تین شاپر۔۔محمد وقاص رشید

یہ عید کا دن تھا اور میرے  دونوں ہاتھوں میں تین شاپر تھے ۔ ان میں ایک وقت کی زندگی کی ضمانت تھی۔ زندگی کی ضمانتیں انسانوں کے ہاتھ میں آجائیں تو شاپروں میں ہی ملتی ہیں۔ ان میں گوشت تھا۔ خدا کی طرف سے بیک وقت ایک باپ اور ایک بیٹے کے ایثار کو پیش کیا گیا خراجِ تحسین۔ سال میں ایک بارہمیں تقسیم کی یاد دہانی” قربانی”۔۔

اپنے بچوں کو ساتھ لیے میں چاہتا تھا کہ کسی ایسے کے پاس پہنچوں جو جناب اسماعیل کی طرح موت کے سامنے حیات کو دان کیے بیٹھا ہو۔ جس کو اس شاپر میں موجود بوٹیاں اسی طرح خدا کی طرف سے زندگی کا پیام لگیں۔

چلتے چلتے ہم کچھ دور نکل گئے کہ گاڑی ایک معروف چوک میں پہنچی۔ تپتی ہوئی سڑک کا گرم سیاہ تارکول اور اس پر بچھی بجری بخت کا ایک اُفق معلوم ہوا جس میں بھوک نے آنے والے کل کے تین بے نور ستارے جڑ دیے۔

وہ تین بچے تھے۔ دو لڑکے ایک لڑکی ، عمریں لگ بھگ آٹھ دس سال۔ خون ان میں تھا نہیں اس لیے خونی رشتے سے بہن بھائی نہ بھی ہوں،تو انکے خدوخال ایک دوسرے سے مشابہہ تھے۔ زرد چہرے، دھنسی ہوئی آنکھیں اور استخوانی جسم۔ کیونکہ ان جسموں پر جو گوشت ہونا چاہیے استحصالی نظام کے بدن پر ہے۔ وہ صرف عید کے دن ہی نہیں سارا سال بھی شاپروں ہی میں ملتا ہے۔

وہ تینوں آدم زاد میری جانب ایسے لپکے کہ جیسے انہیں اپنی کھوئی ہوئی جنت کی راہ سوجھ گئی ہو۔ جیسے انہیں سوالیہ نشان بنے اپنے جسموں کے سارے سوالوں کے جواب مل گئے ہوں۔ جیسے شاپروں میں بکرے کے گوشت کی چند بوٹیاں نہیں بلکہ انکے جسموں کا وہ سارا کھویا ہوا گوشت ہو جسکی کسوٹی پر انہیں زندگی بھر تُلنا ہے۔

گاڑی انکے پاس رکی۔ شیشہ نیچے ہوا۔ اور گوشت کے تین شاپر اوپر اٹھے۔ میری آواز سن کے وہ اپنے بدن کے  گوشت کا منہ چڑاتی ہڈیوں کو مجتمع کر کے جو میری جانب لپکے۔۔ انکے پژمردہ جسموں میں جو زندگی بجلی بن کر دوڑی۔ بے نور دھنسی ہوئی آنکھوں میں جو چند بوٹیوں کا نور اُبھرا۔ زرد چہروں پر جو لمحہ بھر کے لیے اسی گوشت کی لالی اُبھری۔ او ہو ۔۔

وہ تینوں آدم زاد میری جانب ایسے لپکے کہ جیسے انہیں اپنی کھوئی ہوئی جنت کی راہ سوجھ گئی ہو۔ جیسے انہیں سوالیہ نشان بنے اپنے جسموں کے سارے سوالوں کے جواب مل گئے ہوں۔ جیسے شاپروں میں بکرے کے گوشت کی چند بوٹیاں نہیں بلکہ انکے جسموں کا وہ سارا کھویا ہوا گوشت ہو جسکی کسوٹی پر انہیں زندگی بھر تُلنا ہے۔
مجھے لگا کہ اس سر زمین پر یہ شاپر انسانیت کی توہین ہیں جو کہ یہاں موت و حیات کے درمیان براجمان ہیں۔ یہ غریبوں کی دسترس میں تب آتے ہیں جب امیر ان سے زندگی کشید کر چکتے ہیں اور ہوا انہیں اڑا کر ان بستیوں لیے پھرتی ہے جہاں ان خالی شاپروں کی طرح انسانوں کو بھی بخت کی آندھی اڑاتی پھرتی ہے۔
بچپن میں بڑھنے کی عمر میں خوراک کی کمی کا شکار ہونے والے ذہنی اور جسمانی طور پر Stunted Growth کا شکار ہو کر زندگی کا بوجھ ان نحیف کاندھوں پر اٹھا کر احتیاج کی راہوں پر لڑکھڑاتے لڑکھڑاتے رہتے ہیں۔
ایسے مناظر میں اپنے بچوں کو ضرور دکھاتا ہوں ۔ بیرونی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد دل کی آنکھوں کو دکھانے اور کانوں کو سنانے کے لیے ایسے کسی بھی منظر کی جزئیات کو انکے سامنے رکھتا ہوں۔ انہیں بتاتا ہوں ان بچوں کا بھی جی چاہتا ہے کہ یہ بھی دینے والا ہاتھ ہوتے لیکن اگر انکے پاس یہ موقع نہیں تو ہمیں خدا کا شکر کرنا ہے اور انکی فکر۔ یہی قربانی ہے۔۔۔

اس پر ایک نظم 
یہ ایک وقت کی زندگی کی ضمانتوں کے امین شاپر
کہ زندگی کی ضمانتیں جب،خدا زمیں کےیہ تھام لیں تو
ہمیشہ مرگ و حیات کے بیچ ہوتے ہیں، ہم نشین شاپر
تھا عید کا دن اور عید کے دن تھے میرے ہاتھوں میں تین شاپر
ہر ایک شاپر میں چند بکرے کی بوٹیاں تھیں
ہماری انسانیت کی رائج کسوٹیاں تھیں
میں چاہتا تھا کہ کوئی بھوکاکوئی تڑپتا مجھے ملے
یہ گوشت پا کر کہ اس کو کھا کروہ زرد چہرہ ذرا کھلے
تھا ایک رستہ وہ اک سڑک تھی
کہ جسکی تپتی ہوئی سطح پر
ہمارے کل کے افق کے بے نور تین تارے
وہ عید کے دن بھی بھوک اور اشتہا کے مارے
وہ تین بچے وہ تین بھوکے
وہ دھنسی آنکھیں وہ چہرے سوکھے
وہ دیکھ کر گاڑی کی کھڑکی سے تین شاپر
وہ گوشت کا منہ چڑاتی ہڈیوں کو ساتھ لے کر
تھے اپنے بختوں کے رزق کی اور ایسے بھاگے
کہ انکے مردہ سے پیکروں میں یوں زندگی کے تھے خواب جاگے
کہ مجھکو ایسے لگا کہ جیسے
ہمارے رازق کی اس زمیں پر نہیں ہیں انساں
ہیں گوشت کے یہ مکین شاپر
ہیں از فلک تھا زمین شاپر
تھا عید کا دن اور عید کے دن تھے میرے ہاتھوں میں تین شاپر

Advertisements
julia rana solicitors london

پسِ تحریر!کیا ہی اچھا ہو کہ ہر گلی محلے کی سطح پر ہم گوشت کی تقسیم کا اپنے طور پر ایک ایسا منظم طریقہ اپنائیں کہ ہمارے سامنے ہاتھ پھیلا کر اپنا حصہ مانگنے کی بجائے بھوکے پیٹوں کی دہلیز تک ہم خود پہنچیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply