ناگفتی۔۔۔۔۔ محمد خان چوہدری

گُزرے ہیں عشق میں،ایسے بھی امتحاں
ہار کے تو ہارے، جیت کر بھی ہارے

یہ تقریباً حقیقت میں ہوا واقعہ لگتا ہے !

ناگفتنی۔۔۔

صوبیدار انکل نے اپنی بیٹھک میں
میرے سامنے والے صوفے پے بیٹھتے ہوۓ کہا،

بیٹا آپ نذیر ملک کو جو آپ کا کلاس فیلو تھا
کتنا جانتے ہیں،

میرے لئے  یہ سوال اتنا غیر متوقع  تھا
کہ میں نے ان کے چہرے کو غور سے دیکھا
جہاں خلاف معمول اتھاہ  سنجیدگی اور متانت تھی،

انکل ویسے بڑے بذلہ سنج تھے،
اور میرے منہ سے مری ہوئی  آواز میں صرف “جی” نکلی
تو وہ بولے،
وہ ایف اے میں بھی تمہارے ساتھ تھا
اور اس نے ایم اے بھی تمہارے ساتھ ہی لاہور سے کیا ہے
اور اب یہاں کالج میں لیکچرار ہے،

میں نے اپنے حواس مجمتمع کر کے جواب دیا،
جی وہ میرا اچھا دوست ہے

بولے، اس کا رشتہ آیا ہوا ہے  ذکیہ کےلیے

میں اور تمہاری آنٹی تو مطمئن ہیں

لیکن بیٹی نے تمہاری آنٹی کے  ذریعے مجھے کہلوایا ہے
کہ میں تم سے اس بارے میں پوچھ لوں،

اب انکل کی نگاہیں میرے چہرے  پر  جمی تھیں
اور میں صوفے کے ایج پر بیٹھا
اپنے پاؤں  دیکھ رہا تھا،

اور میرے سامنے کالج کے دو سال تھے

ذکیہ، نذیر اور میں کلاس فیلو تھے،
ہمارا ٹیوٹوریل گروپ بھی ایک تھا،
اس کے گروپ لیڈر کا الیکشن میرے اور نذیر کے درمیان ہوا،
دونوں کے بارہ بارہ ووٹ برابر تھے،
ذکیہ لیٹ آئی  تھی
اور اس نے ووٹ مجھے دیا
تو میں منتخب ہو گیا

کلاس میں میرا اور نذیر کا مقابلہ رہتا
ڈیبیٹ ہو، تقریر یا بیت بازی
آخر میں ہم دونوں ہی مقابل رہتے
اور لڑکیوں میں سے ذکیہ ہمیشہ میری طرفداری کرتی ،

کالج سے واپسی پر  ہم آگے پیچھے ہی گھروں کو واپس آتے
اور بازار کے متوازی زگ زیگ گلیوں سے گزرتے
آخری چوک پر  دوستوں اور سہیلیوں سے جدا ہوتے
تو  ذکیہ اور میں آخری گلی میں ساتھ ساتھ ہی ہوتے
کہ ہمارے گھر اسی گلی میں تھے،

ایک دن جب میں نے نئی یونیفارم،
سرخ کوٹ ،گرے پینٹ اور نئے  پمپی شوز پہنے ہوۓ تھے
کلائی  پر  کیمی گھڑی بھی باندھی تھی
تو اسی گلی میں میرے آگے چلتے
ذکیہ بالکل آہستہ ہو گئی  اور میں اس سے آگے نکلا
تو میں نے ماشااللّہ کی آواز بھی سنی،

انکل مجھے سوچ میں ڈوبا دیکھ کے اٹھتے ہوۓ بولے ،
میں تمہاری آنٹی کو تمہارے آنے کا بتا دوں
اور چاۓ کا کہہ کے آتا ہوں
اور وہ ڈیوڑی کی طرف سے اندر چلے گئے

تو اچانک بیٹھک کا صحن کی طرف کا دروازہ کھلا،
اور ذکیہ اندر داخل ہوئی
، سلام کیا اور کہا،
خان سوچ کے راۓ دینا۔۔۔

اور وہ واپس چلی گئی،

مجھے ایسے لگا کہ میں کسی کنویں میں گر گیا ہوں اور ڈوبنے لگا ہوں،

یہ احساس کہ اتنے واضح اظہار کے باوجود
میں نے کبھی  ذکیہ کے جذبات کو
سمجھنے کی کوشش ہی نہیں  کی،
اور وہ اپنی سوچ میں اتنی مستحکم
کہ اپنے رشتے کے لیے  بھی میری راۓ کی منتظر،

اچانک دل اور دماغ نے
آپس میں بحث شروع کر دی،
دل کا اصرار کہ یہی موقع ہے !
اور دماغ کی وارننگ کہ
تم اس عظیم ہستی کے قابل ہی نہیں،

کشمکش اتنی شدید کہ دم گھٹنے لگا
سانس رکنے لگی،

وہ تو اچھا ہوا کہ انکل واپس آگئے
اور ساتھ آنٹی بھی چائے کی ٹرے اٹھائے  آگئی

مجھے چائے  کا کپ پکڑاتے ہوئے  بولیں ،
پُتر دعا کر ہم اس فرض سے فارغ ہو جائیں،
ذکیہ کی عمر گزرے جا رہی ہے،
نذیر تو اچھا لڑکا ہے ،
کیونکہ وہ تمہارے جیسے ہونہار بچے کا دوست ہے،
سرکاری کالج میں پروفیسر ہے،
اتنا پڑھا لکھا
اور شریف آدمی آج کل مشکل سے ملتا ہے،

آنٹی نے اور کیا کہا یاد نہیں،
میں نے گرم چائے  حلق میں انڈیلی
اور کپ ٹرے میں رکھتے ہوئے،

بڑی مشکل سے بس اتنا کہا،
اللہ آپ لوگوں کو یہ رشتہ مبارک کرے

اور اجازت لے کے باہر نکلا

تو مجھے ہر طرف نذیر نظر آرہا تھا
قہقہے لگاتا ہوا  یہ کہہ رہا تھا،،

خان جی کالج کی بازی جیتنا
اور بات تھی
اور یہ زندگی کی بازی ہارنا !
اور بات ہے،

Advertisements
julia rana solicitors london

دسو ہُن سواد آیا،
کمینہ !
اپنا یہ ڈائیلاگ ابھی تک بھولا نہیں  تھا، جو کالج میں اکثر بولتا تھا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply