ہر “پل” ایک “عہد” ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر مجاہد مرزا

عام انسان پل سے متعلق سوچتا ہی نہیں۔ اس کی وجہ شاید پل پل سے عبارت وہ سالہا سال ہوتے ہیں جو ماضی بن جاتے ہیں یا شاید مستقبل سے وابستہ خیالی عہد ۔ پل نہ ماضی ہوتا ہے نہ مستقبل بلکہ دونوں کی آڑ میں استوار حال ہوتا ہے جو کسی ہونی یا انہونی کے ہونے سے ماضی بنتے ہی مستقبل میں جست لگا دیتا ہے یوں اپنے بارے میں سوچنے کی مہلت ہی نہیں ملنے دیتا۔
مگر ہر پل درحقیقت ایک عہد ہوتا ہے جس کا ماضی معدوم اور مستقبل مصلوب ہوتا یعنی معلق۔ ایک پل میں زندگی کی ابتدا ہوتی ہے اور ایک ہی پل میں زندگی انجام پا لیتی ہے۔ ایک پل میں دنیا تہہ و بالا ہو سکتی ہے اور ایک پل میں مسرت کی آبشاریں چھوٹ سکتی ہیں۔ پل کی حقیقت کو جان لینا ایسے ہی ہے جیسے خلیے کے بطن میں موجود برقیائے ہوئے مہیں ذرات میں پوشیدہ ان سے بھی مہیں اجزاء کے بارے میں جان لینا۔
اس ایک پل کی حقیقت کو جاننے کی خاطر مغرب نے فرانس اور سوئیٹزر لینڈ کی سرحد پر کروڑوں یورو کی لاگت سے “لارج ہیڈرون کولائیڈر” کے نام سے ایک انتہائی پیچیدہ اور ازحد مضبوط تنصیب کی مگر پل ہے کہ اپنے بارے میں جاننے دیتا ہی نہیں۔ اس لیے کہ پل کو اگر کروڑوں اربوں حصوں میں بھی بانٹ دو تب بھی پل ہی باقی بچتا ہے۔ پھر اس پل کے بارے میں جاننے کی جستجو کرنا ہوتی ہے، اسی لیے پل کا نہ ماضی ہے نہ مستقبل۔ اک پل میں کائنات نہ صرف بن گئی بلکہ پل کے پل نجانے کتنے کھربوں میل کی پہنائی میں پھیل بھی گئی اور کہتے ہیں کہ اسی طرح ایک پل میں سکڑ کر انتہائی مہین نکتہ بھی بن سکتی ہے جس میں پوری کائنات کا وزن اور قوت پوشیدہ ہو۔ پھر ایک پل آ سکتا ہے جب ایک اور کائنات اس پل میں بن کر پھیل جائے گی۔ وقت کے ہر پل میں پوری کائنات کے اندر معیاری و مقداری تبدیلیوں کا عمل جاری رہتا ہے۔ اسی طرح نامیاتی اور غیر نامیاتی مادوں اور نامیاتی مادوں سے وجود پانے والی زندگیوں اور مادوں و زندگیوں کے بیچ موجود بافتوں،سالموں، خلیوں، ذرات اور ان کے بیچ کے اجزاء میں کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔
پل کی اہمیت کا احساس اس لیے نہیں ہوتا کہ انسان اپنی آنکھ سے بڑی اشیاء کو ہی دیکھ سکتا ہے۔ جہاں اسے مہین اشیاء کو دیکھنے کے لیے خوردبین چاہیے ہوتی ہے وہیں اسے خود سے بہت دور اشیاء کو چاہے وہ کتنی بڑی ہی کیوں نہ ہوں دوربین درکار ہوتی ہے۔ چنانچہ پل کو گرفت میں لینے کی خاطر شعور کی خوردبین اور ادراک کی دوربین کا موجود ہونا ضروری ہے۔ بینائی میں ممد یہ اوزار جس قدر معیاری ہونگے اس قدر پل کی ہئیت اور حیثیت سے متعلق علم زیادہ ہوتا جائے گا۔
کیا پل سے متعلق جاننا ضروری ہے؟ اگر ضروری نہ ہوتا تو اس کو جاننے کی غرض سے اربوں یورو اور ڈالر کیوں خرچ کیے جاتے۔ جتنا اہم کائنات کی تخلیق سے متعلق جاننا ہے اس سے کہیں زیادہ اہم انسان کی تخلیق سے متعلق جاننا ہے جسے پل پل کرکے زندگی بتانی ہوتی ہے، پل پل ٹوٹنا اور بننا ہوتا ہے، پل پل وجود سے آگے لاوجود کی جانب سفر کرنا ہوتا ہے۔ پل درحقیقت “کن” ہے اور انسانی شعور ” فیاکن”۔ لسانی طور پر تو “کن” کہنے میں شاید سیکنڈ لگتا ہو لیکن الوہ کا کہا “کن” ایک ایسا پل ہوتا ہے کہ وہ پل جس کو انسان سمجھنے کی سعی کرتا ہے اس کا بھی کھربواں کھربواں جزو ہوتا ہوگا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو باشعور ترین مخلوق کو الٰہ کی ضرورت نہ ہوتی جس کی تلاش میں وہ زندگی تیاگ دیتا ہے یا جس کے وجود کے گورکھ دھندے سے اکتا کر بلکہ ہراساں ہو کر وہ خود الٰہ کو تیاگ دیتا ہے۔
لیکن الٰہ نہ کائنات کو خالی چھوڑتا ہے نہ انسان کے شعور کے خلیوں کو زنگ لگنے دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ کائنات پل پل ہر پل رواں دواں ہے اور انسانی شعور پل کو جاننے کی جستجو میں سرگرداں۔

Advertisements
julia rana solicitors

(ڈاکٹر مجاھد مرزا روس میں مقیم نامور مصنف، تجزیہ نگار اور دانشور ہیں۔ آپ ایک عشرے سے زیادہ عرصے تک ریڈیو “صدائے روس” اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی “سپتنک” کے ساتھ وابستہ رہ کر براڈ کاسٹر اور مترجم کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ایڈیٹر)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply