مدارس کے بچوں کو لبرل ہوکر سوچیے

ٹامس ایڈیسن نے ایک دن سکول سے واپسی پر اپنی ماں کو ایک بند لفافہ تھمایا اور بتایا کہ اس کے استاد نے ہدایت کی ہے کہ یہ اپنی ماں کو دے دینا۔ ماں نے لفافہ کھول کر چٹھی پڑھی تو آبدیدہ ہوگئی۔ لیکن تھی سمجھدار۔ اس نے چٹھی کو پڑھنا شروع کیا: آپ کا بیٹا ایک جینئس ہے۔ ہمارا سکول اس کے لیے بہت چھوٹا ہے، اور ہمارے پاس اتنے اچھے استاد نہیں ہیں کہ اسے پڑھا سکیں۔ آپ اپنے بچے کو خود پڑھائیں۔ چٹھی کا مضمون اصلًا اس کے برعکس تھا۔ سالہا سال گزر گئے۔ والدہ کی وفات کے بعد ایک روز ایڈیسن اپنے خاندان کے پرانے کاغذات ڈھونڈ رہا تھا کہ اسے سکول والی چٹھی ملی۔ لکھا تھا: آپ کا بیٹا انتہائی غبی و کند ذہن ہے۔ ہم اسے اپنے سکول میں مزید نہیں رکھ سکتے۔ اس دن ایڈیسن نے اپنی ڈائری میں لکھا: ٹامس ایلوا ایڈیسن ایک کند ذہن بچہ تھا لیکن ایک عظیم ماں نے اسے صدی کا سب سے بڑا سائنسدان بنا دیا۔
کچھ یہی صورتِ حال مذہبی مدارس میں پڑھنے والے بچوں اور پڑھانے والے اساتذہ کی ہے۔ کیسے؟ جواب کے لیے نیچے کی سطریں پڑھ لیجیے۔
میں آج کل ملتان میں ہوں، جہاں خوش قسمتی سے وفاق المدارس کا مرکزی مدرسہ خیر المدارس موجود ہے۔ میں خاموشی سے کبھی کبھار یہاں چلا آتا ہوں اور نماز پڑھ کر واپس ہو لیتا ہوں اور اس دوران میں کچھ غیر معروف طلبہ و اساتذہ سے مل ملا لیتا ہوں۔ نیز ملتان ہی میں جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی جامعہ، میری مادرِ علمی، بہاء الدین زکریا یونیورسٹی بھی ہے۔ یہاں بھی آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ان دونوں seats of learning میں کچھ باتیں اور کچھ دکھ مشترک محسوس ہوئے۔ آج ان کا بہت مختصر اور اجمالی ذکر کرنے کا موقع بن گیا ہے۔
زکریا یونیورسٹی میں ہزاروں بچے پڑھ رہے ہیں۔ ہر کلاس میں کچھ بچے بہت اچھے ہوتے ہیں اور یہی استاد اور ادارے کی پہچان بنتے ہیں۔ یہاں بالکل ایسا ہی ہے۔ البتہ بیشتر بچوں کی صورتِ حال ناگفتہ بہ ہے۔ ماں باپ بچے کو آئن سٹائن بنانے کے لیے پڑھانے بھیجتے ہیں لیکن وہ آغا وقار سے زیادہ کچھ نہیں بن پاتا۔ پڑھائی ختم ہوتے ہوتے کئی لاکھ روپے پھونکے جا چکے ہوتے ہیں۔ پھر یہ بچے واپس دور دراز قصباتی قسم کے شہروں میں پہنچ جاتے ہیں اور وہاں سے نوکریوں کی درخواستیں بھیجنا شروع ہو لیتے ہیں۔ دو دو تین تین سال یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور انٹرویوز کے لیے بڑے شہروں کی طرف جانا آنا۔ ماں باپ الگ روتے ہیں کہ اتنی پڑھائی کے بعد بچہ اب دکان کھیت میں بھی کام نہیں کرسکتا۔ رفتہ رفتہ ایک انجینئر 500 روپے دیہاڑی پر الیکٹریشن کا کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اور یہ آنکھوں سے دیکھا کہ ڈپلومے والا بچہ اس کام میں زیادہ کما لیتا ہے۔ یہی حال سائنس کے بیشتر مضامین کے بچوں بچیوں کا دیکھا۔ ایک لیکچر کے 200 روپے لے کر بھی پڑھانے کا بیگار کرنے پر بچے بچیاں مل جاتے ہیں اور حد یہ کہ اس کے لیے سفارشیں تک کراتے ہیں۔ ان بچوں بچیوں کی علمیت بھی ایسی ہی ہے۔ شعبہ صحافت سے ماسٹرز ڈگری لے لینے والے بچے بچیاں صحافت کی اصطلاحات دایاں بازو اور بایاں بازو تک کے بارے میں کچھ نہیں جانتے البتہ یہ باتیں فرفر بتاتے ہیں کہ ریحام خان نے طلاق سے پہلے آخری رات کپتان کو کتنے تھپڑ مارے تھے اور کن الفاظ میں اس کی پیڑھیوں کے درجے بلند کیے تھے۔ ایک صحافت ہی نہیں، بیشتر شعبوں کا یہی حال ہے۔ یونیورسٹی سے بے سمت بے ہدف بچوں بچیوں کے ریوڑ کے ریوڑ نکل رہے ہیں۔ جتنا وقت اور پیسہ برباد ہو رہا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر والدین کی امیدیں امنگیں مسمسا ہو رہی ہیں، اس پر دل مسوس کے رہ جاتا ہوں۔
اس گمبھیرتا کا مکمل حل میرے پاس کوئی نہیں۔ ذہن میں بہت کچھ سوچتا ہوں۔ کوشش کرکے بچوں میں تبلیغی گشت کے بعد گپ لگانے کے لیے بیٹھتا ہوں اور کچھ نہ کچھ کیریر پلاننگ کرا دیتا ہوں۔ ہزاروں تو نہیں لیکن سیکڑوں بچے بچیاں رابطے کرتے ہیں اور اگلی dose مانگتے ہیں۔ یہ بچے بچیاں ہمارا بے حد قیمتی قومی اثاثہ ہیں جن پر ہمارے بے شمار قومی و ملی وسائل خرچ ہوئے ہیں۔ اس اثاثے کو ضائع ہونے سے بچانا بھی قومی ذمہ داری ہے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ یہ کچھ سوچنے والا میں اکیلا نہیں ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے برادرم مولوی علی طارق تشریف لائے تھے اور وہ بھی بالکل اسی موضوع پر یہی باتیں کر رہے تھے۔ اللہ خیروں کی شکلوں کو وجود دے۔
اب آئیے مذہبی مدارس کی طرف۔ یونیورسٹی سے اگر آئن سٹائن کی جگہ آغا وقار نکل رہے ہیں تو مدرسے میں بے شمار آغا وقار اپنے علم و فن پر ایمان لائے ہوئے ہیں۔ ان کا گھڑا ان کے لیے جامِ جمشید ہے۔ ان کے نزدیک اہلِ حق صرف وہ ہیں جن سے ان کے مدرسے کے موجودہ کرتا دھرتاؤں کے خوشگوار تعلقات ہیں۔ لہجے کی تلخی پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے لیکن یہ اعتراف کرنا واجب ہے کہ یہاں جو بھی خرابی ہے اس میں قصور صرف اور صرف ہم مسلمانوں کا ہے۔ یونیورسٹی کا بچہ سائنس پڑھ کر تشکیک سیکھتا ہے تو مدرسے کا بچہ اپنی نصاب کی کتاب کے لکھے پر ایمان لے آتا ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مدرسہ والے انجینئر ڈاکٹر کیوں پیدا نہیں کر رہے وہ زیادتی کرتے ہیں۔ ان شعبوں کے لوگ پیدا کرنا مدرسے کی تعلیم کا مقصد و محور ہی نہیں ہے۔ نماز اور قرآن و حدیث پڑھانے کے لائق افرادِ کار مہیا کرنا مدرسے کا کام ہے، اور سارے ہی فرقوں کے مدراس یہ کام کر رہے ہیں۔
ان چار دیواریوں سے نکلنے والی produce کی کوالٹی پر بات کی جا سکتی ہے اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کوالٹی میں بہت کمی ہے، لیکن کوالٹی کنٹرول ڈپارٹمنٹ جو خوش قسمتی سے عصری اداروں کے تعلیم یافتگان اور صحافیوں سمیت ہر پاکستانی ہے، کوالٹی کو بہتر بنانے کے بجائے نقائص کی تشہیر اور پراڈکٹ کی تنقیص ہی کو کافی خدمت سمجھتا ہے۔ افسوس یہ لوگ محض تنقید و تنقیص کو کام سمجھتے ہیں۔
میں اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہوں کہ دین صرف مدارس میں نہیں پایا جاتا۔ مدارس محض تعلیم گاہیں ہیں اور اصل مستعمل دین وہی ہے جو مدارس کی چار دیواری سے باہر موجود ہے۔ لیکن یہ خیال درست نہیں ہے کہ مدارس بند کر دینے سے دین کو نقصان نہیں ہوگا۔ یونیورسٹی کالج بند کر دینے سے جو نقصان عصری تعلیم کا ہوگا مدرسے بند کرنے سے وہی حرج دینی تعلیم کا ہوگا۔
علمِ دین کی تعلیم میں آنے والے بچے اچھے کھاتے پیتے گھروں کے بھی ہوتے ہیں اور نادار مفلسوں کے بھی۔ ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ مدارس میں عام طور سے ہمارے غریب ملک کا غریب ترین طبقہ پڑھتا ہے اور بیشتر بچوں کے والدین ان کی پرورش نہ کر سکنے کے سبب انھیں مدرسے میں چھوڑ جاتے ہیں۔ ان کو روٹی کپڑا بھی مدرسے سے ملتا ہے۔ یہ بچے یہاں دین کی تعلیم لے کر جاب مارکیٹ میں آتے ہیں اور مارکیٹ میں ان کے مناسب ملازمتیں نہیں ہیں۔ مدرسے سے فراغت کے بعد امیروں کے بچے تو اپنے کاروبار سنبھال لیتے ہیں اور اچھی بزنس سینس کی وجہ سے مالدار طبقے میں اور اچھی یافت والے علاقوں اور طبقوں میں کام کرتے ہیں۔ یوں یہ لوگ معاشرے کے سوادِ اعظم کا حصہ بن کر کارآمد شہری بن جاتے ہیں۔ غریب کا بچہ، البتہ، تعلیمِ دین کے بعد بھی رلتا پھرتا ہے۔ ماں باپ یہ سمجھتے ہیں کہ علمِ دین کی تعلیم پانے کے بعد ہر بچہ طارق جمیل بن جائے گا، لیکن یہ ہوتا نہیں ہے۔
معاشرے میں انسانوں کو برابری کے مواقع دینے کا پرچار کرتے میرے لبرل سیکولر دوست اگر اس پسماندہ درماندہ طبقے کو صرف انسان سمجھ کے ان کے معاشی اور سماجی مسائل پر غور کریں تو بہت مہربانی ہو۔ بخدا ان کے بھی والدین ہیں جنھوں نے ان پر اپنی مقدور بھر سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور ان کے اپنے بڑھاپے کا سہارا بننے کی امیدیں لگا رکھی ہیں۔ مدرسوں کے ان بچوں اور ان کے والدین کے ساتھ بھی پیٹ لگے ہیں جو روٹی ہی سے بھرتے ہیں۔ ان کو بھی چہارم سہی لیکن معاشرے میں درجہ ملنا چاہیے۔ کاش کوئی ایسی صورت ہوجائے کہ یہ ہنر سیکھ کر کم سے کم وہی کام کرلیں جو آپ کے کارخانوں اور کارگاہوں کے مزدور کرتے ہیں۔
مدرسے کے ان بچوں کے لیے اگر صحت مندانہ سرگرمیاں پیدا نہیں کی جاتیں اور مناسب روزگار مہیا نہیں ہوتا تو جو بھی شخص انھیں ہمدرد بن کر کسی الٹے سیدھے کام میں جوت لیتا ہے تو یہ اس کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔ اس کا خمیازہ پورا سماج بھگتتا ہے، وہی سماج جس کا طبقہ اشرافیہ آپ حضرات ہیں۔ آگے حدِ ادب!!

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply