• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • احسان اللہ احسان تکفیریت کا نمائندہ اور APSکے شہدا کا خون

احسان اللہ احسان تکفیریت کا نمائندہ اور APSکے شہدا کا خون

ابھی کچھ دنوں پہلے(غالبا 17 اپریل 2017 ) کو یہ خبر سامنے آئی کہ طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے خود کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کردیا ۔یادوسرے لفظوں میں اپنے ہتھیار پھینک کر سرینڈر کردیا۔ یہ ایک خوش آئند خبر تھی کہ ایک انتہا پسند نے خود کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کے حوالے کردیا مگر جس طریقہ کار کے مطابق اب اس تکفیری کی آواز کو ہر سطح پر پذیرائی مل رہی ہے اس کے بارے میں ملک کے ہر گوشہ سے سوالات کا اُٹھایا جانا ایک لازمی امر ہے۔ کیونکہ اس قوم نے دہشت گردی کے خلاف بہت زیادہ نقصانات اُٹھائے ہیں۔ ہم بحیثیت قوم اُس وقت کو ابھی تک نہیں بھول سکے ہیں جب ان تکفیری جہنم کے نمائندوں نے APS پشاور کے معصوم پھولوں کو اپنی سفاکیت کا نشانہ بنایا تھا اور ملک کے طول عرض میں سفاکیت کی ایک لہر دوڑا کر رکھ دی تھی لیکن جب اس تکفیری عفریت کی واضح آواز کو گرفتار کرکے پابند سلاسل کیا جاتا ہے تو اس سے وہ سلوک روا کیوں نہیں کیا جارہا ہے جس کا وہ حقدار ہے؟ آج کل یہ خبر تمام ابلاغ میں اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ گشت کر رہی ہے کہ جیو ٹی وی کے انتہائی محترم اینکر پرسن سلیم صافی صاحب اس تکفیری نمائندہ سے اپنے پروگرام جرگہ کیلئے انٹرویو کر رہے ہیں اور بالاخر اسے 27 اپریل 2017 کی شب 11 بجکر 5 منٹ پر ٹیلی کاسٹ کیا جائیگا۔(اب پیمرا نے کالعدم تنظیم کے ترجمان احسان اللہ احسان کے انٹرویو کے نشر ہونے پر پابندی لگا دی ہے)
کیا ارباب اختیار اس امر کی کوئی مثال پیش کرنا چاہیں گے کہ آپریشن ضرب عضب میں گرفتار کرکے پھانسیوں پر لٹکائے جانیوالے دہشت گردوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک روا کیا گیا تھا جیسا کہ اس تکفیری نمائندہ کے ساتھ کیا جارہا ہے؟ کیا اس عمل سے یہ بات واضح کرنے کی ناکام کوشش تو نہیں کی جارہی ہے کہ APS پشاور کے شہید معصوم کلیوں کا خون ہونا ایک وقتی حادثے کے سوا کچھ نہیں اور اس خون آشام درندہ کو زندہ رکھنا ہماری مجبوری ہے نیز اس خون آشام درندہ کو تمام تر سہولیات مہیا کرکے میڈیا میں پیش کرکے کیا APS پشاور کے شہید طالبعلموں کے والدین کے زخموں کو ایک بار پھر تازہ کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے؟
APS پشاور کا المیہ واحد المیہ تھا جس کے بعد پاکستانی قوم ایک لڑی میں پرو دی گئی تھی اور آج بھی اس المیہ کے زمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی مکمل کو ششیں آپریشن ضرب عضب کے بعد آپریشن ردالفساد کی صورت میں جاری ہیں مگر اس تکفیری نمائندہ کو دی جانی والی سہولتیں اور اسکے چہرے پر پھیلی ہوئی مُسکان پس پردہ کچھ اور ہی کہانی سُنا رہی ہیں۔ شہید معصوم کلیوں کے والدین اور ہر ایک پاکستانی صاحب ارباب و اختیار سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اس تکفیری نمائندہ کو کن وجوہات کی بنیاد پر گزشتہ 10 دن سے اتنا پروٹوکول ہمارے ہی دئیے ہوئے ٹیکس سے دیکر ہمارے منہ پر ہی جوتے مارنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے(یاد رہے کہ تکفیریت کا نمائندہ مورخہ 17 اپریل 2017 کو اپنے ہتھیار پھینک دینے کے سبب گرفتار ہوا تھا اور اس کالم کے شائع ہونے تک انتہائی سخت سیکیورٹی اور پرٹوکول میں اپنے باقی ماندہ دن گزار رہا ہے) ۔ بجائے اسکے تکفیریت کے اس نمائندے کو فوری طور پر فوجی عدالت میں پیش کرکے مقدمہ چلایا جاتا اور اسے کیفر کردار تک پہنچایا جاتا اسے زندہ رکھ کر نامعلوم مقاصد حاصل کیئے جارہے ہیں۔ ابھی تک ایسی کوئی خبر سامنے نہیں آئی کہ موصوف پر فوجی عدالت میں مقدمہ داخل کردیا گیا ہے۔
APS پشاور کا المیہ ملکی تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس المیہ نے نہ صرف ملک کی تمام اکائیوں کو واحد نکتہ پر جمع کردیا تھا کہ کسی بھی صورت میں قاتلوں کو معافی کے درجہ تک رسائی نہیں دی جائیگی اور انکو عبرتناک سزائیں دی جائیں گی۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے جب مملکت خداداد پاکستان کے ہر ایک شہری نے اس بات کا مُصمم عزم کیا تھا کہ اس واقعہ میں ملوث ہر کردار کو نشان عبرت بنا دیا جائیگا کیونکہ APS پشاور کے واقعہ نے ملک کے ہر شعبہ زندگی کو متاثر کیا تھا اور ہر آنکھ اشکبار تھی کہ ظالموں نے پھول جیسی کلیوں کو اُجاڑنے میں کوئی کسک نہیں چھوڑی تھی۔
اب وہ وقت آچکا ہے کہ دہشت گردی کرنے والے ہر ایک تکفیری کردار کو اسکے انجام تک پہنچایا جائے کیونکہ اس دہشت گردی نے ملک کی نظریاتی اساس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا یا ہے نیز وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جو بھی دہشت گرد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ لگے اسے فی الفور قانونی کارروائی کرکےعبرت کا ایسا نشان بنا دیا جائے کہ کوئی بھی میلی آنکھ سے اس پاک سرزمین کی طرف دیکھنے کی جرات بھی نہ کر سکے۔ مجھے اُمید ہے کہارباب اختیار جو اس معاملے میں مصروف ہیں اپنے طور پر اُسی عزم کا اظہار کریں گے جو عزم آپریشن ضرب عضب شروع کرتے وقت کیا گیا تھا اور تکفیریت و دہشت گردی کے اس نمائندہ کو اس کے انجام تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑیں گے۔

Facebook Comments

ایاز خان دہلوی
سچائی کی تلاش میں مباحثہ سے زیادہ مکالمہ زندگی کا ماحصل ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply