے ہیں جیسے چھری درانتی ٹوکے یا کلھاڑی کے وار کر کے قریبی رشتہ دار تک کا قتل یا اعضا کاٹنا وغیرہ۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ مہذب معاشروں کی طرح قربانی صرف حکومت کی مخصوص کردہ قربان گاہوں میں ہو اور شہروں کی گلیوں بازاروں کو مذبح خانہ ہرگز نہ بنایا جائے. جب تک حکومت پاکستان ایسا کوئی انتظام نہیں کرتی تب تک سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے وقت کم سے کم بچوں کو حتی الامکان خون سے دور رکھیں اور خون کی جگہوں کو فوراً دھو ڈالیں۔ یہ بیانیہ اگرچہ ہمارے ہاں نیا ہے، تو ممکن ہے کچھ لوگوں کے لیے ہضم کرنا مشکل ہو. دیکھیں آپ لوگ وہی ہیں ناں جن کا ماننا ہے کہ بچے جرائم پر مبنی ڈرامے دیکھ کر جرم کی طرف راغب ہوتے ہیں اور یہ بھی کہ کھلونا گن دہشت گردی میں اضافے کا باعث بنتی ہے. مزید یہ کہ فحاشی کے متعلق بھی آپ کی رائے لگ بھگ ایسی ہی ہے. تو میرے خیال میں آپ کے لیے بھی یہ مان لینے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے کہ خون اور آنتیں چاہے جانور کی ہی کیوں نہ ہوں، ایک ایکسٹریم لیول کی چیز ہیں جنھیں دیکھ کر کم سے کم کسی بچے کی شخصیت میں کوئی مثبت تبدیلی تو ہرگز پیدا نہیں ہو سکتی۔ چیزوں کو جب تک خود تبدیل نہ کیا جائے تبدیلی کی امید رکھنے سے بڑی حماقت کوئی نہیں. ہمیں اب کچھ چیزیں ان کی بنیاد سے تبدیل کرنی ہیں اور اس کے لیے معاشرے کے دباؤ کو خاطر میں لانے کی قطعی ضرورت نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یقین جانیے بچوں کی معصومیت ہی ان کی کل متاع ہے اور یہ معصومیت قائم رکھے بغیر پرامن معاشرے کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا-

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply