الیاس گھمن پہ آخری کالم اور سات سوال۔۔۔انعام رانا

تقریباً ایک ہفتہ الیاس گھمن پر لگنے والے الزامات، جوابی الزامات، دفاع اور مختلف نقاط پہ مختلف مضامین آتے رہے۔ “مکالمہ” کو اس موضوع پر قریب اکہتر مضامین موصول ہوے جن میں سے فقط دس کے قریب چھاپے گئے کیونکہ وہ ذاتی حملوں سے زیادہ تھے یا کوئی نئی جہت بیان کرتے تھے۔ “مکالمہ” نے غیر جانبدار رہ کر تحاریر کو پیش کیا کہ یہ موضوع حساس بھی ہے اور “ہاٹ ٹاپک” بھی۔ اس موضوع پہ جو کچھ لکھا جا سکتا تھا شاید لکھا جا چکا۔ اب نوبت وہاں آ گئی جہاں فقط لسی میں پانی ڈال کر اسے مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔ اب ایسے مضامین آنے لگے جیسے کچھ ذاکر حضرات عین وقت شہادت شمر لعین اور امام عالی مقام(ر) کے ڈائلاگ سناتے ہیں یا کچھ مردود یزید لعین و پلید کے دسترخوان پہ امام زین العابدین(ر) کے سالن کا ذائقہ تفصیلا بیان کر رہے ہیں؛ یعنی فقط داستان طرازیاں۔ ان حالات میں، اس سلسلے پر یہ مضمون “مکالمہ” پہ آخری مضمون ہو گا تاآنکہ کہ کوئی ایسی ڈیویلپمنٹ ہو جو نئی تحریر کی متقاضی ہو۔ البتہ یہ قضیہ کچھ اہم سوال ضرور اٹھاتا ہے، زرا سوچیئے گا ضرور۔

پہلا سوال؛ کیا دارلافتاء قابل اعتماد ہیں؟

محترمہ سمیعہ خاتون نے مصاہرت کے حوالے سے ملک کے مختلف دارلافتاء کو سوال بھیجا۔ جس کا انکو جواب دیا گیا۔ مگر اہم سوال ہے کہ یہ خط “لیک” کیوں ہوا؟

مصاہرت ایسا مسلئہ ہے جو ہمارے دیہاتوں میں اکثر پیش آتا ہے۔ اور دیگر بھی مسائل ہیں جو مذہبی رہنمائی کے متقاضی ہوتے ہیں۔ ایسے میں بہت سی خواتین ایک اعتماد کے ساتھ دارلافتاء میں مسلئہ بھیجتی ہیں۔ یہ ہی سمیعہ خاتون نے کیا۔ ایسے خط کو لیک کر کے کیا اعتماد کا استحصال نہیں کیا گیا؟ کیا ہماری خواتین اب پہلے کی طرح بے جھجک اپنے مسائل دارلافتاء بھیجنے کی جرات کریں گیں؟

دوسرا سوال: سال بھر مسلئہ کیوں اٹھا؟

خط سے ظاہر ہے کہ یہ سوال سال بھر پہلے اٹھا۔ متاثرہ خاتون نے مصاہرت کی بنیاد پہ فتوی لیا اور علہدگی لے لی۔ آخر اچانک کیا ہوا کہ یہ مسلئہ اس زور و شور سے اٹھانا پڑ گیا؟ کیا مسلئہ اتنا ہی سادہ ہے جتنا کہ محسوس ہوا؟

تیسرا سوال: سمیعہ خاتون اور اہل خاندان کا رویہ کیا رہا؟

سمیعہ خاتون نے ایک معروف دینی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ سنا ہے کہ خود بھی دینی محاذ پہ بہت سرگرم عمل ہیں۔ وہ عام خواتین کی نسبت بہادر ہیں کہ الیاس گھمن سے شادی انھوں نے، بقول شخصے، اپنی مرضی اور بھائیوں کی مخالفت کے باوجود کی۔ یہ سب ہونے پر اس بہادر خاتون نے آخر کوئی قانونی چارہ جوئی کیوں نہیں کی؟ اگر تب نہیں کی تو اب جب کہ یہ مسلئہ انکے خاندان کی بری تشہیر کا باعث بن رہا ہے، وہ سامنے آ کر کوئی قانونی چارہ جوئی کیوں نہیں کر رہیں یا واضح پوزیشن کیوں نہیں لے رہیں؟ میں یہ تو خیر مانتا ہی نہیں کہ مفتی ریحان نامی کوئی شخص ان سے ملا اور خود ہی یہ سب کر لیا۔ خود انکے صاحبزادے نے بھی تردید کی ہے۔ لیکن سوال اٹھتا ہے کہ خط تو چلو لیک ہو گیا ہو گا، یہ آڈیو کلپس اور دس سالہ گھریلو ملازمہ(افسوس ایک دینی گھرانے میں دس سال کی بچی بطور ملازمہ موجود تھی) کا بیان مفتی ریحان کو کس نے فراہم کیا۔ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں والا یہ رویہ فقط ان کے خاندان پہ مزید انگلیاں اٹھوائے گا۔

چوتھا سوال؛ الیاس گھمن کیوں خاموش ہے؟ 

کوئی بھی شخص جس پہ الزامات لگیں، وہ بھی ایک ایسی خاتون کی طرف سے جو اس کی بیوی رہ چکی ہو تو جواب دینا عین انسانی فطرت ہے۔ اگر کوئی سلیم فطرت شخص جوابی الزامات نہ بھی لگائے تو خود پہ لگے الزام کا جواب ضرور دیتا ہے۔ الیاس گھمن آخر خاموش کیوں ہیں۔ سال سے زیادہ جاری اس مہم اور پھر “آئی بی سی” پہ لگے مضمون کی اشاعت اور اس مہم کے عروج کے باوجود وہ کوئی قابل ذکر دفاع کرنے میں ناکام رہے۔ انکا کل آنے والا وڈیو بیان بھی فقط مذہبی جذبات استعمال کرنے کی ایک کوشش تھی۔ یہ ہمارے مذہبی طبقے کا وطیرہ ہے کہ خود پہ لگے الزام کو فورا اسلام یا مسلک کی طرف موڑ دو، یہ ہی کوشش الیاس گھمن و ہمنوا کی طرف سے کی گئی۔

یہ نکتہ اہم ہے کہ ایسے معاملے میں الزام کا ثبوت نہیں بلکہ صفائی کا ثبوت ضروری ہے۔

پانچواں سوال؛ علما اور اداروں کا رویہ کیا تھا؟

یہ سلسلہ ایک سال سے جاری ہے، خطوط لکھے گئے، باتیں ہوئیں اور اب تو باقاعدہ سکینڈل آ گیا۔ مگر ہمارے معروف علما اور وفاق المدارس جیسے ادارے جو ہر دوسری بات پہ طوفان اٹھا دینے کے عادی ہیں، اتنی پراسرار خاموشی کا شکار کیوں ہیں؟ الیاس گھمن پہ پہلے بھی الزام لگے، جنکا کوئی تسلی بخش جواب اس مسلئے کی طرح نہیں موجود، تو پھر ایسا شخص بطور ایک نمائندہ عالم اور “متکلم اسلام ” کیوں قبول کیا گیا؟ کیا وجہ ہے کہ اب بھی “کوڑا قالین کے نیچے کر دو” والا رویہ نظر آ رہا ہے۔ کیا علما یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ یہ قضیہ دراصل مدارس کی اخلاقی حیثیت پہ ایک سوال اٹھا گیا ہے۔ اگر وہ سامنے آ کر اپنے درمیان موجود کالی بھیڑوں کو نہیں نکالتے، تو مدارس اور علما سے نئی نسل کی بیزاری اور ان پہ اعتماد پر کمی میں مزید اضافہ ہی ہو گا۔

ویسے سوال یہ بھی ہے کہ جو شخص مصاہرت کے اس سوال کے جواب میں “نکاح قائم ہے” کہ رہا تھا، وہ اب بھی مفتی ہی سمجھا جائے؟

چھٹا سوال؛ کیا ہم ایک تماش بین قوم ہیں؟

شاید اس سوال کا جواب بہت آسان ہے؛ ہاں۔ ہم ہر مصالحہ دار موضوع پہ مکھی بن کر بیٹھتے ہیں۔ ایک گمنام شخص نے ایک ادبی معیار سے بہت گری ہوئی داستان لکھی، اور ہم سب لوگ اس کو ایک ثبوت کی طرح برتنے لگے۔ الزام لگانے والے ہوں، دفاع کرنے والے یا قارئین(مجھ سمیت چھاپنے والے بھی)، کیا تماش بین ثابت نہیں ہوے؟ اس موضوع سے کراہت کی بنا پر میں نے اس سے اجتناب کیا مگر دیکھیے تو کہ “مکالمہ” کے اس وقتی پلے تین “مقبول ترین” کالم الیاس گھمن پہ ہیں۔ افسوس وقاص خان جیسے بہترین لکھاری کا “دو قومی نظریہ” نہیں بلکہ گھمن پہ مضمون دس ہزار کراس کرنے والا پہلا مضمون بنا۔ شاید ہمیں خود سے بھی سوال کی ضرورت ہے۔

ساتواں سوال: حل کیا ہو گا؟

فیس بک پہ ایک طوفان اٹھا، دو گھرانوں کی عزت چوک میں پامال ہوئی، علما گندے ہوے، مدارس پہ سوال آئے، تو اب کیا بس یہ بات ختم ہو جائے گی؟

اس مسلئے کا حل کیا ہو گا؟ قانونی طور پہ مصاہرت کو ثابت کرنا ممکن نہیں۔ اگر کوئی ریپ ہوا تو میڈیکل ثبوت کا وقت گزر چکا۔ لیکن کیا ایک مجرم کو اس وجہ سے بچ جانا چاہیے؟

اس مسلئہ کے دو ہی حل ہیں۔

پہلا حل؛ یہ ہے کہ ایک علما کی کونسل فورا اس مسلئے کو لے کر دونوں فریقین کا موقف سنے، میسر ثبوتوں کا معائنہ کرے اور قصوروار کو سزا کی سفارش کرے۔ اس پہ عمل یقینا ریاست ہی کا کام ہے۔ اگر الیاس گھمن قصوروار ہے تو علما بطور ادارہ اس کو مردود کریں اور ایک پالیسی بیان دیں کہ ایسا شخص قبول نہیں اور اسے اپنی صف سے نکال باہر کریں۔ فقط اظہار لاتعلقی کافی نہیں۔

دوسرا حل یہ ہے کہ عدالت عظمی فورا اس کا نوٹس لے اور اس مسلئہ کو ایک سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں حل کیا جائے۔ سمیعہ خاتون، الیاس گھمن، مولوی ریحان، سبوخ سید یا جو بھی شخص اس قضئے سے متعلق ہو یا معلومات رکھتا ہو، اسے طلب کیا جائے اور اس قصے کو نپٹایا جائے۔ اس سلسلے میں شاید مغربی قانون کا اصول ہی بہترین ہے کہ ریپ کیس پہ الزام کنندہ سچا ہے جب تک کہ جھوٹا ثابت نا ہو۔ یعنی واقعاتی شہادت پہ تکیہ کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سموسوں اور آٹے کی قیمت کا سوموٹو نوٹس لینے والی عدالتوں سے امید ہے کہ اس مسلئہ پر پہ ایکشن لیں گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”الیاس گھمن پہ آخری کالم اور سات سوال۔۔۔انعام رانا

  1. آخری کالم اور سات سوال۔ یہ تو ہر سوال کے جواب میں ایک اور کالم بن سکتا ہے۔
    بہر حال خوشی اس بات کی ہے کہ جو ملا مسجد کے منبر پر قابض تھا اور کوئی اس کے خلاف کہیں بات نہیں کر سکتا تھا وہ اب سوشل میڈیا کی عدالت میں ہے اور ہر چوک پر ایک عدالت اس کے خلاف لگی ہوئی ہے۔ اُس کی مونوپلی اب ختم ہو گئی ہے اور حق کی آوازیں چاروں طرف سے اُٹھ رہی ہیں۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ایک کمزور عورت جس کی بات کہیں نہیں سنی جا سکتی تھی آج ایک زور دار دھماکے کی صورت ملک کے کونے کونے میں سن لی گئی ہے۔ سموسںوں کی مہنگائی کا سوموٹو نوٹس لینے والی عدالتیں اپنے کانوں میں روئی ٹھونس کر بھی اس کی آواز نا سننا چاہیں تو نا سنیں اب اس۔ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مقدس گائے اپنے ہی وجود کا وزنی گند اٹھائے منہ کے بل زمیں پر گر چکی ہے۔ اس گائے کو اب محض دفنانے کی ضرورت ہے اس کا لاشہ جتنی دیر کھلے میدان میں پڑا رہے گا سڑاند چھوڑتا رہے گا۔

Leave a Reply