• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گمنام اداکارہ اور بدقسمت ماں، الوداع گیتا کپور۔ ۔۔ صفی سرحدی

گمنام اداکارہ اور بدقسمت ماں، الوداع گیتا کپور۔ ۔۔ صفی سرحدی

بالی ووڈ کی کلاسک فلم پاکیزہ میں کام کرنے والی ادکارہ گیتا کپور 67 سال کی عمر میں انتقال کرگئی۔ ماضی کی خوبصورت اداکارہ گیتا کپور کو ان کے کوریو گرافر بیٹے راجہ کپور گزشتہ سال 21 اپریل کو “لو بلڈ پریشر” کی شکایت پر ممبئی کے ایس آر وی اسپتال لیکر گئے تھے جہاں ڈاکٹرز نے انہیں داخل کیا لیکن جب کہ ان کے کوریو گرافر بیٹے راجہ کپور کو داخلہ فیس جمع کرانے کا کہا گیا تو وہ اے ٹی ایم سے پیسے نکلوانے کا کہہ کر رفو چکر ہوگئے۔

راجہ کپور کا انتظار کرنے کے باوجود ڈاکٹرز نے گیتا کپور کا علاج شروع کردیا کیونکہ “لو بلڈ پریشر” کیوجہ سے ان کی حالت کافی خراب ہوچکی تھی۔ اسپتال کے ایک ڈاکٹر کے مطابق راجہ کپور جب اپنی والدہ کو اسپتال لائے تو انہوں نے جھوٹ کہا کہ وہ فوجی افسر ہیں اور انہیں اپنی والدہ کا فوری علاج کروانا ہے، جب ان سے رقم جمع کرانے کو کہا گیا تو وہ غائب ہوگئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے تاہم کچھ دیر ان کا انتظار کرنے کے بعد ہمیں گیتا کپور کا علاج شروع کرنا پڑا کیوں کہ ان کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔

ڈاکٹر نے مزید بتایا کہ ’ہم نے ان کے گھر ایمبولینس تک بھیجی تاکہ گیتا کپور کے خاندان کا پتا لگایا جاسکے، تاہم پڑوسیوں نے بتایا کہ وہ اسی دن گھر چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ اسپتال انتظامیہ نے گیتا کپور کے بیٹے راجہ کپور کے علاوہ ان کی بیٹی اردھیا کپور سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ اور جب اداکارہ گیتا کپور کو اپنے بیٹے کی اس ناپاک اور گھٹیا حرکت کے بارے میں بتایا گیا تو وہ اپنی حالت پر زار و قطار رونے لگی لیکن جب ایک بدبخت بیٹے کی طرف سے اپنی ماں اور ماضی کی خوبصورت اداکارہ گیتا کپور کو بے یارو مددگار اسپتال میں چھوڑنے کی خبر میڈیا تک پہنچی تو اسی وقت میڈیا نے اسپتال کا رخ کیا اور جب میڈیا کے نمائندے ان کے وارڈ تک پہنچے تو مجبور لاچار بیمار اور لاغر گیتا کپور پہلے تو گھبرا گئی اور پھر اپنی بے بسی پر میڈیا کے سامنے رو پڑی کہ میرے بیٹے نے ساری دنیا کے سامنے میرا تماشہ بنا دیا۔ جسکی وجہ سے اسپتال میں موجود لوگوں کی انکھیں بھی نم ہوگئیں اور تب گیتا کپور نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا۔

میرا بیٹا مجھے مارتا تھا، کیوں کہ میں اسے غلط کام کرنے سے روکتی تھی، وہ مجھے چار دن میں ایک بار کھانا دیتا اور کبھی کبھی مجھے کمرے میں بند بھی کردیتا تھا، میں اولڈ ایج ہوم جانے کے لیے تیار نہیں تھی، اس لیے اس نے یہ سب کیا، اُس نے مجھے بھوکا رکھا تاکہ میں بیمار پڑ جاؤں، پھر وہ مجھے اسپتال میں داخل کروائے اور وہیں چھوڑ کر چلا جائے۔ اداکارہ گیتا کپور ڈیڑھ ماہ تک اسپتال میں زیر علاج رہی لیکن انکا بیٹا اور بیٹی ماں کو دیکھنے نہیں آئے تاہم گیتا کپور کے واقعے کی اطلاع ملتے ہی گیتا کپور فلم پروڈیوسر اشوک پنڈت اور رمیش تورانی نے اسپتال کا ڈیڑھ لاکھ کا بل ادا کیا۔ اور اسپتال سے صحت یاب ہونے کے بعد اشوک پنڈت جو کہ سوشل ایکٹیویسٹ بھی ہیں وہ گیتا کپور کو جیون آشا آشرم لیکر گئے جہاں وہ انکی خیر خبر لینے جایا کرتے تھے۔

اور اب ان کی موت کی خبر بھی اشوک پنڈت نے ٹویٹ کے ذریعے دی، کہ انہوں نے اداکارہ کی بھرپور نگہداشت کی کوشش کی تاہم اپنی اولاد کے انتظار نے انہیں بے حد لاغر کر دیا تھا۔ اشوک پنڈت کے مطابق گیتا کپور کا نفسیاتی علاج بھی جاری تھا کیونکہ وہ ذہنی طور پر بھی بہت ڈسٹرب ہوچکی تھی لیکن اس کے باوجود پھر بھی وہ پر امید تھی کہ ایک دن انکا بیٹا انہیں لینے کیلئے واپس آئیگا اور ان سے معافی مانگیگا اور تب میں انہیں گلے لگا کر معاف کردونگی۔

لیکن بیٹا اور بیٹی تو دُور کی بات رشتے داروں تک سے کوئی فرد انہیں ملنے نہیں آیا۔ البتہ کبھی کھبار ان کے چند ایک مداح ان سے اکر مل لیا کرتے تھے جنکے ساتھ کچھ دیر کیلئے انکا من بہل جاتا تھا۔ ہم نے اپنی طرف سے بہت کوشش کی اور انکا بہت اچھے سے خیال رکھا لیکن پھر بھی ہم نے انہیں کھو دیا۔ میں انکی موت سے دو دن قبل جب ان سے ملنے گیا تو ہم نے ساتھ میں ناشتہ کیا اور تب وہ ظاہری طور پر اتنی بیمار بھی نہیں لگ رہی تھی لیکن اندر سے من ہی من میں وہ ایک ناختم ہونے والی اداسی کی شکار تھی۔ اور جب میں ان سے رخصتی لیکر جانے لگا تو انکے اخری الفاظ تھے میرا راجہ آئیگا۔ اور یہی سوچ کر میں نے انکی میت کوپر اسپتال میں دو دن کیلئے رکھ دی کہ انکی زندگی میں تو انکا بیٹا نہیں آسکا، شاید اب ماں کے مرنے کے بعد آجائیگا اور وہ اپنی ماں کا آخری دیدار کرلیگا لیکن میرا غصہ ہر لمحے بڑھ رہا ہے کہ آخر ایک بیٹا اتنا بے حس کیسے ہوسکتا ہے اور اگر آج رات تک وہ نہیں آیا تو مجبوراً مجھے صبح گیتا کپور کو الوداع کہنا ہوگا۔

بدقسمتی سے انکا بیٹا تو نہیں آسکا لیکن تیس گھنٹے گزر جانے کے بعد رات دیر سے گیتا کپور کی بیٹی ارادھیا کپور جو کہ ایک نجی ائیر لائن میں ائیر ہوسٹس ہے اسپتال پہنچ گئی اور وارث ہونے کیوجہ سے انہوں نے ماں کی میت وصول کی لیکن اشوک پنڈت، میڈیا، اسپتال انتظامیہ اور ڈاکٹروں، کے سوالوں پر انہوں نے معصوم بنتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ مجھے اپنی ماں کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی کہ میری ماں اسپتال میں بھی رہی ہے اور پھر اشرم میں بھی رہی ہے۔

