محبت کی عادت کو کسیے چھوڑا جائے ؟۔۔ڈاکٹر محمد شافع صابر

جان ِ جاں! آج کتنا عرصہ ہو گیا تمہیں دیکھے ہوئے، تم سے بات کیے ہوئے تو صدیاں بیت گئیں! آج بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو ہمارے درمیان تعلق تھا، اس کو کیا نام دیا جائے؟ میرا آج بھی ماننا ہے کہ ہمارا تعلق پلیٹ فارم پر ٹرین کا انتظار کرنے والے دو مسافروں کا سا تھا، جن کی منزلیں مختلف تھیں، راستے جدا تھے جو صرف کچھ دیر تک ساتھ رہے تھے، میں  نے تمہیں یہ بات بتاتا تھا  اور تم یہ بات ہنس کر ٹال دیا کرتی تھیں !

اب میری سٹوڈنٹ لائف تو ختم ہو چکی، عملی زندگی میں قدم رکھ چکا ہوں، میرے جاننے والوں کے بقول مجھ میں کافی بدلاؤ آ چکا ہے۔کالج میں ہر وقت ہنسنے والے نے سنجیدگی اپنا لی ہے۔بات بات پر ہنسنے والا، اب زیادہ خاموش سا رہتا ہے ۔ تمہیں ہمیشہ میرے دوستوں سے مسئلہ ہوتا تھا، تم گلہ کرتی تھیں کہ میں انہیں تم سے زیادہ فوقیت دیتا ہوں، اب تو دوستوں کے ساتھ کم ہی رابطہ ہوتا ہے، اب تو مہینوں ان سے بات ہی نہیں ہوتی، اگر تم پاس ہوتیں تو تمہارا یہ گلہ کم ہو جاتا!

دسمبر کی آخری راتوں میں، تم اپنے کالج کے ہاسٹل کے لان میں بیٹھ کر ساری رات مجھ سے فون پر بات کیا کرتی تھیں ، مجھے اس فون کال  کی اتنی عادت ہو گئی ہے کہ اب بھی ٹھیک اسی وقت موبائل ہاتھ میں پکڑ لیتا ہوں کہ کب سکرین پر تمہارا نام چمکے گا اور ہم کبھی نہ  ختم ہونے والی باتیں کریں گے، لیکن میں پر امید ہوں کہ باقی عادتوں کی طرح یہ بھی چھوٹ جائے گی!

میرے شب و روز ویسے ہی ہیں، سارا دن تو ڈیوٹی میں گزر جاتا ہے، تم سے بات کیے بنا مجھے نیند نہیں آتی تھی، آج بھی وہی کیفیت ہے، کروٹیں بدلتا رہتا ہوں لیکن سو نہیں پاتا۔ کبھی میں سوچتا ہوں کہ کاش میں نے یہ وعدہ نہ کیا ہوتا کہ میں کبھی سگریٹ نہیں پیوں گا، تو ہر شب سگریٹ میرا سہارا ہوتی!

میرے کولیگ مجھ سے گلہ کرتے ہیں کہ میں ان سے کم باتیں کیوں کرتا ہوں، میں انہیں کیسے بتاؤں کہ میری باتیں تو گھومتی ہی تمہارے گرد تھیں، تم نہیں تو بات کرنے کا دل ہی نہیں کرتا، بس بیٹھا بیٹھا کہیں کھو سا جاتا ہوں۔

اب تو کچھ نیا لکھنے کو بھی دل نہیں کرتا، جو بھی لکھتا تھا، وہ سب سے پہلے تم پڑھتی تھیں، تم ہی میری ایڈیٹر تھیں، جو تحریر تمہیں پسند آتی تھی وہی میری پسندیدہ ہوتی تھی، اب بے دلی سے لکھتا ہوں۔۔لکھتا ہوں۔۔ کاٹ دیتا ہوں ۔۔۔پھر لکھتا ہوں۔۔یہی  مشق  جاری رہتی ہے!

اب اگر کبھی موقع ملے تو واک کے لیے چلا جاتا ہوں، تمہاری گلی جانے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی، سوچتا ہوں اگر تم سے آمنا سامنا ہو گیا تو دونوں کو شرمندگی ہو گی، میں تمہیں خود سے نظریں چراتا برداشت نہیں کر پاؤں گا۔

لوگ اکثر مجھ سے  تمہارے بارے میں پوچھتے ہیں، میں انہیں کیا بتاؤں؟ میرے پاس وہ الفاظ ہی نہیں ہوتے، جو میں انہیں تمہارے متعلق بتا سکوں، بس ہنس کر ٹال دیتا ہوں، یہی سوال میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہمارا تعلق کیا تھا؟ اگر کبھی تمہیں فرصت ہو تو، اس سوال کا جواب سوچنا اور مجھے لازمی بتانا!

مجھے معلوم ہے کہ ہم دونوں آگے بڑھ چکے ہیں، دونوں اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہیں، لیکن میں اکثر سوچتا ہوں کہ اس بے نام رشتے کو خوبصورت موڑ دیکر نہیں ختم چاہیے تھا؟ جدائی کا فیصلہ تو ہم دونوں کا متفقہ تھا، لیکن اس افسانے کے اختتام کو تو ہم خوبصورت بنا سکتے تھے، بدقسمتی سے ہم یہ بھی نہ  کر سکے اور یہ ہم دونوں کی ناکامی ہے!

میرا دل کہتا ہے کہ تم آج بھی ہاسٹل کے لان میں بیٹھ کر سردیوں کی دھوپ کا لطف لیتی ہو، پہلے تم اسی دھوپ میں بیٹھ کر مجھے خط لکھا کرتی تھیں، اب شاید تم خط تو لکھتی ہو، لیکن مجھے نہیں کسی اور کے نام لکھتی ہو!

مجھے معلوم تھا کہ ہماری منزلیں جدا جدا ہیں، میں نے پھر بھی اس رشتے کو نبھانے کی اپنی پوری کوشش کی، بات تب بگڑی، جب سچ کی جگہ جھوٹ نے لی  ، اگر تم جانا چاہتی تو میں تمہیں کبھی نہ  روکتا، لیکن جب رشتوں میں جھوٹ آ جائے، تو تعلق کھوکھلے ہو جاتے ہیں، شاید ہمارا رشتہ بھی ایسا کھوکھلا تھا جسکی بنیاد ہی ایک فریب اور جھوٹ تھا!

Advertisements
julia rana solicitors london

اب میں صرف اس سکون کی تلاش میں ہوں، جس سے میں تمہاری یادوں سے چھٹکارا پا سکوں، مجھے یہ ماننے میں کوئی عار نہیں، علیحدہ ہونے کے باوجود بھی، میں تم سے نفرت نہیں کر پایا، میں نے تو نفرت کرنا سیکھا ہی نہیں تھا۔محبت تو شاید ہم دونوں کی ہی جھوٹی تھی، لیکن مجھے تمہاری عادت ہو گئی تھی، اب عادتیں اچھی ہوں یا بُری۔۔بھلا کب چھوٹتی ہیں ۔۔۔ لیکن میں ہمیشہ کی طرح پُرامید ہوں کہ میں خود کو تمہاری عادت سے چھڑوانے سے کامیاب ہو ہی جاؤں گا۔

Facebook Comments