• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اپنے اپنے اسماعیل ؑ کو بچا کر ابراہیم ؑ کی پیروی کا دعویٰ۔۔سید ثاقب اکبر

اپنے اپنے اسماعیل ؑ کو بچا کر ابراہیم ؑ کی پیروی کا دعویٰ۔۔سید ثاقب اکبر

ہر ایک کا اسماعیل ؑ وہ ہے، جسے وہ دنیا و مافیہا کی ہر ایک چیز سے زیادہ عزیز رکھتا ہے۔ اگر وہ اسے اللہ کی رضا کی خاطر قربان کرنے پر دل و جان سے آمادہ ہو تو وہ یقینی طور پر ابراہیم ؑ کا پیروکار ہے، لیکن اگر وہ اسے بچا کر رکھنے کے لیے جتن کرتا ہو تو پھر وہ سب کچھ ہوسکتا ہے، ابراہیمیؑ نہیں۔ اسماعیل ؑؑ ابراہیم ؑؑ کی ایک سو سالہ آرزو کا ثمر تھا۔ وہ جوانی اور بڑھاپے کے بڑے بڑے امتحان دے چکے تھے۔ انھیں بت شکنی کے جرم میں آتش نمرود میں پھینکا گیا تو انھوں نے صبر اور اطمینان سے امتحان کی اس منزل کو عبور کیا اور بھی بہت سے امتحان آئے۔ پالنے والے چچا نے خوفناک دھمکیاں دیں، جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ اللہ نے جب ایک کنیز کے بطن سے ان کو آخری عمر میں بیٹا دیا تو اس دور کے بڑے خاندان کی سارہ نے ابراہیم ؑ کے اسماعیل ؑ کی طرف میلان کو قبول نہ کیا، پھر اللہ کا حکم ہوا کہ انھیں وادی مکہ کے بے آب و گیاہ اور بے علف صحرا میں چھوڑ آئیں۔ ابراہیم ؑ نے یہ سب کچھ قبول کیا، ایک کے بعد دوسرے امتحان سے گزرے۔

اسماعیل ؑ نے نوجوانی میں قدم رکھا۔ اپنے باپ کے ساتھ بھاگنے دوڑنے کے قابل ہوئے تو ایک بے مثال حکم آگیا۔ قرآن کریم کے الفاظ میں: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ (١٠٢)الصافات “جب اسماعیل ؑ اپنے باپ کے ساتھ دوڑنے بھاگنے کی عمر کو پہنچے تو انھوں نے بیٹے سے کہا: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمھیں ذبح کر رہا ہوں۔ پس دیکھو تمھاری کیا رائے ہے۔ انھوں نے کہا: ابا جان! آپ کو جو حکم ہوا ہےو اسے بجا لائیے، ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔” کہتے ہیں کہ یہ خواب انھوں نے مسلسل تین راتوں میں دیکھا۔ پہلی رات خواب دیکھا، بیدار ہوئے تو اس پر غور و فکر کرتے رہے کہ یہ کیسا خواب ہے۔ دوسری رات دیکھا تو بات واضح ہوچکی تھی کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ تیسری رات دیکھا تو یقین کی اعلیٰ ترین منزل پر فائز ہوچکے تھے کہ یہ خواب رحمانی ہے. وہ اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لیے تیار تھے۔

ان کا زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ اسماعیل ؑ تھا۔ انھوں نے اسماعیل ؑ کی والدہ سے کہا کہ مجھے چھری اور ایک رسی دے دو، مجھے اپنے دوست سے ملاقات کے لیے جانا ہے۔ پھر کیا ہواو ابلیس نے ہاجرہ کوو اسماعیل ؑ کو اور ابراہیم ؑ کو مختلف حیلوں سے اس راستے سے روکنے کی کوشش کی۔ آخر کار ہر ایک نے اسے سنگسار کیا اور اس کے وسوسوں کو دھتکار دیا۔ ایک رائے کے مطابق سرزمین مکہ پر تین جمارات مختلف مقامات پر ابلیس کے مجسم ہو کر آنے اور گمراہ کرنے ہی کی علامتیں ہیں، جسے تینوں مواقع پر اس توحید پرست خاندان نے سنگسار کیا اور ان کی پیروی میں آج بھی ان جمارات کو سنگسار کیا جاتا ہے۔ ابراہیمؑ اپنے بیٹے کو لے کے قربان گاہ ِمنیٍ پر پہنچے۔ قربانی کے اس عزم میں ہاجرہ، اسماعیل ؑ اور ابراہیمؑ سب شریک تھے۔ تاریخ میں ہاجرہ کے بیانات ملتے ہیں اور ہاجرہ کو یاد کرنے کا اہتمام اللہ تعالیٰ نے بھی کر رکھا ہے۔ صفا و مروہ کے مابین سعی ہاجرہ ہی کی یادگار ہے۔

اسماعیل ؑ نے بھی یہ نہیں کہا کہ بابا! آپ نے تو خواب دیکھا ہے بلکہ انھوں نے ایمان کی اعلیٰ ترین سطح پر کہا کہ بابا! آپ کو جو حکم ہوا ہے، بجا لائیں۔ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ قرآن حکیم میں ہے کہ ابراہیم ؑنے ذبح کرنے کے لیے اپنے نور نظر کو پیشانی کے بل لٹا لیا: فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ ‎﴿١٠٣﴾الصافات “پھر جب دونوں نے حضور الہیٰ میں سر تسلیم خم کر لیا” تو ابراہیم ؑ نے اسماعیل ؑ کو پیشانی کے بل لٹا لیا۔ روایات میں ہے کہ اسماعیل ؑ نے وصیت کی تھی کہ بابا! اللہ کی رضا کے حصول کے لیے سب سے اچھی حالت سجدے کی ہوتی ہے، میں سجدے میں جاؤں گا تو آپ پس گردن سے چھری چلا لیجیے گا۔ ابراہیم ؑ نے چھری چلا دی تو خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز آئی کہ اے ابراہیم! آپ نے خواب کو سچ کر دکھایا: إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ‎﴿١٠٥﴾ “ہم اسی طرح سے نیکوکاروں کو جزا دیتے ہیں۔”

یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی، ہم نے ایک ذبح عظیم کو اس کا فدیہ قرار دیا اور اسے بعد میں آنے والوں میں رکھ دیا۔ ابراہیم ؑ پر سلام۔ وَنَادَيْنَاهُ أَن يَا إِبْرَاهِيمُ ‎﴿١٠٤﴾‏ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ‎﴿١٠٥﴾‏ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ ‎﴿١٠٦﴾‏ وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ ‎﴿١٠٧﴾‏ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ‎﴿١٠٨﴾‏ سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ‎﴿١٠٩﴾‏ الصافات۔ ابراہیم ؑ جب سارے امتحانوں سے گزر چکے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں انسانوں کی امامت کے منصب پرسرفراز کیا۔ وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ ‎﴿١٢٤﴾‏البقرہ “اور جب ابراہیم ؑ کو ان کے رب نے مختلف امتحانوں سے گزارا اور وہ ان میں پورا اترے تو اس نے کہا کہ بے شک میں نے تجھے انسانوں کی امامت کے منصب پر سرفراز کیا ہے۔ انھوں نے کہا کیا میری ذریت تک بھی یہ منصب پہنچے گا تو ان کے رب نے کہا، ہاں مگر ظالموں تک یہ منصب نہیں پہنچے گا۔”

ابراہیم ؑ کو امت محمدیہ کا باپ قرار دیا گیا ہے(حج 78) اور اللہ نے ہمیں ان کی ملت قرار دیا ہے۔ حج کے سارے اعمال حضرت ابراہیم ؑ، ہاجرہ اور اسماعیل ؑ کے اعمال کے نقشے پر مرتب کیے گئے ہیں۔ خانہ کعبہ کی بنیادیں بھی ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ نے مل کر بلند کی ہیں۔ مقام ابراہیم ؑ کو مصلیٰ قرار دیا گیا ہے اور عید الاضحیٰ کا دن ابراہیم ؑ کی ہی عظیم الشان قربانی کی یاد سے ہی عبارت ہے۔ ہمیں ان میں سے جانور کی قربانی ہی یاد رہ گئی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جانور قربان کرکے ہم حضرت ابراہیم ؑ کے پیروکار ہو جائیں گے۔ یہ تصور بہت پست ہے اور مقام ابراہیم اور ابراہیم کی قربانی بہت عظمتوں والی ہے۔ انھوں نے اپنا اسماعیل ؑ قربان کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا۔

ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم کہاں تک ابراہیمی ہیں، اللہ کی رضا کے لیے ہم کیا کچھ قربان کرسکتے ہیں۔ ابراہیمؑ کو جب معلوم ہوگیا کہ اللہ کی رضا کس میں ہے تو پھر کوئی تاویل، کوئی حیلہ اور کوئی دلیل انھیں راہ خدا میں قدم اٹھانے سے نہیں روک سکی۔ کیا ہم اپنی زندگی میں اپنی سب سے بڑی چیز رضائے الہیٰ میں قربان کرنے کو تیار ہیں۔ کسی کو اولاد زیادہ پیاری ہوتی ہے، کوئی بیوی کے عشق میں مبتلا ہوتا ہے، کوئی کسی حسینہ کے لیے بے خواب رہتا ہے، کوئی مال و دولت کا اسیر ہوتا ہے، کوئی کسی منصب کے لیے پاگل ہوا جاتا ہے۔ ایسے سب لوگ اگر اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں تو بکرا، دنبہ، بیل یا اونٹ قربان کرنے کو آمادہ ہوتے ہیں، لیکن وقت پڑنے پر اللہ کی رضا کی خاطر اپنی متاع عزیز کو قربان کرنے پر آمادہ نہ ہوں تو وہ اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت میں سے کیسے قرار پا سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہت سے عرفاء اور علماء نے ذبح عظیم کا مصداق امام حسین ؑ کو قرار دیا ہے۔ جن کی کیفیت کی ایک عرب شاعر نے خوبصورت ترجمانی کی ہے: “إن کان دین محمّد لم یستقم الّا بقتلی فیا سیوف خذینی”، “اگر دین محمد کا قیام میرے قتل کے بغیر ممکن نہیں تو اے تلوارو آؤ مجھ پر ٹوٹ پڑو۔” حسینؑ محمد مصطفیٰ ؐکا اسماعیل ؑ تھا، جن کی شہادت کی خبر آپؐ بہت پہلے دے چکے تھے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply