اخلاقیات اور اقدار کا جنازہ۔۔۔ایم اے صبور ملک

سوشل میڈیا پر کچھ روز پہلے  لاہور کے ایک جدید سینما گھر میں فلم چلنے کے دوران مردوخواتین کے درمیان ہونے والی قابل اعتراض اور شرمناک حرکات کی سی سی ٹی ویڈیو ز لیک ہونے کے بعد ایک ہاہا کار مچی ہوئی تھی اور اب حال ہی میں ایک ہسپتال کے کمرے کی ویڈیو منظرِ عام پر آئی ہے۔۔

یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ اس قسم کی ویڈیوز سامنے آئی ہیں،آج سے چند سال پہلے راولپنڈی کے علاقے سیٹلائیٹ ٹاؤن کی کمرشل مارکیٹ میں ایک انٹرنیٹ کیفے کے  کیبن میں کیفے کے مالک کی جانب سے لگائے گئے سی سی ٹی وی کی ویڈیوز لیک ہو نے کے بعد متعدد خواتین کو خودکشی کرنا پڑی اور چند ایک ذہنی تواز ن کھو بیٹھی تھیں،سی سی ٹی وی کیمرا ہو یا موبائل فون یا پھر خفیہ ویڈیو بنانے والا پن اور دیگر آلات ان کی وجہ سے اس وقت فر دکی نجی زندگی کو شدید ترین خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔

ابھی پچھلے ہفتے ہی لاہورہی کے ایک علاقے میں چھت پر سوئے میاں بیوی کی ہمسائے نے ویڈیو بنا لی اور انھیں بلیک میل کرنے لگا جس پر خاتون کی جانب سے اسکے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی،چھت پر سوئے میاں بیوی کی تصویر لیک کرنے کے معاملے کی حد تک تو سوشل میڈیا پر اکثریت نے براکہا اور اسکو اخلاقیات سے گِری ہوئی حرکت کہا،خود راقم بھی اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہے کہ یہ ایک انتہائی گھٹیا حرکت ہے،تصویر والا معاملہ ہو یا سی سی ٹی وی لیک ہونے کی بات،اس وقت اگر ہم سوشل میڈیا پر اس حوالے سے لوگوں کی آراء کا بغور جائزہ لیں تو دو واضح طور پر دوطبقات میں تقسیم ہوتا نظر آتا ہے،ایک طبقہ وہ ہے جس نے اس کی مذمت کی اور اس کو معاشرتی بے راہروی اور اخلاقی تربیت کا فقدان قرار دیا جبکہ دوسرا بطقہ وہ ہے جس نے کچھ ماہ قبل عورت کی آزادی کے نام پر میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگائے،یعنی دیسی لبرل،اور آج یہ طبقہ سینما ہال  اور ہسپتال میں شرمناک حرکات کرنے والے مردوخواتین کی ویڈیوز دیکھ کر سوشل میڈیا پر یہ درس دے رہا ہے کہ یہ کوئی برائی نہیں اور آزادی انکا حق ہے، ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ایک ایسی مملکت جو کلمہ طیبہ کے نام پر وجود میں آئی ہو،جس کے لئے لاکھوں ماؤں بہنوں نے اپنی عزت اور ناموس کو بچانے کے لئے کنوؤں میں چھلانگ لگا دی،وہ ملک جس کی جانب ہجرت کرتے جری جوانوں سے لے کر بوڑھے بچے تک قربان ہوگئے،وہ جو پاکستان کی جانب ایک اُمید لے کر چلے تھے لیکن راہ میں ہی شہید کردئیے گئے،ماؤں کے لعل،بہنوں کے سہاگ،اور بچوں کی ممتا چھین لی گئی،اس پاکستان میں آج وہ سب کچھ ہورہا ہے،جس کو دیکھ سن کر زبان گنگ اور آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں،موبائل فون،کمپیوٹر،سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرنے کی سب سے بڑی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے جو بچوں کوموبائل فون اور کمپیوٹر دے کر اس بات سے بے خبر ہوجاتے ہیں کہ بچے کیا کررہے ہیں،اور ان کی دلچسپی کن چیزوں میں ہے۔

ہمارے وقتوں میں لے دے کر ایک پی ٹی وی ہوتا تھا اور شب آٹھ بجے ڈرامہ دیکھنا یا صبح چاچا مستنصر کی باتوں اور کارٹون دیکھ کر سکول جاتا ہوتا تھا،بیرونی دنیا تو ایک طرف خود اپنے شہر میں ہونے والی سرگرمیوں سے بھی آگہی کا ذریعہ اخبار یا سینہ گزٹ ہوتا تھا کیونکہ ریڈیوپاکستان اور پی ٹی وی تو سرکاری خبروں کے علاوہ کچھ اور کہنا گناہ سمجھتے تھے۔لیکن آج خبر کی دنیا میں یکسر انقلاب آچکا ہے،اب ہر پل ہر لمحے کی خبر دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچ جاتی ہے،معلومات تک باآسانی رسائی اورہر قسم کے مثبت اور منفی مواد تک انٹرنیٹ کے ذریعے رسائی نے ہماری نوجوان نسل پر بہت منفی اثرات مرتب کیے  ہیں،جس کی وجہ سے آئے دن ایسے واقعات جنم لے رہے ہیں،کیونکہ ہمارے بچے اس بات سے بے خبر ہیں کہ کون سی چیز ہمارے لئے فائدہ مند ہے اور کون سی نقصان دہ،ضروری نہیں کہ بیرونی دنیا کی منفی باتوں کو اپنا لیا جائے،ہماری اپنی اقدار ہیں،لیکن ہم ان مسائل سے روایتی طریقے سے نمٹ رہے ہیں،لیکن یہ مسئلے کاحل نہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مسائل سے نمٹنے کیلئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار کیا جائے،آئے دن اخبارات میں گھر سے بھاگ جانے والی لڑکیوں کی خبریں ہوں یا پھر معصوم بچے بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات،انٹرنیٹ کیفے اور سینماہال اور کسی کی چھت سے بنائی  جانے والی ویڈیوز ہوں،یہ سب کرنے والے نہ توسارے ذہنی مریض ہیں نہ ہی جنسی بھیڑیے،اس عمل کو آزای کا نام دینا ایسے ہی ہے جیسے کسی شوگر کے مریض کو جس کی شوگر ہائی ہویہ کہہ کہ چینی یا میٹھا کھلادینا   کہ یہ اس کا حق ہے لیکن وہ چینی اسکے لئے تریاق کی بجائے زہر کا کام کرے گی،بعینہ اسی طرح معاشرتی بگاڑ اور جنسی بے راہروی کو آزادی کا نام دینا کسی طور مناسب نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ضروری  ہے کہ   والدین اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں،اپنے بچوں پر نظر رکھیں،ان کے دوستوں اور انٹرنیٹ پر ان کی دلچسپیوں کو دیکھیں، بلاوجہ گھر سے باہر رہنے والے بچے بچیوں سے پوچھا جائے کہ وہ کہاں تھے،اس سے پہلے کے بہت دیر ہو جائے،اور آزادی کے نام پر ایسی شرمناک حرکات بڑھ جائیں معاشرے کے تما م طبقات مل اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں،

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply