پروسا پورہ کا نوحہ ۔ سید مصطفین کاظمی

پشاور، میرا پشاور؛ بھلے دنوں میں یہاں کی خوشیاں اور غم سانجے تھے۔ امن و آسودگی تھی اور فضا میں محبت اور باہمی احترام تھا۔ یہ شہر مذاہب ، زبانوں اور ثقافتوں کی قوس قزح کی مانند، صدیوں تک زندگی کے رنگ بکھیرتا رہا۔ اس عرصہ میں یہاں بیشمار انقلاب آئے ہونگے لیکن میرا گمان ہے کہ یہاں کبھی زندگی کی لذتوں اور تلخیوں کا بٹوار نہیں ہوا گا ۔

وہ بھی کیا دن تھے۔ رمضان کی مہینے میں مساجد کچا کھچ بھری رہتیں، اندرون شہر کے بازاروں میں خانہ بدوش عورتیں رنگارنگ چوڑیوں کی چھابڑیاں سجا لیتیں، تراویح سے لوٹنے والے بزرگ ان ٹھیلوں کے آگے سے استغفار اور لاحول کا ورد دہراتے ہوئے گزر جاتے اور روایتی لباس میں ملبوس یہ چوڑی فروش عورتیں جوانوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتیں۔ روایت کے مطابق مسجد قاسم علی خان میں عید کا چاند ہر سال ملک بھر سے ایک دن پہلے طلوع کیا جاتا اور ہزار گز کے فاصلے پر دوسری بڑی جامع مسجد شیخاں کے مفتی صاحب وہی چاند اگلے دن شام تک ڈھونڈتے رہ جاتے ۔

محرم کے ایام میں شیعہ و سنی خواتین امام باڑوں میں شمعیں روشن کرکے غازی کے عَلم کے نیچے اپنے مردوں کی لمبی عمروں کیلئے دعائیں مانگتیں اور بچے ان عمارتوں کے سینکڑوں سال قدیم صحنوں اور دالانوں میں ادھر ادھر دوڑتے پھرتے۔ دفعتا کوئی بوڑھا ٹوک دیتا تو لمحے بھر کو خاموشی چھا جاتی مگر تھوڑی دیر بعد پھر سے ننھے منے قہقہوں کی شرارت بھری آوازیں پوری آب و تاب کیساتھ سنائی دینے لگتیں ۔ شام کو مجلس ختم ہونے کے بعد ہم شہر کے چوراہوں میں ہونے والے جلسوں میں چلے جاتے۔ رات دیر گئے تک ہمارے نانا گھر کے باہر سبیل پر بیٹھے اپنے دوستوں کیساتھ مجلس اور جلسے پر تبصروں میں یہ طے کرنے کی کوشش کرتے کہ آج شیعہ عالم نے مجلس اچھی پڑھی یا جلسے میں سنّی مفتی کا بیان بہتر تھا۔

شب عاشور ساری رات مختلف علم بردار جلوس ٹولیوں کی شکل میں نوحہ خوانی کرتے ہوئے شہر بھر کا گشت کرتے۔ ان میں ایک منفرد جلوس ہندو مذہب کے ماننے والوں کا تھا، یہ لوگ اونچے اونچے جھنڈے اٹھائے ہوئے غالبا سنسکرت میں ذکر پڑھتے ہوئے شہر کا گشت کرتے۔ البتہ یہ خاص جلوس  احتراما ہر امام بارگاہ کے دروازے تک ہوکر واپس پلٹ جایا کرتا تھا۔  عاشورہ کے دن زیادہ تر جلوس ظہر کی نماز کے بعد ہی نکلتے اور تمام مسلمان مل کر نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کا غم مناتے۔

قصہ خوانی بازار کے دوکانداروں کی کمیٹی کیلئے بارہ ربیح الاوّل سال کا سب سے اہم دن ہوا کرتا تھا اور ہفتوں پہلے تیاری شروع ہوجاتی۔ رات بھر قطار در قطار دیگوں میں چنے اور میوے کا پلاؤ پکایا جاتا اور بارہ وفات کےدن سویرے سے بازار کے بیچوں بیچ لمبے لمبے دسترخوان بچھا کر رحمتِ دوجہاں کے مہمانوں کی خوب تواضع کی جاتی۔ شام کو بڑے بازار سے جشن آمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جلوس نکلتا اور مختلف علاقوں اور تنظیموں کی الگ الگ ٹولیاں نعتیں اور قصیدے پڑھتے ہوئے سڑکوں اور بازاروں سے گزرتیں۔ ایسے میں سنی شیعہ سب لوگ، پھولوں کی پتیوں  اور عرق گلاب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقوں کا اسقبال کرتے۔ ان تہواروں پر کسی ایک مذہب کا ٹھیکا نہیں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل کی محبت کیلئے سنی یا شیعہ ہونا ہرگز لازمی نہیں تھا کہ شرط فقط شعور کی ہے ۔

۱۰ محرم ۱۹۹۲ کو شروع ہونے والے خونی فساد کو اختلاف مذہب کی بنیاد پر پشاور کا پہلا فساد کہا جا سکتا ہے ۔شہر کی کم و بیش دو ہزار سالہ تاریخ میں یہاں کئی مذاہب کے لوگ آباد  ہوئے ہونگے لیکن کسے خبر تھی کہ پہلے مذہبی فساد کا سہرا مسلمانوں کے سر سجے گا۔ عاشور محرم کے جلوس پر ایک مسجد کے برابر میں واقع مذہبی تنظیم کے دفتر سے گولیاں برسائی گئیں جس کی نتیجے میں کئی افراد زخمی اور ۸ /۱۰ شرکائے جلوس جان سے گئے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارے شہر میں فساد پھیل گیا۔ اطراف  شہر کے دیہات سے بلوایوں کو ویگنوں میں بھر کر لایا گیا، دسیوں دوکانیں لوٹی گئیں، عبادت گاہوں پر حملے کئے گئے اور باغ زہرا نامی قبرستان میں بنی تمام قبروں کو توڑ کر درختوں اور دیواروں کو آگ لگا دی گئی۔ یہ واقعات اس قدر غیر متوقع تھے کہ انتظامیہ اور شہر کے باسیوں میں سے کوئی بھی بلوائیوں سے نمنٹے کیلئے تیار نہیں تھا چنانچہ انتظام ایف سی کی سپرد کر دیا گیا۔ جوں توں کر کہ آٹھ دس دنوں بعد کاروبار زندگی بحال ہونا شروع ہوا لیکن اب شہر کی ہوا میں نفرت کی آلودگی شامل ہو گئ  تھی۔ پہلے مذاق میں کہی جانے والی باتوں کو مذاق  ہی سمجھا جاتا تھا مگر اب ہر جملے کا مطلب کہنے والے کا عقیدہ دیکھ کر نکالا جانے لگا ۔ زاتی عناد اور دشمنی میں مذہبی رنگ شامل کیا جانے لگا۔ اب پشاور صدیوں سے قائم پشاور نہ رہا تھا۔

مجھے اور میرے چھوٹے بہن بھائی کو قرآن پاک پڑھانے والی حاجیانی بی بی کے پاس مقامی مسجد سے کچھ لوگ آئے اور کہا کہ آپ شیعوں کہ بچوں کو قرآن مت پڑھائیں یہ لوگ کافر ہیں۔ ان افراد میں بی بی جی کا بھتیجا بھی شامل تھا۔ بی بی جی نے اپنے بھتیجے کو تو برا بھلا کہ کر بھگا دیا اور دوسروں کو مخاطب کر کے کہا “یہ سادات کی اولادیں ہیں اور ان کا آنا میرے گھر میں باعث برکت ہے”۔  مجھے پاس بلا کر کہا بیٹا آج کا سبق پڑھو جب میں دو ایک آیتیں پڑھ چکا تو اشارے سے روک دیا اور مسجد کے افراد سے کہا کہ  جا کر انہیں بتا دینا کہ تمہارے کافروں کو حاجیانی قرآن پڑھاتی ہے۔ میں نے گھر آ کر والدہ کو ساری روداد سنائی تو وہ پریشان ہو گئیں آگلے دن ہم قرآن پڑھنے نہیں گئے لیکن عشاء کے بعد حاجیانی بی بی شٹل کاک برقہع اوڑھے ہمارے گھر آ گئیں۔  والدہ اور ان کے درمیان کیا گفتگو ہوئی یہ تو معلوم نہیں البتہ اس کے اگلے دن ہم پھر سے قرآن  پاک پڑھنے جانے لگے ۔

اب محرم ، صفر و ربیح الاوّل کے جلوسوں اور میلاد کے جلسوں کیلئے شہر بھر کو سیل کردیا جاتا ہے ۔ شہر بھر اور اس کے اطراف میں واقع اولیا اللہ کے مزارات اور تو اور مساجد کے باہر بھی پولیس کا پہرہ بڑھا دیا جاتا ہے گویا خدا کے گھر کو خدا کے نام لیواوں سے خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ محبت کا درس دینے والے اولیا اللہ کے مزارات پر بھی عجب ظلم ہوا کہ مسلمانوں کے دو طبقوں نے ان بزرگوں کا بٹوارہ کر لیا ۔ سید حسن پیر اور قلعہ بالا حصار کی زیادتیں بریلوی اور صوفی بھائیوں کے حصے میں آئیں تو عصا سخی شاہ مردان اور تہ خانے والی زیارت اہل تشیع کا حصہ ٹھہرا؛ ایک تیسرا گروہ تو سرے سے ان قبروں کو بارود سے اڑانے کے درپے ہوگیا۔

یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں ہے شاید کہ محبت بانٹے والے کم اور نفرت کا پرچار کرنے والے زیادہ ہو گئے۔ پشاور شہر کا قدیمی نام “پروسا پورہ” ہے جس کا مطلب انسانوں کی بستی ہے۔ دو ہزار سال میں شاید پہلی مرتبہ اس شہر سے انسانیت رخصت ہو چکی۔ کیا کوئی مکالمہ پشاور کو پھر پروسا پورہ بنا سکتا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

(سید مصطفین نے وہ نوحہ لکھا ہے کہ نہ روئے بغیر لکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی پڑھا۔ بھائی مصطفین، مکالمہ ہوا تو پروسا پورہ کی وہ محبتیں لوٹیں نہ لوٹیں، شاید لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہی سیکھ لیں، ایڈیٹر)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply