گری ہے جس پہ کل بجلی ۔ راشد احمد

فرض کیجئے کہ آپ تھرپارکر کے پیاسے صحرا میں رہتے ہیں جہاں میلوں دور تک پانی کا نام ونشان نہیں ۔ ریت میں دھنس دھنس کے شدید دھوپ میں لمبا سفر طے کر کے آپ ایک کنوئیں تک پہنچتے ہیں جس کا پانی نمکین اور مضر صحت ہے،مگر یہی پانی آپ اور آپ کے خاندان کی سانسیں ٹوٹنے نہیں دیتا۔یہی پانی آپ کے لئے آب حیات ہے۔فرض کریں آپ سارا سال محنت مزدوری کرکے کچھ رقم جوڑتے ہیں اور کئی کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرکے شہر پہنچتے ہیں اورصحرا کی دھوپ سے بچنے کے لئے ایک جھونپڑی بنانے کا سامان خریدتے ہیں اورگاوں پہنچ کرایک کٹیا تعمیر کرتے ہیں جس کی چھاوں شاید ایک گھنے پیڑ سے بھی کئی گنا کم ہے۔فرض کریں آپ کی اس کٹیاکا کل سرمایہ وہ ایک مانگی ہوئی چارپائی ہے جس پرآپ جنگلی درندوں کا خوراک بننے سے بچانے کے لئے اپنے بچوں کو سلاتے ہیں اور خود ریت اوڑھ کر سو جاتے ہیں۔

آپ نے جو فرض کیااور آپ نے جو کٹیا تعمیر کی اس کے بارہ میں عرض ہے کہ وہ جل کر خاکستر ہوچکا ہے۔ جھونپڑا،مانگی ہوئی چارپائی،صدیوں پرانے ’بستر‘ چار برتن اور دوخواب۔یہ سب بے رحم شعلوں کی نذر ہوچکا ہے۔آپ بے سروسامانی کی حالت میں اب ریت ہی اوڑھیں گے اور ریت ہی پہنیں گے۔ گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا ہی آشیاں کیوں ہو۔ آپ اور آپ کے بچے اس جلے ہوئے جھونپڑے کو حیرت،حسرت اورنم آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔رات کہاں سوئیں گے۔کھائیں گے کیا۔بے بسی اور بے کسی کے سوا شاید اس تصویر کو کوئی اور نام نہ دیا جا سکے۔

وسیع وعریض صحرا کی ٹھنڈی ہوتی رات میں بغیر کچھ کھائے پیئے اور بے سروسامانی کی حالت میں آپ کو اگر کوئی بتائے کہ جناب آپ جس علاقے میں رہتے ہیں اسے صوبہ سندھ کہا جاتا ہے ۔آپ تو خواہ مخواہ پریشان ہورہے ہیں آپ کے شاہوں اور زرداریوں کے پاس آپ پر خرچ کرنے کے لئے صرف ’’این ایف سی‘‘ کی مد میں آٹھ سو ارب روپے ہیں تو آپ کی کیا کیفیت ہوگی؟کیا آپ کی بھوک ختم ہوگی۔کیا آپ کی جھونپڑی دوبارہ تعمیر ہوگی۔کیا آپ کے بچوں کو کھانا مل جائے گا؟۔جواب ٹکا سا ہے کہ نہیں۔تعمیر تو دور کی بات آپ کے گاوں سے ورے اس بات کی کسی کو خبر ہی نہیں کہ آپ کا سرمایہ جل گیا ہے۔آپ کے بچے بھوکے مریں یا آپ کی بیوی پریشانیوں سے جنگ ہارکر کسی ویران اندھے گہرے کنویں میں چھلانگ لگار کر جان کی بازی ہار جائے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔جمہوریت ہو یا آمریت آپ کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی۔آپ کا کام بس وڈیروں اور نوابوں کی خدمت ہے اورجئے بھٹو کے فلک شگاف نعرے لگانا ہے۔

یہ تھر کے ایک گھرانے کی کہانی ہے وگرنہ تو گھر گھرایسی ہی داستانیں ہیں۔بیس ہزار مربع کلومیٹر کے اس پیاسے ویران اداس صحرا میں چہار سو بھوک پیاس اور موت کی داستانیں ہیں۔چمن میں ہر طرف بکھری پڑی ہے داستاں میری۔کبھی اس صحرا میں تھریوں کو اپنی جان سے پیارے مورجیسے پرندوں سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اور کبھی بھوک ان کے بچوں کو نگل جاتی ہے۔تھر میں بھی بس بھٹو کی زندگی کے آثار ہی نظر آتے ہیں۔عام آدمی کی زندگی شاید جانوروں سے بھی بدتر ہے کہ جانوروں کو اپنے بچوں کی روزی روٹی کی فکر نہیں ہوتی۔
آخری فرض یہ کریں کہ آپ کو اعدادوشمار کے زور پر یہ بتا یا جائے کہ مملکت خداداد اقتصادی لحاظ سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔فلاں ریٹنگز میں ہماری پوزیشن پہلے سے بہتر ہے۔یہ ہورہا ہے۔وہ ہورہا ہے۔وہ کررہا ہے۔یہ کررہا ہے۔ترقیاتی کام زوروں پر ہیں۔شاہراہیں تعمیر ہو رہی ہیں۔معاہدے ہو رہے ہیں۔سروے پر سروے ملک میں خوشحالی کی نوید دے رہا ہے۔ریاست کا بجٹ کھربوں میں ہے مگر افسوس ان میں سے کوئی بھی آپ کے جلے ہوئے جھونپڑے کو تعمیر کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتااور اگر آپ نے ان سیاستدانوں کے خلاف کوئی بھی بات کی تو آپ جمہوریت اور ملک دشمن کہلائیں گے اس لئے چپ رہیں۔جمہوریت بہترین انتقام ہے۔رہے نام اللہ کا۔

Advertisements
julia rana solicitors

(راشد احمد ایسا صحرا نشیں ہے جو پانی دھونڈتے دھونڈتے سچ کی تلاش میں نکل پڑا۔ راشد کی تحریر میں صحرا کی اداسی بھی ہے، اور سچ کی پیاس بھی۔ ایڈیٹر)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”گری ہے جس پہ کل بجلی ۔ راشد احمد

  1. تھر کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے ان کے کرب س وہی واقف جس نے اس کوچے کا پانین پیا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ تھر کی خشک سالی پر سینڑل اے سی کمروں میں بیٹھ کر منرل واٹر ستے حلق تر کرنے والے کیا جانے کڑوے حلق جلا دینے والے زندگی بخش پانی کی اہمیت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

  2. تلخ حقائق… جن سے آنکھ چرانا کسی باضمیر کیلئے ممکن نہیں…

    استاد جی فرماتے ہیں

    یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں
    عدو کے ہو لیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو

    اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

Leave a Reply