پاکستانی اردو ۔ داؤد ظفر ندیم

پاکستان میں اردو زبان عوامی رابطے کی سب سے بڑی زبان ہے اگرچہ اسے قومی زبان بناتے وقت یہی مسئلہ تھا کہ یہ کسی خاص صوبے یا علاقے کی زبان نہیں تھی۔ کراچی میں اردو بولنے والے لوگوں کی ایک خاص تعداد ضرور آباد تھی مگر وہ اتنے موثر نہیں تھے کہ پاکستانی زبان کی تشکیل میں فیصلہ کن اثر ڈال سکتے۔ مگر دو پہلوئوں کی وجہ سے اردو زبان کو پاکستان کی قومی زبان بنانا ممکن ہو سکا۔ ایک تو تحریک پاکستان میں اس  کا ایک اہم کردار تھا۔ دوسرا اردو زبان یہاں کسی خاص علاقے کی زبان نہیں تھی بلکہ ایک غیر جانبدار زبان تھی اس لئے اردو کو قومی زبان بنانے سے کسی خاص علاقے کی برتری کا احساس نہیں پیدا ہوتا تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ برصغیر کے بہت سے مسلمان راہنمائوں نے بھی کوشش کی کہ برصغیر کے مسلمان باہمی رابطے کے لئے اردو زبان کو استعمال کریں۔ چونکہ پاکستان کے تمام علاقوں، خصوصا شہری علاقوں میں اردو زبان جاننے والوں کی ایک موثر تعداد موجود تھی اس لئے وادی سندھ میں اسے عوامی رابطے کی ایک موثر زبان کے طور پر قبول کرلیا گیا اور اب یہ کم و بیش تمام پاکستان میں باہمی رابطے کی سب سے بڑی زبان کا روپ دھار چکی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اردو زبان نے کئی نئے روپ بدلے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اردو کا مرکز اب دہلی اور لکھنئو کی بجائے پاکستانی علاقے خصوصا کراچی اور لاہور بن گئے۔ دوسرے ایک زندہ زبان کی روایت برقرار رکھتے ہوئے اردو بھی ان قواعد میں تبدیلی کرتی گئی جو اردو کے اساتذہ اور اہل فن نے متعین کئے تھے۔ پاکستانی اردو میں مقامی زبانوں کی آمیزش سے ایک نیا ذخیرہ الفاظ وجود میں آیا۔ اسی طرح مقامی زبانوں کے ادیبوں کے تراجم کی بدولت بہت سے لوگوں کے لئے عبداللطیف بھٹائی، رحمن بابا اور وارث شاہ جیسے شعرا کی تخلیقات اردو کے پرانے اساتذہ کی نسبت زیادہ اہم ہوگئیں۔

 آج کل کی اردو ایک نئے رنگ میں سامنے آ رہی ہے۔ ایک ایسی سلیس اردو کا ظہور ہوا جسے ہم فنکشنل اردو کہہ سکتے ہیں۔ اس میں انگلش اور مقامی زبانوں کے الفاظ بہت استعمال کئے جاتے ہیں۔ اہل زبان کے اسے گلابی اردو کہہ کر رد کر دیتے ہیں مگر یہ تیزی سے ہر شعبے میں مقبول ہو رہی ہے۔ یہ پاکستانی عوام اور میڈیا میں رواج پا رہی ہے۔ اہل زبان کی یہ تنقید نا روا ہے کیونکہ اردو نے پرانا چولا اتار پھینکا ہے اور وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر ایک نئے لباس میں سامنے آ رہی ہے۔

اکثر اوقات پرانے اساتذہ اس نئی زبان کو قبول کرنے اور اسے اپنی لغات اور گرائمر میں جگہ دینے کی بجائے یہ رونا روتے دکھلائی دیتے ہیں کہ زبان کا کباڑہ ہوگیا۔ ان کو معلوم ہی نہیں کہ زبان کا دھارا کسی استاد کا انتظار نہیں کرتا یہ اپنا رخ آپ متعین کرتا ہے۔

یہ ضرور ہے وہ سنجیدہ طالب علم جو اعلی تعلیم کی سطح پر اردو کو بطور مضمون پڑھتے ہیں وہ اس زبان کے ارتقا کی ساری منزلوں سے آگاہی حاصل کریں اور پرانے ادبی سرمائی کی تفہیم کو اہمیت دیں۔ مگرجو طالب علم ابتدائی تعلیم میں اردو کو ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھتے ہیں ان کے لئے ممکن نہیں کہ وہ اردو کی لسانی باریکیوں کو سمجھ پائیں۔ ان کے لئے یہ ضروری بھی نہیں کہ وہ اردو کے کلاسیکل سرمائے سے واقفیت حاصل کریں۔ ان کے لئے اردو زبان میں لکھنے پڑھنے کی ضروری مہارت حاصل کرنا اور اسے اظہار یا تحریر کے وقت ایک رابطے کے ذریعے کے طور پر اپنانا کافی ہوتا ہے۔ ان کے لئے یہ زبان اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ہوتی ہے۔

اس لئے سلیس اردو کو قبول عام ملنا اس وقت پاکستانی عوام کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ چونکہ اعلی تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کوئی علمی اور تحقیقی کام نہیں ہورہا اس لئے اس خلا کو قدرتی طور پر ایک غیر محسوس طریقے سے پر کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں الیکٹرونکس، پرنٹ اور سوشل میڈیا کا کردار سب سے اہم ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ سلیس اردو آنے والے دور میں کلاسیکل اردو کی کرسی پر براجمان ہو جائے گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”پاکستانی اردو ۔ داؤد ظفر ندیم

  1. زبان وہی ترقی کرتی ہے جس کا سینہ بڑا ہوتا ہے اور دوسری زبانوں کو گلے لگاتی ہے اپناتی ہے اور ترقی کرنے والی زبان میں دوسری زبانوں کا ادغام ہوتا ہے لیکن ٹی وی اینکرز وغیرہ جو کر رہے ہیں وہ تو اردو کا انگریزی میں اوغام ہے ، کئ مرتبہ تو ایک جملے میں انگریزی کے الفاظ زیادہ اور اردو کے کم پڑجاتے ہیں، میرے خیال میں اس سے احتراز برتنا چاہئے کیونکہ یہ زبان کی ترقی نہیں تنزلی کا سبب ہوگی۔

Leave a Reply