یعنی یہ بے حس بیٹی فضائی مسافروں کی میزبانی میں اتنی کھوئی رہی کہ انہیں اپنی بیمار بوڑھی ماں کا ذرا سا بھی خیال نہیں آیا جبکہ بیٹی تو بیٹے کی نسبت ماں کے زیادہ قریب رہتی ہے۔

افسوس اس فضائی میزبان کو اجتک کسی بزرگ مسافر عورت کی شکل میں اپنی ماں کا عکس نظر نہیں آیا ورنہ اسے اُسکا ضمیر ضرور ملامت کرتا اور وہ ضرور یہ طے کرتی کہ آج لینڈنگ کے بعد میں اپنی ماں کو لینے جاؤنگی۔

اور جب ارادھیا کپور ماں کی میت لیکر اسپتال سے جانے لگی تو اشوک پنڈت نے ان سے پوچھا، کل کس وقت گیتا کپور کے آخری رسومات ادا کرنے ہونگے تاکہ میڈیا اور بالی ووڈ سے آنے والے اداکاروں کو وقت اور جگہ کا علم ہو۔ تو انہوں نے کچھ بتانے سے صاف انکار کردیا اور ماں کی میت لیکر چلتی بنی۔ اور بعد میں جب میڈیا نے اس حوالے سے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ ان سے آخری رسومات کے بارے میں معلومات لی جائے تو انہوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے وٹس ایپ پر میڈیا والوں کے کسی میسیج کا جواب دیا اور اج صبح انہوں نے اپنی ماں سے جان چھڑانے کیلئے نامعلوم مقام پر آخری رسومات اد کردیئے تاکہ وہ معمول کے مطابق فضاؤں میں روٹین کی زندگی گزارے اور فضائی مسافروں کے پکارنے پر انکے پاس دوڑتی چلی آئے اور دل و جان سے انکی خدمت کرے۔

گیتا کپور نے سو سے زائد فلموں میں بطور جونیئر آرٹسٹ کام کیا ہے لیکن کمال امروہوی کی ڈریم پروجیکٹ فلم پاکیزہ 1972 سے انہیں پہچانا گیا، جس میں کمال امروہی کی بیوی مینا کماری کے ساتھ فلم میں راج کمار ہیرو کے طور پر آئے تھے اس فلم کی کہانی ایک مسلمان طوائف کے بارے میں تھی جس میں گیتا کپور نے راج کمار کی کزن “نازک” کا مختصر کردار ادا کیا تھا۔ اور 1983 میں جب کمال امروہی ایک اور تاریخی فلم “رضیہ سلطانہ” بنانے لگے تو تب بھی انہوں نے گیتا کپور کو اپنی اس فلم میں لیا، جس میں ہیما مالینی رضیہ سلطانہ بنی تھی اور دھرمیندرا یاقوت جمال الدین بنے تھے۔ بعد میں گیتا کپور نے 1987 میں آئی فلم “پیار کرکے دیکھو” میں گوویندا اور مندا کنی کے ساتھ کام کیا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی فلموں میں گیتا کپور معمولی تو کبھی غیر معمولی کرداروں میں نظر آئی۔

لیکن گیتا کپور کی بدقسمتی ہی کہیے کہ انہیں انکی فلموں کے بجائے ایک بدقسمت ماں کے طور پر یاد رکھا جائیگا جسے اپنا بیٹا اسپتال میں چھوڑ کر بھاگ گیا تھا اور مرتے دم تک وہ پھر لوٹ کر نہیں آیا۔ جبکہ یہ بدقسمت ماں اپنی آخری سانس تک اپنے بیٹے کو معاف کرنے کیلئے اسکی راہ تھکتی رہی۔

Advertisements
julia rana solicitors

صفی سرحدی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply