کیا نواز شریف بیوقوف ہیں؟۔۔۔۔ژاں سارتر

یہ وہ عام سوال ہے جو آپ پاکستان میں عوام سے پوچھیں تو پی ٹی آئی کے نوجوان اور جذباتی کارکن فوراً سے پیشتر اثبات میں جواب دیں گے۔ پیپلز پارٹی کے کسی سنجیدہ سیاسی ورکر سے پوچھیں تو وہ براہ راست جواب کے بجائے نواز شریف کو قسمت کا دھنی قرار دے گا ۔۔۔ البتہ مسلم لیگ ن کے کسی متوالے سے پوچھیں تو وہ میاں صاحب کی ذہانت کو کم از کم قائد اعظم کے ہم پلہ ضرور قرار دے گا۔ اگر غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو یہ تینوں جوابات بالکل غلط ہیں۔ نواز شریف کو سیاست میں لانے کا فیصلہ ان کے والد مرحوم میاں محمد شریف کا تھا جو بھٹو دور میں اپنی اتفاق فونڈری قومیاۓ جانے سے سخت نالاں تھے۔ انہوں نے ہی نواز شریف کوپہلے تحریک استقلال اور بعد ازاں “مارشل لاء سکول آف ینگ پولیٹیشنز” میں داخل کرایا۔ اسی تربیت کے باعث نواز شریف اسی کی دہائی کے آغاز میں پنجاب کے وزیر خزانہ بنے اور بعد ازاں 1985 کے انتخابات کے بعد جنرل ضیا الحق کی خصوصی شفقت کے باعث وزیر اعلیٰ پنجاب بنے۔ یہاں تک کے سفر کو آپ نواز شریف کی خوش قسمتی قرار دے سکتے ہیں لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا، اس میں قسمت کا دخل اسی قدر تھا جس قدر کسی بھی دوسرے کامیاب سیاسی رہنما کی زندگی میں ہو سکتا ہے۔ 

نواز شریف کے طرز سیاست سے کسی کو اتفاق ہو یا اختلاف، لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے اس وقت تک حالات کو اپنے حق میں استعمال کرنے اور مواقع سے فائدہ اٹھانے کا ہنر سیکھ لیا تھا۔۔۔ یہی ایک کامیاب سیاستدان کی پہلی کامیابی ہوتی ہے۔ 1988 میں جنرل ضیاءالحق کی فضائی حادثے میں ہلاکت کے بعد اگر اسٹیبلشمنٹ نے سینئیر سیاسی رہنمائوں کی موجودگی کے باوجود نواز شریف کے سر پر دست شفقت رکھا تو یہ نواز شریف کی، انگریزی محاورے کے مطابق “گاڑھے پسینے کی کمائی” تھی۔۔۔ نہ کہ اسٹیبلشمنٹ کی نظر عنایت۔ یہ وہ دور تھا جب پیپلز پارٹی ساڑھے گیارہ برس بعد اقتدار میں آچکی تھی اور پی پی پی مخالف قوتوں کو اگرچہ صدر غلام اسحٰق خان، جنرل اسلم بیگ اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی تاہم ان کے پاس نواز شریف کے سوا کوئی چوائس بھی نہیں تھی۔ مخالفین کے نقطہ نظر سے اسے میاں صاحب کی دولت کا کرشمہ قرار دینا اس لیے زیادتی ہے کہ دولت تو دیگر سیاستدانوں کے پاس بھی تھی لیکن اسے درست جگہ استعمال کرنے کا ہنر نواز شریف سے زیادہ کسی کو نہیں آتا تھا۔ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم پاکستان بنیں تو نواز شریف نے اس وقت کی مروجہ سیاست کے عین مطابق انہیں ٹف ٹائم دیا۔۔۔ صحیح یا غلط ؟ یہ بحث اس کالم کا موضوع نہیں۔ 1990ء میں بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت برطرف ہوئی تو اگلے انتخابات میں نواز شریف کامیاب ہوئے۔ انہیں پنجاب میں سیاسی کامیابی کے لیےپنجابی ہونے کا وہی ایڈوانٹیج حاصل ہوا جو بھٹو خاندان کو سندھی ہونے کا سندھ میں حاصل ہے۔ نواز شریف وزیر اعظم بنے تو تھوڑے ہی دنوں میں اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہوگیا کہ ان سے ایک بار پھر گھوڑا چننے میں غلطی ہو گئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بگاڑ کر نواز شریف نے با اختیار وزیر اعظم بننے کی کوشش کی اور ناقدین کو یہ باور کرایا کہ وہ محض ایک کٹھ پتلی ہیں نہ بیوقوف۔ غلام اسحٰق خان نے نواز حکومت برطرف کی تو انہوں نے سپریم کورٹ میں کیس کر کے بحال کرائی اور ایک بار پھر ثابت کیا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ مقتدر حلقوں نے ایک بار پھر انہیں حکومت چھوڑنے پر مجبور کیا تو انہوں نے اپنے ساتھ غلام اسحٰق خان کا استعفا بھی دلوایا۔۔۔ کیا ایسے شخص کو بیوقوف یا کم عقل کہا جا سکتا ہے؟

بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت کے دوران بھی نواز شریف نےبھرپور سیاست کی اور خود کو پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کا قائد اور پرائم منسٹر ان ویٹنگ منوایا۔ نواز شریف کا دوسرا دور حکومت اس لحاظ سے منفرد تھا کہ انہوں نے خود پر پڑا ہوا، بنیاد پرستی کا لبادہ اتار ڈالا اور ایک روشن خیال حکمران بننے کی راہ پر چل پڑے۔ انہوں نے پاکستان کی سیاست کے ایک مضبوط فریق اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لی اورعدلیہ کو انتظامیہ کی قوت دکھائی۔۔۔ ایک صدر، ایک چیف جسٹس اور ایک آرمی چیف کو گھر بھجوایا۔۔۔ اس کے باوجود اگر کوئی نواز شریف کو کم عقل سمجھتا ہے اس پر حیرت کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔ جب جنرل مشرف نے نواز حکومت کا تختہ الٹا تو پاکستان میں بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ اب نواز شریف کو بھی بھٹو کی طرح پھانسی کے پھندے کا سامنا ہوگا لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ نواز شریف کو بعض غیر ملکی حکمرانوں کی مداخلت اور ضمانت پر بمع خاندان بحفاظت سعودی عرب بھجوانا پڑا۔ اہم ممالک حکمرانوں کے ساتھ اس قدر گہرے ذاتی مراسم کسی بیوقوف کا کام نہیں ہو سکتے۔ مشرف کا زوال شروع ہوا تو نواز شریف پاکستان واپس آئے اور مشرف کی خواہشات کے علی الرغم دوبارہ سیاست میں سرگرم ہوئے۔

بے نظیر بھٹو کے بعد آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی اور صدر مملکت بنے تو نواز شریف نے پہلے مرحلے ہی میں جسٹس افتخار بحالی کی تحریک میں کامیابی حاصل کر کے، اپنی سیاسی حیثیت کا احیا کر لیا۔ 2013 کے انتخابات میں تمام انتخابی جائزوں کے عین مطابق نواز شریف نے کامیابی حاصل کرتے ہوئے تیسری بار وزیر اعظم بننے کا ریکارڈ بھی قائم کیا۔ موجودہ دور کے شروع ہوتے ہی بعض حلقوں کی جانب سے یہ پراپیگنڈا شروع ہوا کہ نواز شریف زیادہ دیر تک برسراقتدار نہیں رہیں گے، لیکن گزشتہ ساڑھے تین برس کے دوران جس طرح انہوں نے دھرنوں اور حکومت مخالف سرگرمیوں کا مقابلہ کیا، اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کو بریکنگ پوائنٹ پر جانے سے بچایا اور اپنی حکومت قائم رکھی، وہ پاکستان کی مروجہ سیاست میں ایک اہم واقعہ ضرور گنا جائے گا۔ قارئین میں سے نواز شریف کے ناقد حکومت کے بعض اقدامات پر تنقید کا حق ضرور رکھتے ہیں لیکن ایک بار پھر عرض کردوں کہ اقدامات کے غلط یا صحیح ہونے کا فیصلہ، ان سطور کا موضوع ہی نہیں۔ اگر ہم نواز شریف کے موجودہ دور کا جائزہ لیں تو یہ بات سمجھنا چنداں دشوار نہیں کہ اس دور میں وزیر اعظم کی سیاست گزشتہ ادوار کی نسبت بہرحال میچور رہی ہے۔ انہوں نے عدلیہ کے ساتھ معاملات کو بگڑنے سے بچائے رکھا ہے تو دوسری جانب فوج کے ساتھ تعلقات میں ضرورت کے مطابق قدم بقدم آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کی روش اپنا کر اس ادارے کو بھی اس حد تک جانے نہیں دیا جہاں وہ اس حکومت کے خاتمے پر کمر بستہ ہوجاتا۔ اس دور میں ان کی سیاست کی اہم مثال “شکریہ راحیل شریف” مہم ہے جس میں ہمارے جمہوریت پسند دوستوں نے بھی نہایت جوش خروش سے حصہ لیا اور مخالف عقابوں کو بیک فٹ پر کھیلنے پر مجبور کیا۔ اسی طرح جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کا معاملہ ایک برس قبل ہی اٹھا کر ایک بار پھر سیاستدانوں کی برتری ثابت کی اور دوسری جانب اہم قومی معاملات میں اس مقتدر ادارے کی رائے تسلیم کرکے معاملات میں وہ توازن قائم رکھا جس کے باعث آئندہ ڈیڑھ برس میں بھی ان کی حکومت کے لیے کوئی خاص خدشہ یا خطرہ نظر نہیں آتا۔  

اب اگرہم تحریر کی ابتدا میں موجود سوال کا جواب تلاش کرنا چاہیں تو یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ نواز شریف کی سیاسی ذہانت اگرچہ بڑے عالمی رہنمائوں جیسی ہرگز نہیں تاہم پاکستان کی موجودہ سیاست کے تناظر میں انہیں بیوقوف یا کم عقل سمجھنا ایک بڑی غلطی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(ژاں سارتر لاہور میں مقیم اور صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ نے وہ سب کچھ کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے جو ژاں پال سارتر خود اپنی زندگی میں نامکمل چھوڑ گیا۔)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply