جنت ذبح کر دی گئی ۔۔۔ عامرہزاروی

انسانیت دم توڑتی جارہی ہے. معاشرہ اخلاقی طور پہ زوال پذیر ہوچکا. رشتوں کا احساس مٹ چکا ہے. مشرقی روایات اپنا اثر کھو چکی ہیں. واعظوں کا وعظ بیکار جا رہا ہے. اہل قلم کے قلم کی جولانیاں کسی کام کی نہیں رہیں. ظلم ہے کہ روز بروز بڑھ رہا ہے. انصاف ہے کہ جنم لینے کا نام ہی نہیں لے رہا. ریاست ہے جو خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے. قانون ہے جو پیسے کے سامنے بچھ جاتا ہے. دلائل ہیں جو دولت کی چمک پہ مل جاتے ہیں. بندہ کس کس کو روئے؟؟؟؟

کاش کہ مجھے اللہ طاقت دے کہ میں طاقتوروں کو ایک ایک کرکے قتل کردوں. میں ظلم کے پجاریوں کو آگ کی بھٹی میں ڈال دوں. اہل جبہ و دستار کے شملے پھاڑ ڈالوں. انصاف کے نام پہ ظلم کرنے والوں کے پاؤں سے زمین کھینچ لوں. افسوس کہ میں بے بس ہوں. میرے پاس قلم کے علاوہ کچھ نہیں. میرے پاس درد کو لفظوں میں پرونے کے علاوہ کوئی فن نہیں. مجھے افسوس ہوتا ہے جب لوگ ظلم پہ خاموش رہتے ہیں. ظلم دیکھنے کے باوجود آنکھیں شتر مرغ کی طرح بند رکھتے ہیں. خون بہتا دیکھ کر روایتی موضوعات سے باہر نہیں نکلتے.

ادھر دیکھو !!!

یہ دیکھو !!!

ظلم کتنا عروج پا گیا ہے؟؟؟

میرے شہر ہری پور میں ایک بیٹے نے اس ماں کو تیز دھار آلے سے ذبح کر دیا ہے جس ماں نے اسے نو ماہ تک اپنے پیٹ میں رکھا. بچپن سے لے کر جوان ہونے تک اس کی انگلی تھامی. ظالم نے اس زبان کو خاموش کروایا جو اس کی حفاظت کی تسبیح پڑھتی تھی. اس نےان آنکھوں کو ہمیشہ کے لیے بند کروایا جو اس کے گھر آنے تک جاگتی رہتی تھیں
اس نے ان سفید بالوں کو سرخی میں ڈبویا جن سے رب حیا کرتا ہے. جی ہاں !!! اس ماں کا دامن خون سے تر کیا جس سے وہ بیٹے کے آنسو صاف کرتی تھی. اس نے اس دوپٹے کو لہو لہو کیا جس سے وہ بیٹے کے جوتے صاف کرتی تھی. ان ہاتھوں کو بے روح کیا جو اس کی حفاظت کے لیے بلند ہوتے تھے. اس نے ان پاؤں کی بےحرمتی کی جن کے نیچے رب نے جنت رکھی. بدبخت نے کسی اور کو نہیں بلکہ اپنی جنت کو قتل کیا ہے.

جس دیس میں جنتیں لخت جگر بیٹوں کے ہاتھوں قتل ہوں گی وہاں امن کیسے آئے گا؟ وہاں رحمتیں کیسے نازل ہوں گی؟؟؟

تم خاموش رہو گے تو یہ آگ اپنے گھر میں بھی پاؤ گے. آگ کو بجھایا جائے تو بجھتی ہے ورنہ بڑھتی ہے. جب بڑھتی ہے تو سب کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے. اس آگ کو بجھایا جائے. یہ سانحے کب تک رونما ہوتے رہیں گے. یہ ایک واقعہ ہی نہیں ایک دوسرا واقعہ ہے اور وہ بھی کل کا ہی.

یہ واقعہ شنکیاری کے مضافات میں پیش آیا. دو بھائیوں کے درمیان جھگڑا ہوا. بھائیوں کو چھڑانے کے لیے بھابی آئی تو دیور نے چھریوں کے وار سے بھابی کو قتل کر دیا. بھائی پہ بس نہ چلا تو بھابی کو مار دیا. مرد طاقتور ہوتے ہیں. طاقتوروں کا بس کمزوروں پہ چلتا ہے. عورت کمزور جو ٹھہری.

کسے نہیں معلوم کہ کمزوروں کے مقدر میں موت ہی ہوتی ہے. میں نے یہ بھی سنا کمزور رحم دل بھی ہوتے ہیں اور عورت ماں کے روپ میں ہو، بیوی کے روپ میں ہو یا بیوی کے روپ میں، یہ رحم دل ہی ہوتی ہے. قدرت نے اسے سچے رشتے دے کے پیدا کیا ہے. پرائی لڑائی میں رحم دل عورت مار دی گئی.

عورت نہیں جوان لڑکی جس کی شادی کو صرف چار ماہ ہوئے. خدا جانے رحم مارد میں کیا تھا بچہ تھا یا بچی؟؟ بہرحال جو بھی تھا مرگیا.

Advertisements
julia rana solicitors

وہ قیامت کو یہ سوال کرے گا مجھے کس جرم کی سزا دی گئی؟ مجھے کیوں وقت سے پہلے مارا گیا؟ مجھے دنیا میں آنے سے پہلے ہی کیوں واپس بھیج دیا گیا؟ یہ سوال جب ہوں گے تو کوئی نہیں بچے گا. اہل قلم، اہل علم، شعور والے، فتور والے، سبھی سوچ لیں. کیا جواز ہے اس ظلم پہ خاموش رہنے کا؟؟؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply