اللہ اور خدا ۔ محمد شہباز منج

آج کل بعض احباب کے پیجز پر یہ بحث دیکھنے میں آ رہی ہے کہ مسلمانوں کو لفظ” اللہ” کی بجائے لفظ “خدا” استعمال کرنا چاہیے یا نہیں۔بعض لوگ اصرار کرتے ہیں کہ لفظ “خدا”شرکیہ لفظ ہے ،یا اس میں شرک کا احتمال ہے ،لہذا اسے ترک کرنا دین اور دین داری کا نہایت اہم تقاضا ہے۔چناں چہ ان کی طرف سے مختلف یونی ورسٹیوں اور ریاستی اداروں اور شخصیات کو خطوط بھی لکھے گئے کہ لفظ” خدا” کے استعمال کو ترک کیا جائے۔ انھی کوششوں کے نتیجے میں گذشتہ برس وزیر اعظم کی طرف سے لیٹر جاری ہو اکہ لفظ” خدا” شرکیہ ہے ، اسے “اللہ “سے بدلا جائے۔
کچھ عرصہ قبل ایک مدرسے کے مہتمم صاحب نے مجھے ایک پوری کتاب بھیجی جس میں لفظ “اللہ” کی بجائے” خدا” وغیرہ استعمال کرنے کے خلاف تحقیق پیش کی گئی تھی، اور قرار دیا گیا تھا کہ یہ گناہ اور شرک ہے۔ راقم سے فرمایش تھی کہ اس پر تبصرہ کیا جائے۔میں نے جو تبصرہ کیا،وہ ظاہر ہے کہ متعلقہ حضرات کو سخت گراں گزرا ہوگا،انھوں نے دوبارہ کوئی رابطہ نہیں کیا۔مذکورہ بحث اور حکومتی حکم کے تناظر میں یہ تبصرہ من و عن افادہ عام کے لیے پیش ہے:
اس کتاب کے مولف غالباً اللہ کے وہی بندے اور صاحبِ دل مسلمان ہیں ،جنھوں نے کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کا صحیفہ ہمام بن منبہ بھی صدقۂ جاریہ کے طور پر شائع کیاتھا۔زیرِ نظر کتاب میں موصوف کی تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ برصغیرکے مسلمانوں میں “اللہ” کے لیے “خدا” کا لفظ غلط طور پر رائج ہو گیاہے۔یہ لفظ پہلوی اور اوستا سے فارسی میں آیا تھا۔یہ مجوسیوں کے معبود کا نام تھا ۔مجوسیو ں کی ہر چز مکروہ اور حرام سمجھی گئی، لیکن ان کے معبود کا نام بلا تردد اپنا لیا گیا ہے؟ اس لفظ کو اللہ ،رسولﷺ اور اسلاف کی کوئی سند حاصل نہیں ۔اس بارے میں جن جن مفتیوں سے فتوے پوچھے گئے،ان میں سے خدا کے لفظ کوجائزرکھنے والوں کا بھی یہی فتوی تھاکہ افضل لفظ اللہ کے لیے اللہ ہی ہے ۔جب ہم اپنے لیے ہر چیز میں افضل کو اپناتے ہیں، تو اللہ کے لے غیر افضل کا دفاع کیوں کرتے ہیں ؟جو بزرگ پہلے یہ لفظ استعمال کرگئے،انھیں مجبور یا معذور رکھا جا سکتاہے ۔اب جب کہ اس کا ناجائز ہونا ثابت ہو گیا ہے، اس کا استعمال گناہ ہو گا۔
کتاب کے مولف ماشاءاللہ کافی صاحب حیثیت لگتے ہیں ۔صدقہ جاریہ کے طور پر شائع شدہ اس کتاب کی تعدادچار ہزار چار سو ہے۔وہ اس سے قبل کی اپنی دوسری کتابیں بھی ایسے ہی تیس چالیس ہزار کی تعداد میں شائع کر چکے ہیں ۔اور اس پر مستزاد اپنی تالیف کے حقوق بھی محفوظ نہیں رکھے اور چھپوانے کے خواہش مندوں کواپنی طرف سے مدد کی بھی پیش کش کی ہے۔کتاب خوب صورت اور اچھے گٹ اپ میں ہے۔اچھی خاصی محنت سے تیا ر کی گئی ہے۔حوالہ جات اور آخر میں کتابیات کا بھی اہتمام کا گیاہے۔بعض ضمنی مباحث ،مثلاًبرصغیر میں مسلمانوں کی آمد ،دینی تعلیم کی تاریخ،دینی مدارس کا نصاب ِتعلیم،اجماع کی شرعی حیثیت ،امام ابو حنیفہ کا اجماع و اجتھادوقیاس کا طریقہ،دلچسپ اورمعلومات افزا ہیں۔لیکن نتیجہ ؟میرے قابلِ احترم مولف برا نہ مانیں تو بہت سطحی اور سادگی کا مظہر۔
بات صرف یہ نہیں کہ خدا کا لفظ پہلوی یا اوستا سے فارسی میں آیا۔بات یہ ہے کہ یہ اردو پنجابی وغیر ہ زبانوں میں بھی یوں استعمال ہونے لگاکہ اب ان کا بھی ایک خاص لفظ بن گیا ہے۔فارسی کو چھوڑیں،اردو اورپنجابی والے بھی کسی شخص کے ذہن میں خدا سے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کا تصور نہیں آتا۔بڑی سادگی ہے کہ آپ غالب ،حالی،اقبال،بابا فرید ،وارث شاہ،میاں محمد بخش -کس کس کا نام لوں؟-کی زبان بولیں ،لکھیں اور اپنے مافی ضمیر کے اظہار کے لے استعمال کریں، لیکن ان کے محاورات واصطلاحات کو شجر ِممنوعہ بنانے کے در پے ہوں۔چلیے اللہ کو خدا نہیں کہتے، مگر خدا کو اللہ کہنے سے -کم ازکم جب تک ان بزرگوں کا کلام زندہ ہے-آپ کسی طرح جان نہیں چھڑا سکتے۔میر ے بچے مجھ سے پوچھیں گے:ان بزرگوں کاخدا،خداوند،پروردگار، یزداں کون تھا ؟میراجواب ہو گا:اللہ۔تقلید ؟نہیں ہر گز نہیں۔یہ بزرگ معصوم عن الخطا نہیں-ہاں! ان سے لاکھ غلطیاں ہوسکتی ہیں -لیکن ان کی زبان میں گفت گو کرتے ہوئے،زبان، اصطلاحات اور محاورات انھی کے معتبر ہوں گے۔یہی سبب تو ہے کہ اللہ کا پاک کلام سمجھنے سمجھانے کے لیے بھی آپ کو نہ جانے کن کن جاہل اور بےہودہ عرب شاعروں کی شاعری پڑھنا پڑتی ہے۔
مولف موصوف نے افضل والی جومنطق بیان کی ہے،وہ بھی نہایت عجیب ہے۔کیا افضل کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ اس کے علاوہ کوئی لفظ بولیں اور نہ کوئی کام کریں؟لفظ اللہ سب سے افضل ہے۔ظاہر ہے اللہ کے صفاتی ناموں سے بھی افضل۔توپھر قرآن وحدیث میں جہاں اللہ کے صفاتی نام آئے ہیں،وہاں غیرافضل کو اختیار کیا گیاہے؟میرے محترم مولف غور نہیں کر پائے کہ بات افضل و غیرافضل کی نہیں ہوتی ،سیا ق وسباقِ کلام اور زبان ومحاورات کی ہوتی ہے۔اب خدارا کی جگہ اللہ را اوربارگاہِ خداوندی یا بارگاہِ ایزدی کی جگہ بارگاہ اللہ تو وہی کہے گاجس کو زبان وبیان کی مطلق خبر نہ ہو۔
الفاظ اس کے سو اکیاہیں کہ فہم وتفہیم ِمطالب کا ذریعہ۔اگر آپ کے خدا کہنے سے لوگ اللہ ہی مراد لیتے ہیں، توآپ اپنے مقصد میں کامیاب ہیں، لیکن لوگ اللہ بھی کہیں، مگر اللہ سے اللہ مراد نہ لیں، تو بھی مشرک ہی رہیں گے۔آخر مشرکین عرب بھی تو اللہ اللہ کی رٹ لگاتے ہی تھے۔لیکن ان کو بتایا گیاکہ ان کا یہ اللہ اسی وقت قابلِ قبول ہو گاجب وہ اس کو محمدﷺ کااللہ سمجھنے لگیں گے۔
جو لفظ جس زبان میں جس تعلق سے اتنامعروف ہو جائے کہ اسے استعمال کرتے ہوئے کسی کے وہم وگمان میں بھی کوئی دوسرا مطلب نہ آئے، تو وہ اسی مطلب کا حامل بن جاتا ہے اور پچھلے معنی متروک ہو جاتے ،یا شاذ رہ جاتے ہیں ۔(یہاں میں ناظرین کی دلچسپی کے لیے عرض کر دوں کہ نماز بھی مجوسیوں کی عبادت کا نام ہے، لیکن ہمارے یہاں صلوة کے مفہوم کے لیے یہ اس قدر عام اور مروج لفظ ہے کہ خود ہمارے ممدوح مولف نے اپنی زیر ِنظر کتاب میں اس کو متعدد جگہ بلا تردد اسی مفہوم میں استعمال کیا ہے ۔اور ایسا کرنا قابلِ اعتراض بھی نہیں ہونا چاہیے کہ اب نماز سے ہمارے ہاں کسی شخص کے ذہن میں بھی مجوسیوں کی عبادت نہیں آتی۔)اگر ہر ہر لفظ ،کو اس کی Root اورOrigin کی تحقیق کے بعد استعمال کرنے کی روش اپنا لی جائے تو شاید رفتہ رفتہ آپ کو ساری زبان ہی سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔آج خدا کو چھوڑ دیں ۔کل نماز روزہ بھی چھوڑنا پڑے گا۔وعلی ھذاالقیا س۔جب فارسی ،اردواور پنجابی وغیر ہ زبانوں سے جان چھوٹ جائے گی اور صرف عربی باقی رہ جائے گی، تو پھر اس کے ہر ہر لفظ پر تحقیق کا نشتر چلائیں ۔وہاں بھی آپ لفظوں کی ایسی ایسیOriginپائیں گے کہ حیران ہوتے جائیں گے۔پھر کیا ہوگا؟ یہی! نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اللہ اور خدا ۔ محمد شہباز منج

Leave a Reply