دنیا کیلئے دین ضروری ھے۔۔۔۔۔ مولوی انوار حیدر

 کسی بھی شے کی حقیقت جانے بغیر اُس کی حیثیت کا تعین کرنا بےکار سی بات ھے چنانچہ جب بحث شروع ہوتی ھے تو فریقین کسی نتیجہ پہ پہنچنے کے بجائے غیرمتعلقہ باتوں میں الجھ جاتے ہیں ہمارے ہاں آج کل ڈائریکٹ سوال اٹھایا جاتا ھے کہ دین ریاست کیلئے لازم ھے یا نہیں ھے، اور عموماً یہ سوال کرتے ہوئے دین اور ریاست کی حقیقت و ماہیت کو جاننے کی قطعی کوشش نہیں کی جاتی حالانکہ جن دو چیزوں پہ بحث کی بنیاد ہے اگر اِن کی حقیقت کو جان لیاجائے تو سوال کا جواب آسان ہوجائے گا. ریاست کیلئے دین ضروری ہے یا نہیں یہ بات سمجھنے کیلئے پہلے دین کی حقیقت و ماہیت کو جاننا ضروری ہے یعنی کہ دین ہے کیا چیز آئیے ہم اِس پہ بات کرتے ہیں۔

زندگی ترتیب کے ساتھ گذارنے کیلئے ایک معین لائحہ عمل ہونا لازم ہے۔ اِسی کو دستور کہتے ہیں۔ فردِ واحد ہو، ایک خاندان ہو یا ایک معاشرہ، فطرتاً ہرکسی کیلئے ضروری ہے کہ وہ کچھ معیّن اصولوں پہ زندگی گذارے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان ہمیشہ اپنےلئے کچھ قاعدے قوانین مرتب کرتا آیا ہے اور انسان ہمیشہ اِس بات کا بھی خواہشمند ہوتا ہے کہ میرے اصول درست ہوں، میرا نظام نقائص سے پاک ہو تاکہ میں ایک مرتب زندگی گذارسکوں اور مجھے کوئی پریشانی پیش نہ آئے۔ لیکن انسان علم و حکمت میں خودکفیل نہیں ہے بلکہ اپنے خالق کا محتاج ہے اور اللّہ نے انسان کو بہت ہی محدود علم دیا ہے جیسا کہ ارشادِ باری ہے؛

ترجمہ: اور نہیں دیاگیا تم کو عِلم مگر تھوڑاسا۔

چنانچہ ناقص علمی بنیاد پہ انسانوں کے بنائے ہوئے منشور زیادہ دیر تک انسان کو راہنمائی فراہم نہیں کرسکتے۔ خودساختہ انسانی دستور کچھ عرصہ بعد معاشرتی مطالبات پورے نہ کرپانے کی وجہ سے فیل ہوجاتا ہے۔ لوگ اصلاحات پہ مجبور ہوجاتے ہیں اور بسااوقات اِس اصلاحاتی مرحلے میں انسان باہم الجھ پڑتے ہیں۔ ایک طبقہ کہتا ہے کہ ہماری رائے بہتر ہے، دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ ہماری تجاویز بہتر ہیں۔ اِس کِھینچاتانی کے باعث فریقین بارہا آپس میں لڑپڑتے ہیں فِکری برتری کے حصول کیلئے بڑی بڑی جنگیں بپا ہوچکی ہیں۔ علاوہ ازیں ایک بنیادی کمزوری انسان کے بنائےگئے قواعد و قوانین میں یہ بھی ہے کہ یہ ایک محدود علاقہ کیلئے موثِّر ثابت ہوئے ہیں۔ یونانی تہذیب چائنہ میں شناخت حاصل نہ کرسکی، رومن کلچر یونان میں جگہ نہ بناسکا۔ ایک خطہ میں ایک ہی وقت میں موجود شام و فارس کی تہذیبیں ایک دوسرے کو برداشت نہ کرسکیں۔ مصری تہذیب کو دنیا آج بھی سمجھ نہیں سکی۔ چنانچہ محدود قوتِ اثر ہونے کے باعث سابقہ اور موجودہ علاقائی تہذیبیں تمام عالم میں نافذ کرنے کیلئے خود کو پیش نہیں کرسکتیں۔

ناقص انسانی قوانین کے باعث دنیا میں جس طرف بھی نظر ڈالتے ہیں، اختلاف و انتشار نظر آتا ہے۔ ایک ہی کام کو ایک شخص اچھا سمجھتا ہے اور دوسرا برا سمجھتا ہے۔ جو ایک کے نزدیک باعثِ ثواب ہے، وہ دوسرے کے نزدیک گناہ ہے۔ اِس انتشار اور فساد کو ختم کرنے کیلئے پھر سے انسان کی طرف رجوع کرنا حماقت ہی حماقت ہے۔ چنانچہ انسان کو ایک ایسا دستور چاہئیے جو نقص سے پاک ہو، کامل ہو، کامیابی کی راہ دکھائے۔ ایسا دستور جو ہر ایک کیلئے مفید ہو، ہرقوم ہرعلاقہ ہردور کیلئے کارآمد ہو اور یہ دستور صرف خالقِ کائنات ہی دے سکتا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کے مزاج اور اُسکی ضروریات سے آگاہ ہے۔ وہ قادر ہے اُس کا حکم سب پہ چلتا ہے۔

اِن تمام ناکام اور ردشدہ تہذیبوں، انسان کے بنائےگئے تمام ناقص منشور دستور اور قوانین کے مقابل سب سے بہترین کامل نظام العمل وہ ہے جوحضرات انبیاءِ کرامؑ لے کے آئے، جو خالق نے اپنے بندوں کیلئے بھیجا اوراسی کو دین کہتے ہیں۔

دنیا کی کوئی قوم کوئی ملک کوئی فرد دستور کے بغیر زندگی نہیں گذارسکتا۔ انصاف سے دیکھا جائے تو دین دستور ہے، دین قانون ہے، دین ضابطہ حیات ہے۔ یہ جو انگریزی میں بولتے ہیں رولز یہ کیا ہیں اورشیڈول وہ کیا ھ؟، رولز سسٹم شیڈول قاعدے قوانین یہ کیا ہے؟ سب، خدائی احکامات کے منکر، انسانی ساختہ قوانین کو خوشی برضا قبول کرلیتے ہیں، یہ دہرا معیار کیوں؟ یہ منافقت کیوں؟ یہ دھوکہ کس لیئے؟ جو لوگ ہم سے دین چھین لینا چاہتے ہیں ہمیں متبادل کے طور پہ کیا دینگے؟ کوئی انسانی ساختہ دستور یا بالکل آزادی اور کھلی چھوٹ؟ تم مجھ سے دین لے کے کسی انسان کا بنایا ہوا دستور دوگے کیونکہ دستور کے بغیر معاشرہ چل ہی نہیں سکتا۔ پس اگر کسی دستور کو قبول کرنا ہی ہے تو انسانوں کے بنائے دستور کے بجائے اللّٰہ کے نازل کردہ احکامات کو کیوں نہ قبول کیا جائے۔ وہی مذہب ہے، وہی دین، وہی شریعت ہے۔

ترجمہ: اےلوگو تحقیق تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نصیحت آئی جو شِفاء ہے سینوں کیلئے اور ہدایت و رحمت ہے ایمان والوں کیلئے۔

 یہ پیغام کبھی تبدیل نہ ہوا ۔از آدمؑ تا محمدؐ تمام نبیؑ ایک ہی بنیاد پہ مبنی پیغام لےکے آئے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا دین ایک ہی ہے۔ سب ایک ہی اصل پر متفق ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

* ترجمہ: حق تعالٰی نے تمہارےلئے وہ دین تجویز فرمایاہے کہ جس کا نوحؑ کو حکم دیا اور جس کی وحی آپؐ کی طرف بھیجی اور جس کا ہم نے ابراہیمؑ موسٰیؑ اور عیسٰیؑ کو حکم دیا کہ دین کو قائم رکھو اور اِس میں متفرق نہ ہوں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply