• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • امیر تیمور سیف اسلام با گردن اسلام۔مختصر جائزہ/ایم کاشف۔۔۔دوسری،آخری قسط

امیر تیمور سیف اسلام با گردن اسلام۔مختصر جائزہ/ایم کاشف۔۔۔دوسری،آخری قسط

پہلی قسط: سیف السلام با گردن اسلام۔۔۔۔۔امیر تیمور/ایم کاشف

تیمور اعظم۔ کرسٹوفر مارلو کا ہیرو۔ٹیمبرلین دا گریٹ۔ سینٹرل ایشیا سے اٹھنے والا آخری عظیم فاتح، چنگیز کا اعلانیا وارث، غازی السلام و سیف اسلام (خود کو دیے ہوئے لقب)، ملک الموت۔ بربادی کا بے مثال دیوتا۔ اس مقبرے   پر لکھا ہے۔ “جب میں زندہ ہوں گا تو دنیا کانپ اٹھے گی”

“When I rise from the dead, the world shall tremble”.

دنیا میں سب زیادہ رقبہ چنگیز خان نے فتح کیا۔ وہ اڑتالیس لاکھ ساٹھ ہزار مربع میل رقبے کا فاتح تھا۔ سکندر اعظم بیس لاکھ اسی ہزار میل رقبے کا فاتح تھا۔ امیر تیمور، دنیا کا تیسرا بڑا فاتح، نے بیس لاکھ، اٹھارہ ہزار مربع میل علاقے کو فتح کیا۔ 1363 میں وہ چغتائی خانیت کا سب سے طاقتور جنرل تھا۔ اتنا طاقتور کہ  سلطنت کا خان کون ہو گا، یہ تیمور طے کرتا تھا۔ 1370 سے شروع ہو کر 1405 میں اپنی وفات تک اسلامی کیا، ساری موجود دنیا کا سب سے طاقتور حکمران و امیر تھا۔ تیموری سلطنت آج کے  آذربائجان، ترکمانستان، ایران، پاکستان، افعانستان، جارجیا، ارمینا، ترکی، جنوبی روس، دہلی تک بھارت کا علاقہ۔ عراق، شام، سعودی عرب کا شمال علاقہ، کویت و امارات وغیرہ۔ سارا سینڑل ایشیا اور چین کا کاشغر تک کا علاقہ، پر مشتعل تھی۔

امیر تیمور ہر شہر میں سے ہنرمندوں، شاعروں، اور مصوروں وغیرہ کو عام آبادی سے علیحدہ کرتا، باقی سب کو قتل کر ڈالتا۔ تیمور نے اپنے پینتیس سال اقتدار میں سترہ لاکھ افراد کو براہ راست قتل کر دیا، جو اس وقت کل دنیا کی آبادی کا پانچ فی صد تھا۔ صرف دو شہروں شیزار اور اصفہان میں 90 ہزار سے انسانی سروں کے مینار بنائے۔ وہ اپنی حکمرانی کے مسلسل 35 سال مصروف جنگ رہا۔
تیمور شطرنج کا شاندار کھلاڑی تھا۔ اس کے دربار میں پروفیشنل شطرنج کے کھلاڑی ہوتے تھے جو اس کے ساتھ شطرنج کھیلتے تھے۔ کہتے ہیں تیمور ہر جنگ کو شطرنج کی بساط کے مطابق لڑتا تھا۔ دنیا کے تمام بہترین گاریکر سمرقند میں تھے۔ اس کا دربار سائنس دانوں، شاعروں، اور دنیا کے بہترین منیجروں پر مشتمل تھا۔ اور سمرقند دنیا کا محور۔

تیمور کی اکثر فوج کو باقاعدہ تنخواہ ملتی تھی۔ اس کی فوج ہر وقت اس کے ساتھ ہوتی تھی۔ وہ کبھی کبھار اپنے دارالحکومت سمرقند سے دو دو تین تین سال دور رہتا۔ اتنی بڑی فوج کے ساتھ وہ جہاں بھی پڑاؤ  کرتا، اس پاس کے تمام گاؤں ختم ہو جاتے، ان کا مال مویشی، اس کا لشکر استعمال کرتا۔ ایک لاکھ فوج کو مصروف رکھنا اور تنخواہ دینا ایک بہت بڑا کام تھا۔ اس لئے وہ اکثر لشکر کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی شہر کو تباہ کرنے پر تلا رہتا تھا۔ ہر دس ہزار پر ایک جنرل تمن تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس کے پاس سترہ تمن دار جنرل تھے۔

فوج کی تنظیم کا سارا کام غیر فوجی یعنی “بلڈی سویلین منیجروں” کے سپرد تھا۔ تیموری فوج کا بڑا حصہ تیروں کی  بارش کرنے والے گھڑ سوار تھے۔ یہ تکنیک خاص منگول تھی جو چنگیز خان کا خاصہ تھا۔ جنگ عظیم دوئم میں کام ہٹلر نے اپنے ٹینکوں سے کیا۔
تیمور ماحصرہ کرنے کا بھی بے مثال ماہر تھا۔ ماحصرہ شروع کرتے ہی وہ شہر پر لگاتار تیروں، آگ لگانے والے تیر اور گولے، اور پتھرو کی بارش شروع کر دیتا۔ اس کام کے لئے علیحدہ سے باقاعدہ فوجی یونٹ تھے۔ جو قلعے زیادہ بلندی پر ہوتے وہ ان کی  بنیادیں کھود کر ان میں پانی بھر دیتا، اکثر قلعے اس طریقے سے مکمل منہدم ہو جاتے اور ساری آبادی بھی اس بوجھ تلے دب کر مر جاتی۔ وہ اکثر لکڑی کے بڑے پلیٹ فارم بناتا جو قلعے کی دیوار سے ذرا اونچے ہوتے۔ ان پر موجود تیر انداز صبح شام شدید تیر اندازی کرتے۔ اس کے سامنے کوئی بھی قلعہ دو، تین ماہ سے زیادہ نہیں ٹھہر سکا۔

بڑے میدان میں جنگ تیمور کو بہت پسند تھی۔ قلعہ ہو یا میدان تیمور کے سامنے ہر جنگی چال بے بیکار تھی۔ بڑے میدان میں جنگ کرتے وقت وہ ہمیشہ اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کرتا مرکز، دایاں اور بایاں حصہ۔ وہ ہمیشہ مرکز کے پیچھے اونچی جگہ اپنے منگول سرداروں کے ساتھ ہوتا۔ اس کی فوج اکثر  آٹھ سے دس میل چوڑائی میں ہوتی تھی۔ وہ ہمیشہ میدان جنگ میں پوزیشن اپنی مرضی کی حاصل کرتا۔ وہ انتہائی شدید اور فیصلہ کن حملہ کرنے کا حامی تھا۔ ایک ہی وقت میں پانچ ہزار گھڑ سوار، ہر ایک کے پاس دس تیر، اس کے بعد ایک پانچ ہزار بمعہ دس تیر، پھر ایک اور۔ عام طور پر  دوسری فوج اس پہلے ہلے کو ہی برداشت کرنے  کی سکت نہیں رکھتی تھی۔۔۔۔۔۔ ڈیڑھ لاکھ تیر ایک گھنٹے میں، ابھی بے شمار انفنٹری دشمن کو  مار ڈالنے پر تلی ہوتی تھی۔

تیمور ہر دفعہ اپنی پوری مہم کا شیڈول پہلے سے تیار کرتا۔ پھر اس کے مطابق فوجی تیاری کرتا۔ تیمور پروپیگنڈے کا ماسٹر تھا۔ اس کے جاسوس پہلے سے دوسرے شہر پہنچ جاتے اور خوف و ہراس پھیلا ڈالتے۔ وہ اکثر عین جنگ کے وقت بھی دشمن سرداروں کو خرید لیا کرتا تھا۔ وہ صرف بادشاہ ہی نہیں، ساتھ میں اس کی سلطنت کو بھی ہمیشہ  کے لئے ختم کر ڈالتا۔ ہندسوتان میں تغلق اور منگول گولڈن ہورڈ اس کی مثالیں ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کی قسمت اچھی تھی جو اس کے ورثا کو تیمور نے بخش دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جون 1941 میں سابقہ سویٹ یونین کے دور میں تیمور کے مقبرے کو کھولا گیا۔ قبر کے سنگ مر مر کے اوپری حصے کو کاٹا گیا۔ مقبرے کے اندر لکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔ جب میں دوبارہ زندہ ہوں گا، تو دنیا کانپ اٹھے گی۔۔۔۔۔ جب اس کی میت والا خانہ کھولا گیا تو اس کے اندد لکھا تھا۔ “جو کوئی بھی میرا مقبرہ کھولے گا اس پر مجھ سے بھی زیادہ خوفناک آفت حملہ آور ہو گی” لاش نکالنے کے ٹھیک تیسرے دن ہٹلر نے روس پر تاریخ کا سب سے خونی حملہ آپریشن بارباروسا شروع کیا۔ اس کی لاش کے مکمل پوسٹ مارٹم اور جائزے کے بعد نومبر 1942 میں تیمور کو اسلامی طریقے اور بطور حکمران سرکاری اعزاز کے ساتھ دوبارہ دفن کیا گیا۔ اسے دفنانے کے  ٹھیک تیسرے دن جرمن فوج نے سٹالن گراڈ کی جنگ میں ہتھیار ڈال دیے۔ آج تیمور ازبکستان کا قومی ہیرو ہے اور وہیں دفن ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply