درد کے جواز کے کھونے کا درد

اے پڑھنے والے……!
ایک نیار خلجانی ہوا کرتا تھا وہ لمحہ موجود میں بھی ہے وہ جو ساعتیں گزری ہیں ان میں بھی تھا. وقت کی وہ اکائی جسے سال کہئے اسی اکائی کا نصف گزرتا ہے جب نیار خلجانی نے اپنا آپ منکشف کیا تھا. وہ اکتشاف تھا انکشاف نہیں تھا. میں نے اسے کھوجا تھا….
کون ہے جو مجھ میں کرلاتا ہے
ڈار سے بچھڑی کونج کی طرح اندر کی خلا میں اڈاریاں بھرتا ہے.
وہ میں ہی تھا جس نے اسے اپنی خالی ، بے نور نظروں کی سرابی شعاعوں کو آبشاری لہریں باور کرائی تھیں .
وہ اس دن آبشار کے فریب میں پہلی بار میری یک فردی نشست کو اپنی دوسراہٹ سے سنگت بناتا تھا.
اس دن کے بعد سے وہ بے ترتیب ملاقاتیں اپنی ترتیب میں رکھتا ہے
نیار خلجانی کے سامنے میں لفظ جیسے بے وقعت ذریعہ اظہار سے کچھ فائدہ نہیں لیتا کہ اس کا احتیاج نہیں رہتا. وہ میری روح کے پیچ و خم اور میرے دماغ کے متفرق حصوں کے مابین رابطہ کرتی برقی لہروں میں مخفی مراسلے تک پڑھنے پر قادر ہے. تب ایسے میں لفظ کس قدر بے حیثیتا بن جاتا ہے.

خیال کی اطلاقی حیثیت میں ارسال اور حصول پر گفت گو کا اطلاق اگر اہل لغت جائز سمجھتے ہیں. تو کہئے گا جو آج “گفت گو” ہوئی وہ درد پر ہوئی..
درد…..!
شاید یہ قرنوں قبل کا وقوعہ ہے میں نے تب چکھا تھا کہ درد کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے…
وہ ہر ذوق اور مذاق پر فائق تجربہ تھا.
درد دھیرے دھیرے مساموں سے رستا ہوا درد
درد آسے پاسے کو آہستگی سے اجیالتا درد
درد دھیرج سے مہاندرے پر لیپ پوتتا درد
درد چیختا چلاتا، زلزلے بپا کرتا چنگھاڑتا درد
درد پرشور ندی کی طرح تمام فکر و نظر کے نتائج کو خس و خاشاک کرتا درد
درد گھن گرج کے ساتھ بدن کی مٹی کو دلدل سا ڈباؤ کرتا، برستا ہوا درد
درد دھیمی آنچ پر دل و جگر کو دم پخت کرتا درد

درد رے درد تیرے کتنے روپ……

وہ درد جب میرے گزر جانے پر، اس زمین میں میرے وجود کو ایک نئی شکل میں باقی رکھنے والی میری پانچویں اولاد کے نہ رہنے پر میرے قریب بھی نہ پھٹکا تو مجھے خود سے اور اپنی بے حسی سے ایک گھناؤنی نفرت ہونے لگی تھی.
وہ درد جب ماں نہ رہی تو میں اس کی، درد کی غیر موجودگی پر شرمسار تھا
وہ درد ایک دن کسی مزار پر دھمال ڈالتی جوگن کی طرح میری رگ و پے میں ناچنے لگا تھا یہ تب ہوا تھا جب بیٹی پر موت نے اپنے پنجے کس لئے تھے.
ہاں میں اس دن جانا تھا کہ درد سفاک بھی ہوتا ہے
وہ درد اب جب ماں نہ رہی اور جب جب میں تھک کر پسینہ پونچھتا ہوں تو پسینے کی مہکار سے درد کی مہک پھوٹتی محسوس ہوتی ہے.
وہ درد جب بیٹا کسی نئے لفط سے آشنائی کی معصوم خوشی میں مجھے شریک کرتا ہے تو گزرے ہوئے بیٹوں کے تمام کرب اندر دھماکے کرنے لگتے ہیں.

وہ درد پچھلے کئی دن سے کسی مضبوط اور مستحکم بنیاد سے بے نیاز ہوکر میرے وجود کے پانیوں میں اہرام کھڑے کررہا ہے.
تم نہیں جانتے… تم جان ہی نہیں سکتے کہ یہ سمجھنے کا نہیں برتنے کا عذاب ہے درد بے جواز ہونے کا درد جانکاہ ہوتا ہے.

بہت دور سے دل کے وسیع خطے کی کسی تاریک اور دور دراز غیر آباد کوہساروں کے کسی گھور غار سے ایک صدائے خفی، بہت ہی غور سے سنی جائے تو صدا کی مدھم چاپ کہہ رہی ہے
ارجع الی ربک
ارجع الی ربک

آنکھ دیکھے گی نقش کھینچے گی
درد نقشہ تراش ہے ہی نہیں

لمس چھونے سے سیکھ لیتا ہے
درد سیکھا ہوا مبصر ہے

ذائقہ اک جہانِ حیرت ہے
درد ہی کیف وکم بتاتا ہے

سامعہ پردہ تفکر ہے
درد چوکھٹ پہ بیٹھا بچہ ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

سونگھنا بو کا پہلا منصف ہے
درد انصاف سے تہی فاتح

Facebook Comments

شاد مردانوی
خیال کے بھرے بھرے وجود پر جامہ لفظ کی چستی سے نالاں، اضطراری شعر گو

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply