• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کشمیر کے فکشن نگار اور ڈرامہ نگار : جگن ناتھ ٹھاکر پونجھی۔۔۔۔۔احمد سہیل

کشمیر کے فکشن نگار اور ڈرامہ نگار : جگن ناتھ ٹھاکر پونجھی۔۔۔۔۔احمد سہیل

اردو میں بہت سے ایسے ادّبا اورشعرا موجود ہیں جن کا ادبی قاموس یا کسی تذکرے میں ذکر نہیں ہوتا۔ ان میں ریاست جمّوں اور کشمیر کی ذیلی باجگزار ریاست پونجھ کے افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس جگن ناتھ ٹھاکر پونجھی بھی ہیں۔ ان کا اصل نام موہن لعل تھا۔ مگر جگن ناتھ ٹھاکر پونجھی کے نام سے  مشہور ہوئے۔ انھوں نےایک راجپوت گھرانے میں 31 دسمبر 1922 میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد کا نام بابو بھیم سین تھا۔ وہ پولو اور نیزہ بازی کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ ان کی دوستی انھی ورزشی کھیلوں کے سبب راجہ صاحب پونجھ سے بڑی گہری اور ذاتی قسم کی دوستی تھی۔ وہ ریاست کے محکمہ آڈٹ اور محصولات میں ملازم تھے۔ وہ راجہ صاحب کی نجی محافل میں بھی شرکت کیا کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی تعلیم وکٹوریہ یا جوبلی اسکول میں حاصل کی۔ اس کے بعد پرنس آف ویلز کالج جموں میں بھی پڑھے۔ اس کالج کا نام بعد میں گاندھی میموریل کالج جّموں ہوگیا تھا۔ یہاں سے انھوں نے بی اے کی سند حاصل کی۔ تعلیم سے فارغ ہوکر جگن ناتھ محکمہ سول سپلائی میں ملازم ہو گئے۔ ، وہ اس ملازمت سے خوش نہیں تھے۔ ان کا ملازمت میں دل نہیں لگتا تھا۔  محکمہ جاتی سیاست سے بیزار تھے۔ اپنے اس محکمے میں کلرکی کی بے علمی زندگی سے خوش نہیں تھے۔ ۔ وہ پچپن میں اپنے محلے کے بچوں کے ساتھ ڈرامے اسٹیج کیا کرتے تھے اور ان کے آس پاس کے لوگ انھیں ” جتھیدار”  کے نام سے پکارتے تھے۔ وہ اپنی اس ملازمت سے اکتا گئے تھے اور ملازمت سے استعفی دے کر دہلی چلے آئے۔ جگن ناتھ بہت خوب رو تھے  اور ان میں مردانہ وجاہت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ کوششوں کے بعد ان کو آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت مل گئی۔ اور یہاں پر ڈوگری نیوز سروس میں معاون مدیر مقرر ہوئے۔ بٹوارے کے بعد پاکستانی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد دہلی میں آکرآباد ہوئی ۔ جن کے رہائش اور روزگار اور کئی مسائل تھے۔ جگن ناتھ ٹھاکر پونجھی نے ان کی مدد کے لیے کچھ فنکاروں کے ساتھ مل کر کئی ڈرامے اسٹیج کیے۔ اور ان ڈراموں سے ہونے والی آمدنی کو شرنارتھیوں (مہاجریں)کے ریلیف فنڈ میں جمع کروایا۔ اسی دوران انھوں نے کئی ڈارمے تحریر کیے۔ ان کا قیام دہلی میں 1971 میں رہا۔ کیونکہ ان کا تبادلہ جمّوں ریڈیو اسٹیشن پر ہوگیا تھا۔ جہاں انھوں نے ڈوگری علم وادب اور ثقافت کو فروغ دینے کے لیے بہترین  کام کیے۔ وہ ریاستی اکادمی کے سرگرم رکن رہے۔ اسی دوران افسانہ نگاری کی ابتدا کی ،ان کا پہلا افسانہ” خانہ بدوش” تھا۔ یہ افسانہ ممبئی کے ادبی جریدے ” ایشیاء ” کی 1950 کی اشاعت میں شامل تھا۔ کچھ کا کہنا ہے ان کا پہلا افسانہ ” راجا” ہے۔ جو کالج کے میگزین ” توری” میں شائع ہوا تھا۔ اور باضابطہ طور پر ان کا پہلا افسانہ ‘کالکی’ جموں کے ہفت روزہ چاند میں چھپا تھا -اس کے بعد ان کے دو درجن ناول  اور افسانوں کے تین مجموعے شائع ہوئے۔ جگن ناتھ کےناولوں اور افسانوں کے تراجم ہندی، بنگالی، پنجابی (گرمکھی) ، ملیالم اور تلگو میں بھی ہوئے۔ ان کی معروف نالوں میں ” ڈیڈی” ،”وادیان اور ویرانے” ، ” رات کے گھونگٹ” ،” شمع ہر رنگ میں جلتی ہے” ،” زلف کے سر ہونے تک” ، ” چاندنی کے سائے” ، “یادوں کے کھنڈر” ، ” پیاسے بادل” ، ” اداس تنہائیاں” ،” جب پتھر روتے تھے”،” یہ رشتے یہ روگ” ،” پت جھڑکے بچھڑے ” ، ” اور ” بھنور” شامل ہیں۔ جگن ناتھ ڈوگری اور اردو میں بلا تکلّف لکھا کرتے تھے۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں انھوں نے اپنا ناول ” میں وہاں  نہیں رہتا” لکھا۔ جو 14 اگست 1974 میں مکمل ہوا۔ انھوں نے ناول کے آخری صفحے پر لکھا، ” اہنساپرمودھرے۔۔۔۔ پر نام ۔۔۔۔ سلام ۔۔۔۔۔ خدا حافظ ۔۔۔۔ سب کچھ درو ہے ۔۔۔ سب کچھ پاس ہے ۔۔۔ صرف احساس کی بات ہے”۔
یہ آخری الفاط لکھ کر وہ سہ پہر کے وقت اپنی پڑھنے لکھنے کی میز سے اٹھے اور دفتر سے باہر جاکر اپنے کھانے پینے کا سامان لے آئے۔ دفتر سے باہر نکلتے ہی ایک تیز رفتارجیپ ان سے ٹکرا گئی۔ انھیں سر پر چوٹیں آئیں،اور اس سے ان کا دماغ سخت متاثر ہوا ۔  وہ فوراً ہی بے ہوش ہو گئے۔ انھیں  شری مہاراجہ گلاب سنگھ ہسپتال لے جایا گیا اور بے ہوشی کے عالم میں جمعّہ، 16 اگست 1974 کے دن ان کا انتقال ہوگیا۔ اپنی موت سے کوئی تین چار ماہ قبل اپنی ایک کہانی ” ختم قصہ ختم” میں ان فقروں کو اپنا تکیہ کلام بنایا، شاید انھیں اپنی موت کی دستک کا احساس ہوگیا تھا۔ 1949 میں جگن ناتھ کی شادی پونجھ کے وزیر خاندان کی ایک خاتون سے ہوئی۔ لیکن ناچاقی کےسبب یہ شادی دوسال ہی چل سکی۔ اور یہ دونوں ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے علیحدہ ہوگئے۔ وہ لاولد تھے۔ وہ بے حد حلیم، کریم النفس انسان تھے۔ ان کے دوستوں  کا ایک بڑا حلقہ تھا۔ مجلسوں اور محافل میں مرکز  نگاہ بنے رہتے تھے۔ بہت ہمدرد اور دوسروں کی مدد کرکے  خوش ہونے والے انسان تھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply