ننگی بھیک ۔ سعدیہ سلیم بٹ

بھیک مانگنا میرے وطن میں باقاعدہ ایک کاروبار بن چکا ہے۔ جیسے ہی تہوار کے دن، رمضان مبارک یا محرم شروع ہو لگتا ہے جیسے اس ملک میں دو ہی طبقے ہیں، بھیک دینے والے اور لینے والے۔ اکثر تو یہ لینے والے اکثریت میں لگتے ہیں۔ لاہور میں یہ ایک معمول ہی بن گیا ہے کہ ہر اشارے پر ہر عمر اور جنس کے بھکاری کسی پھیری والے کی طرح اپنے اپنے بہانے کی چھابڑی سر پر اٹھائے سڑک پر ہر آنے جانے والے کو روکتے ہیں۔ کوئی بچے کی بیماری کا بتاتا ہے۔ کوئی اپنی معذوری کا راگ لگاتا ہے۔ کسی کے پاس گھر کے کرائے کی ادائیگی کی رقم نہ ہونے کی ڈفلی ہے۔ اور کسی کے پاس بچے کی فیس کے پیسے نہ ہونے کا راگ۔ الغرض جتنے منہ اتنے سوال۔ کسی وقت ان پر غصہ بھی آتا ہے کہ جھوٹ بولتے ہیں۔ ایک دور تک تو میں ایسے کسی بھی راہوں میں کھڑے فقیر کو دینے کے خلاف ہی رہی۔ مگر جب سے عمرہ پر گئی ہوں تب سے مانگنے والوں کو سچے اور جھوٹے میں بانٹنا چھوڑ دیا ہے۔ بھیک کا یہ کاروبار خانہ خدا تک میں ہوتا ہے۔ حرم کے اندر مانگنے والوں کی جو قطار ہوتی ہے وہ تو کئی ایک کے مشاہدے میں ہو گی مگر حرم کے باہر ایک قطار میں افریقی بچے مانگ رہے ہوتے ہیں. انکے ہونٹوں پر انجان زبان میں جو الفاظ ہوتے ہیں انکا سمجھنا مشکل نہیں کہ سوالی کے الفاظ ہر ایک زبان میں ایک سے ہوتے ہیں۔ قطار میں کھڑے ایک بچے نے دست طلب دراز کیا تو میں نے اپنے شرارتی انداز میں اس کو “رنگے ہاتھوں” پکڑنا چاہا۔ مگر اچانک معجزوں کی اس سرزمین پر ایک آواز نے کہیں میرے اپنے بہت اندر سے میرے کان میں سرگوشی کی؛ “یہ اللہ کے گھر کے باہر کھڑے ہیں۔ کیا اللہ کو نہیں معلوم ان کا سچ جھوٹ۔ جب وہ دے رہا ہے اور ذلیل نہیں کر رہا تو تجھے کیا حق”۔ اسی وقت میری تمام شرارت پیچھے رہ گئی اور ایک رعب اور عجز نے دل کو گھیر لیا۔

میں دفتر میں بارہ گھنٹے کی چکی سے پس کر نکلی اور کار میں بیٹھتے ہوے خود کو ٹریفک کی چکی میں پسنے کیلیے ذہنی طور پر تیار کرنے لگی۔ اسی اثنا میں ایک آخری دفتری کال کو بھگتا رہی تھی

“سر میں ابھی نکل آئی ہوں دفتر سے کل انشاء اللہ کنفرم۔۔۔۔”

گاڑی کو سلف دیتے اور شیشے کی ایڈجسٹمنٹ کرتے ہوئے میں ابھی جملہ مکمل نہ کر پائی تھی

 کہ کسی کی آواز آئی

“سلام، کچھ دے دیں باجی”

آواز کی سمت میں اٹھی میری نظر نے زبان سے الفاظ چھین لیے اور جملہ ادھورا ہی رہ گیا. فون کے دوسری طرف میرے مینیجر نے شاید میری بے توجہی بھانپ لی اور اسے میری شدید تھکن پر گمان کیا تو بولے،

“مس ٹھیک ہے پھر کل اس کو کنکلوڈ کر لیں گے”۔

“جی بہتر اللہ حافظ”، میں نے سرگوشی کی طرح کہا۔

میری کار کی کھڑکی سے معاشرے کی ایک ٹھکرائی ہوئی مخلوق، اپنی پوری آب و تاب کیساتھ کھڑی تھی۔ ایسی مخلوق جسے ہمیشہ ہم نے تحقی اور مذاق کا نشانہ بنایا ہے مگر نجانے کیوں اس سے خوفزدہ سا محسوس کرتے ہیں۔ اگر وہ ہمارے پاس آ کھڑی ہو تو گورا کچھ دے دلا کر جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ ہم اسے خواجہ سرا، جنت کی چڑیاں اور تحقیر سے کھسرا تک پکارتے ہیں۔ وہ ہنستے گاتے، مذاق اڑاتے کہیں بھی مل جاتے ہیں، ایک نئی دلہن کی طرح سجے، ایک الہڑ کی طرح مٹکتے اور غصہ آنے پر ایک غصیلی عورت کی طرح کوسنے دیتے ہوئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عام بھکاری کو تو انکار کر لیا جاتا ہے مگر انکو انکار کرتے ڈر لگتا ہے کہ سنا ہے ان کی بدعا بھی بہت جلد لگتی ہے۔ سو ایک خواجہ سرا تالیاں مارتا، ایڈوانس دعائیں دیتا میری کھڑکی سے لگا کھڑا تھا اور اس کی چکا چوند اور اس سارے نفسیاتی پسمنظر نے مجھے میرے الفاظ سے محروم کر دیا تھا۔

بیگ سے جتنی ریزگاری ہاتھ لگی نکال کے اس کو دی اور کہا، “اپنے آپ کو کیوں تماشہ بناتے ہو، اتنا سج دھج کر نکلنا کیا تیار ضروری تھا؟  پھر لوگ تم لوگوں کا مذاق اڑاتے اور چھیڑتے ہیں۔۔یوں تماشہ کیوں بنتے ہو”۔ اس نے فورا ریزگاری کو عورتوں کی طرح سنبھالتے ہوے کہا،

“باجی شکریہ۔ لیکن کیا کریں۔ لوگ پیسہ نہیں دیتے اگر ہم لپٹ سمٹ کر آئیں۔ اللہ خوش رکھے، چاند سا بیٹا ملے، سدا سہاگن رہے میری باجی”، اور آگے بڑھ گیا۔ میں بھاشن کا سلسلہ شروع کرنے لگی تھی کہ اللہ پر بھروسہ کرو، عزت بیچ کر پیسے نہ کماؤ مگر وہ اپنے جملوں سےمیری ساری نصیحت، سارے بھاشن پر بند باندھ گیا تھا۔ میرے تمام اخلاقی اصول اپنی جگہ مگر اسکا جملہ اس غلاظت زدہ معاشرے کا وہ سچ تھا، جسکے سامنے سب اخلاقی اصول خود کو ڈھکوسلہ لگتے ہیں۔ اس معاشرے میں تو بھیک کیلیے بھی سجنا پڑتا ہے، بکنا پڑتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(سعدیہ سلیم بٹ پیشے کے اعتبار سے بینکر ہیں اور پاکستان کے ایک بڑے غیر سودی بینکاری کے علمبردار ادارے سے گزشتہ نو سال سے وابستہ ہیں۔ ایڈیٹر)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply