مکالمہ، مبالغہ، محاسبہ ۔ عافی نامہ

جب ابلاغ کے وسائل کم تھے تو لوگوں کو خبریں سینہ بسینہ پہنچتی تھیں۔

اخبار کی خبریں کبھی آزاد لگتیں تو کبھی اُن پر خوف،خوشامد اور اغراض کے گہرے سائے نظر آتے۔

الیکٹرانک میڈیا کا وجود بس بی بی سی اور وائس آف امریکہ تک محدود تھا۔

بڑے بوڑھے سیر بین پر کسی خدائی صحیفے کی طرح اعتبار اور اعتماد کرتے۔

پھر ان خبروں پر خود ساختہ تبصرے ہوتے اور ہم اُن تبصروں کو مکالمہ سمجھتے حالانکہ وہ صرف ایک نفسیاتی جنگ لڑرہے ہوتے ایک دوسرے پر معلومات کی برتری کی جنگ،ایک دوسرے پر مشاہدے کی برتری کی جنگ۔

ایک زمانے تک ہمیں مکالمے نما تکفیری مبالغہ مذہب کا شہد گھول کر پلایا جاتا رہا اور ہم اس زہر کو تریاق سمجھ کر پیتے رہے۔

پتہ تب چلا جب یہ زہر ناسور بن کر ہمارے رگ وپے میں سرایت کر چکا تھا۔

جس معاشرے میں مکالمہ دم توڑ جائے وہاں پھر ضد اور انتہا پسندی جنم لیتی ہے اور وہ سوچ جنم لیتی ہے جو بالآخر پورے معاشرے کو کھوکھلا کردیتی ہے۔

مکالمے کیلئے دلیل چاہئے اور دلیل کیلئے مطالعہ ۔

جبکہ بحث کیلئے صرف ضد چاہئے اور ضد کا ہتھیار ہے گالی۔۔۔

اب آپ بتائیں کہ گالی والا راستہ آسان ہے یا دلیل والا؟

سو ہم نے مبالغہ کو مکالمہ اور گالی کو ہتھیار بنایا

جس کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔

 ہم مکالمے سے فرار کی کوشش کرتے رہے اور شدت پسندی،انانیت،لسانی عصبیت ہمارے قومی اعصاب پر آسیب بن کر چھا گئی اور اب نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

اب ہم گنہگار کو بھی دوش نہیں دے سکتے کہ اُس کے پاس بھی عذر ہائے بسیار ہیں۔

لیکن اب سوشل میڈیا کا دور ہے مکالمے کو نئے ذرائع میسر ہیں اور ان ذرائع سے نئی جہتیں میسر آرہی ہیں ۔۔

لیکن یہاں بھی وہی دوغلا پن آڑے آرہا ہے آزاد فکری ابلاغ کی بجائے فکری ارتداد پھیل رہا ہے ۔

ہر کوئی اپنا اپنا چورن بیچ رہا ہے اصل مال تک رسائی اتنی پُر پیچ ہے کہ راہی فکری بھول بھلیوں میں گم ہو جاتا ہے اور بالآخر شاہراہِ علم کا مسافر سادگی سے سفر شروع کرتا ہے اور عیاری کے ہاتھوں یرغمال ہو جاتا ہے۔

ایسے میں کچھ لوگ مکالمے کے نام پر مغالطے کو پروان چڑھا رہے ہیں لیکن فکری، نظریاتی مکالمہ اہل ہوس کے ہاتھوں یرغمال ہو کر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہے۔۔

اس پراگندہ ماحول میں کچھ اہل فکر و نظر نے مکالمے کی نیو ڈالی ہے ۔۔

دعا ہے کہ اس بار مکالمہ بدخواہوں کی نظرِ بد سے بچا رہے اور معاشرے میں برداشت اور وسیع نظری کا سبب بنے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply