“آئیے, دشمن کو بھی دوست بنائیں”۔۔۔ حنا تحسین طالب

ایک ایسی حکمت عملی، جو انشااللہ ضرور کامیاب ہو گی، کیونکه یه ہم جیسے کسی انسان کی بتائی ہوئی نہیں هے بلکه اس رب کا بتایا نسخہ هے جو آپ کو اور مجھے بنانے والا ہے.

 جو ہماری نفسیات کا خالق ہے اور ہمارے جذبات و احساسات کو ہم سے زیاده جانتا ہے- اسی نے ہمارے دل بنائے، وہی انهیں مسخر کرنا جانتا ہے- اس نسخے پر عمل کر کے, آپ نہ صرف اپنے پیاروں کو مزید اپنے قریب کر سکتے ہیں بلکہ اپنے دشمن کو اپنا گرم جوش دوست بنا سکتے ہیں. اللہ تعالی سورة “حم السجده” آیت: 34 میں فرماتے هیں

” نیکی اور بدی برابر نهیں هوتی, برائی کو بھلائی  سے دور کرو، پهر تیرا دشمن ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست” 

یعنی نیکی اور بدی میں زمین آسمان کا فرق ہے, بیوقوف بهی اس فرق کو سمجھ سکتا ہے, تو اگر کوئی آپ کے ساتھ برائی کرے تو آپ اس کے جواب میں برائی مت کریں, یہی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس کے ساتھ حسن سلوک کریں

حضرت عمر رض کا قول ہے کہ” تیرے بارے میں جو شخص اللہ  کی نا فرمانی کرے, تو اس کے بارے میں اللہ کی فرماں برداری کرے اس سے بڑی کوئی چیز نہیں”- ایک شخص آپ کو گالیاں دے, لیکن آپ جواب میں اس کے لئے دعا کریں,ایک شخص آپ کا حق ادا نہ کرے, لیکن آپ نہ صرف اس کا حق ادا کریں بلکه احسان کے درجے میں ادا کریں جو شخص آپ کو غصه دلائے مگر آپ صبر کر کے اسے معاف کردیں۔ آپ کسی کے گھر جائیں اور وه آپ کا اکرام نہ کرے, آپ کو اچهی طرح ویلکم نہ کرے مگر جب وه آپ کے گھر آئے تو آپ اس کا اکرام کریں۔ ایک شخص آپ کا مذاق اڑائے, مگر ایسے ہی کسی موقعے پر جب اس کا مذاق اڑایا جا رہا ہو توآپ اس کا دفاع کریں.اس نے کسی مصیبت میں آپ کو اکیلا چھوڑا مگر آپ اس کی مدد کریں. اس حسن اخلاق سے آپ کا دشمن بهی آپ کا دوست بن جائے گا- یهی اخلاق تھا جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمنوں کو ان کا جانثار ساتهی بنا دیا-

اس آیت میں ” ولی حمیم” کا لفظ استعمال ھوا, یعنی ایسا گرم جوش دوست جو اپنے دوست کے لئے جذباتی ہو, اس کا حمایتی اور مددگار ہو, جانثار ہو۔ یہی دراصل اچھا اخلاق ھے, ورنہ اچھائی کے جواب میں اچھائی کرنا تو کوئی بڑی خوبی نہیں, اور یهی ہر مومن کا اخلاق ھونا چاہئیے کیونکه ” مومن کا اخلاق اصولی ہوتا ہے, نا کہ جوابی”۔ یہی اصول عام مومن کے لئے بھی ھے اور ایک داعئ دین کے لئے تو نہایت ضروری ھے-

جب موسی ع اور ہارون ع کو فرعون کے دربار میں بهیجا گیا تو اللہ تعالی نے تاکید فرمائی کہ ” اس سے (یعنی فرعون سے) نرم بات کہنا” . اب فرعون جیسا جابر, متکبر, اس کے لئے بهی اللہ نے یہ طریقہ سکھایا, تو ہمارے لئے جائز نہیں که کسی کی تحقیر کریں- سیرت نبوی ص ایسے واقعات سے بھری ھوئی ھے-

مگر افسوس! آج جس شخص یا گروه سے اختلاف ہوتا ہے, اس کے لئے انتہائی نازیبا الفاظ استمعال کئے جاتے ہیں.طنز کیا جاتا ہے اور دوسرے کے نظریات کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ کیا ھمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح تبلیغ کی؟ کیا راه راست پر لانے کا یہی طریقه سکھایا ؟

اگر آپ حق پر ہیں تو آپ کے اخلاق کو اس بات کا گواه ہونا چاہیے, آپ کو شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے- آپ جانتے ہیں کہ عوام کی اکثریت خاموشی سے دونوں اطراف کا جائزه لے رہی ہوتی ہے ہمارا برا طرز عمل کسی کو دین سے دور بھی کرسکتا ھے اور بہت سوں کو تو کر بهی چکا- ایسے میں کم از کم وه لوگ جو حق پر ہیں, ان سے التماس ہے کہ وه اپنی سچائی دلائل کے ذریعے واضح کریں , دوسرے کے نظریات اور افکار کی علمی اور عقلی کمزوریوں کو دلائل سے ثابت کیجئے۔ یقین کیجئے, ہمارا حسن اخلاق ہمارے دشمنوں کو بهی ہمارا دوست بنا دے گا جیسے عمر فاروق رض کو بنایا- یه کام ہے تو مشکل مگر بڑے نصیب والوں کو یه مرتبہ مل جایا کرتا ہے, اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان شیطان کے وساوس سے اللہ کی پناه طلب کرے, اور ہمیشه اللہ کی مدد طلب کرتا رہے-

Advertisements
julia rana solicitors

جو اپنے نفس کو مسخر کر لے, وہی دوسروں کے دلوں کو مسخر کر سکتا ہے-

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”“آئیے, دشمن کو بھی دوست بنائیں”۔۔۔ حنا تحسین طالب

Leave a Reply