عنا یت اللہ التمش،جنگی وقائع نگار۔۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

ایک شخص جو اسلام اور پاکستان کی محبت میں جیا اور اسی کی طرف دعوت دیتے دیتے اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہو گیا ۔

عنایت اللہ مغربی پنجاب کی سطح مرتفع پوٹھوہار کے معروف شہر (اس وقت کا گاؤں) گوجرخان میں یکم نومبر، 1920ء کو پیدا ہوئے۔ راجپوت برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ التمش تخلص استعمال کرتے تھے۔

عنایت اللہ جس دور میں پیدا ہوئے اس وقت پوٹھوہار کا یہ علاقہ تعلیم سے کوسوں دور تھا۔ خال خال لوگ پرائمری پاس نظر آتے تھے۔ انگریز کا اصل مقصد اس علاقے کو تعلیم سے دور رکھ کر فوج کے لیے جوان حاصل کرنا تھا۔

اسی شہرت کی وجہ سے یہ علاقہ مارشل ایریا بھی کہلواتا ہے۔ تاہم عنایت اللہ نے اس دور میں بھی گوجرخان کے مقامی اسکول سے تعلیم حاصل کی اور قریب قریب 1936ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔

1936ء میں مَیٹْرِک پاس کرنے کے بعد عنایت اللہ اپنے علاقے کی روایات کے عین مطابق فوج میں بھرتی ہو گئے۔ چونکہ اس دور کے مطابق ان کی تعلیمی قابلیت زیادہ تھی اس لیے وہ رائل انڈین آرمی میں بحیثیت کلرک بھرتی ہوئے۔ انہوں نے 1939ء تا 1945ء کی دوسری عالمی جنگ میں حصہ لیا۔

وہ اس انفنٹری ڈویژن کے دستوں میں شامل تھے جو برما کے محاذ پر داد شجاعت دے رہی تھی۔ 1944ء میں عنایت اللہ جاپانی فوجوں کے ہاتھ چڑھ گئے اور جنگی قیدی بنا لیے گئے۔ آنے والے اگلے دو سال ان کی زندگی کے تلخ ترین تجربات تھے۔ 1944ء کے برساتی مہینوں کے کوئی دن تھے جب وہ جاپانیوں کی قید سے فرار ہوئے۔

تقریباً ڈیڑھ سال وہ زندگی کی تلاش میں جنگلوں، بیابانوں، ساحلوں، سمندروں اور جزیروں میں گھومتے، بھٹکتے پھرتے رہے۔ 1946ء کے اوائل میں وہ دوبارہ اپنے دستوں سے آن ملے۔ مگر ابھی ان کی زندگی میں سکون نہیں تھا۔ اب کی بار ان کے دستوں کو ملایا کی طرف پیش قدمی کا حکم مل چکا تھا جہاں انڈونیشیا اور ملائیشیا کے عوام اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ مذہبی حمیت اور اسلامی بھائی چارے کے تحت عنایت اللہ 1946ء میں انگریز کی فوج کے بھگوڑے ہوئے اور ملایا کی جنگ آزادی میں جا شامل ہوئے۔

زبان زد عام نعرے “مردیکا” اور “مسلم سمہ سمہ” اسی دور کی پہچان ہیں۔ اگلے ڈیڑھ سال وہ ملایا کی گوریلا جنگ آزادی لڑتے رہے۔ اس دوران ہندوستان تقسیم ہو چکا تھا اور ان کا آبائی وطن پاکستان بن چکا تھا۔

ملایا کی آزادی کے بعد تمام مسلمان بھگوڑے فوجیوں کو حکومت پاکستان نے اپنا شہری تسلیم کر لیا یوں عنایت اللہ 1948ء کی پہلی سہ ماہی میں تقریباً 9 سال کے بن باس کے بعد اپنی سرزمین پر واپس پہنچے۔ فوج کی نوکری سے تو وہ پہلے ہی فارغ کر دئیے گئے تھے مگر 1948ء میں 28 سالہ عنایت اللہ پاکستان ائیر فورس میں بطور کارپورل بھرتی ہوگئے۔ اس وقت کی نوزائیدہ فوج کو تجربہ کار منتظمین کی ضرورت تھی اور عنایت اللہ 9 سال جنگ کی بھٹی میں گزار کر کندن بن چکے تھے۔

وہ پاکستان ائیر فورس کے اس اولین دستے میں شامل تھے جنہوں نے پشاور میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو سلامی پیش کی تھی۔

پاک فضائیہ سے سبکدوش ہونے کے بعد عنایت اللہ نے قلم سنبھالا۔ بحیثیت صحافی اپنے کیرئیر کا آغاز ماہنامہ سیارہ ڈائجسٹ سے کیا۔ جلد ہی وہ سیارہ ڈائجسٹ کے مدیر بن گئے۔ اس وقت ان کی شہرت ایک معمولی افسانہ نویس کی تھی۔ چند ایک ریڈیو اور ٹی وی کے ڈرامے ان کے کریڈٹ پر تھے۔ اس دوران انہوں نے سیارہ ڈائجسٹ کے خاص نمبر نکالنے کی طرح ڈالی۔ یہ صحافتی ادوار میں ایک یادگار اضافہ ثابت ہوا۔

جنگ ستمبر (پاک بھارت جنگ 1965ء) نے عنایت اللہ کو لافانی شہرت بخشی۔ جنگ ستمبر نے ملکہ ترنم نور جہاں (گلوکارہ)، ڈاکٹر رشید انور اور مرحوم عنایت اللہ کو حب الوطنی کا لازوال کردار بنا دیا۔ میڈم نورجہاں نے جنگی ترانوں اور ملی نغموں کا محاذ سنبھالا، ڈاکٹر رشید انور پنجابی زبان کے شاعر تھے جنہوں نے ترانے لکھنے کا ذمہ اٹھایا اور سب سے مشکل محاذ پر عنایت اللہ روانہ ہوئے۔

ماضی کے گوریلا فوجی نے کاغذ اور قلم سنبھالا اور محاذ جنگ پر جا پہنچے۔ ایک ایک میدان جنگ کو کھنگالا، ایک ایک بیرک میں گئے، ایک ایک ہڈی کو چن کر اس کی داستان کا سرا جوڑنے کی کوشش کی اور گمنام سپاہیوں کی داستان شجاعت کو عوام کے سامنے امر کر دیا۔

محاذ جنگ پر داد شجاعت دیتے سپاہیوں اور افسروں کو مکالموں، جنگی چالوں کو بہترین پیرائے میں بیان کرنے اور مفصل جنگی تجزیوں نے ایک عام افسانہ نویس کو وقت کا بہترین جنگی وقائع نگار بنا دیا۔

جنگ ستمبر کے موضوع پر جلد ہی منظر عام پر آنے والی کتابوں بی آر بی بہتی رہے گی، لاہور کی دہلیز پر اور بدر سے باٹاپور تک نے انہیں عالمگیر شہرت بخش دی۔ آج بھی جہاں جنگ ستمبر کا ذکر آتا ہے، وہاں عنایت اللہ مرحوم کے تجزیوں کو سب سے زیادہ مستند سمجھا جاتا ہے۔

جنگ ستمبر ختم ہو جانے کے بعد بھی عنایت اللہ اگلے دو سال تک پاک فوج کی بیرکوں میں گھومتے رہے اور جنگ کی داستانوں کو اکٹھا کرتے رہے۔ اس بنیاد پر ان کے سیارہ ڈائجسٹ کے منتظمین سے اختلافات ہو گئے۔ وہ کھل کر کام کرنے کے عادی تھے چنانچہ انہوں نے سیارہ ڈائجسٹ کو خیر باد کہہ کر ماہنامہ حکایت کی بنیاد رکھی۔

معروف مصنف طارق اسماعیل ساگر نے، جو عنایت اللہ کے شاگردوں میں سے تھے، بعد میں سیارہ ڈائجسٹ کی ادارت سنبھالی۔ یہ عنایت اللہ التمش کی کرشمہ ساز و سحر انگیز شخصیت تھی جس نے 70 اور 80 کی دہائیوں میں ماہنامہ حکایت کو پاکستان کا مقبول ترین پرچہ بنا دیا تھا۔

وہ دن میں اٹھارہ گھنٹے لکھتے تھے۔ سچی اور حقیقی زندگی کی کہانیوں کی تلاش میں انہوں نے ملک کے طول و عرض کا سفر کیا اور اردو ادب کو افسانے کی نئی جہتوں سے متعارف کروایا۔ ماہنامہ حکایت کے مختلف سلسلوں کے لیے وہ خود نت نئے ناموں سے لکھتے تھے۔

مثلاً تاریخی سلسلہ وار ناولوں کے لیے انہوں نے عنایت اللہ، التمش اور وقاص کے نام چنے۔ افسانے اور چاردیواری کی دنیا سے ملنے والی کہانیاں وہ عنایت اللہ، مہدی خاں یا گمنام خاتون کے نام سے لکھتے۔ نفسیات کے سلسلے کے لیے وہ میم الف تھے۔ جاسوسی کہانیوں کے لیے وہ احمد یار خان بن جاتے جبکہ شکاریات کے سلسلے کو چلانے کے لیے ان کا قلم صابر حسین راجپوت کے نام سے کہانیاں تراشتا۔

دلچسپ ترین امر یہ تھا کہ ان کے لاکھوں قارئین دو دہائیوں تک احمد یار خان اور صابر حسین راجپوت کے دیوانے رہے اور عنایت اللہ مرحوم کے جیتے جی وہ یہ نہ جان پائے کہ یہ ایک ہی شخصیت کے دوسرے روپ ہیں۔

عنایت اللہ مرحوم ایک خاموش ادبی طوفان تھے۔ ان دنوں وہ لاہور کے محلے گڑھی شاہو کی ایک تنگ و تاریک گلی میں کرائے کے مکان پر رہتے تھے۔ یہ مکان حاجی کے مکان کے نام سے مشہور تھا جو ایک ہو میوپیتھک ڈاکٹر تھے۔ ان کے داماد اردو ادب کے ایک صاحب طرز ادیب محمد منشا یاد تھے، وہ جب کبھی بھی ان سے ملنے آتے، ایک جملہ ضرور کہتے تھے کہ رات کے جس بھی پہر آو، اس گلی کے دو مکانوں کی مدہم روشنی جلتی نظر آتی ہے۔ ایک چوہدری انور ایڈووکیٹ کی اور دوسری عنایت اللہ کے گھر کی۔

صاحب طرز حقیقت نگار و افسانہ نگار ہونے کے باوجود وہ تاعمر افسانہ نویسوں کی دنیا میں اجنبی رہے۔
ماہنامہ حکایت کی بنیاد رکھنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے مکتبہ داستان پرائیویٹ لمیٹیڈ پٹیالہ گراؤ نڈ لاہور کی بھی بنیاد رکھی۔ ان کی تمام کتابوں کی طباعت و اشاعت اور ماہنامہ حکایت کی اشاعت اسی ادارے کے تحت ہوتی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی ادب کے لیے وقف کر دی تھی، چنانچہ ان کی کتابوں کی قیمتیں ارزاں ترین ہوتی تھیں۔ مکتبہ داستان کی کتابوں کی اس دور میں الگ پہچان تھی۔

ہلکے پیلے رنگ کا کارڈ پر چھپا ہوا مخصوص سرورق اور مخصوص کاغذوں پر ہاتھ کی کتابت سے چھپی ہوئی کتاب، جس کی قیمت کبھی 7 روپے ہوتی اور کبھی 23 روپے۔ تا عمر ان کی کتابیں اسی ادارے سے چھپتی رہیں۔ لاہور کے معروف پبلشرز نے انہیں بہت بھاری بھاری پیشکشں کیں مگر وہ اپنے اصولوں پر قائم رہے۔

ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے شاہد جمیل نے دوسرے پبلشرز کے ساتھ ان کی کتابوں کے کاروباری معاہدے کیے اور یوں مکتبہ داستان اپنے ازلی اختتام کو پہنچا، مگر 20 سال کے عرصے میں عنایت اللہ کے ساتھ ساتھ حکایت اور مکتبہ داستان نے بھی لازوال شہرت حاصل کی۔

16 دسمبر 1971 کو جب پاک فوج پابجولا ڈھاکہ کی پلٹن گرائونڈ میں کھڑی تھی تو شاید عنایت اللہ مرحوم ان نمایاں لوگوں میں سے ایک تھے جنہیں “سقوط مشرقی پاکستان” ایک نوشتۃ دیوار لکھا نظر آ رہا تھا۔

انہوں نے سقوطِ ڈھاکہ کے بعد “تحریکِ تکمیلِ پاکستان” کی بنیاد رکھی جس کا مقصد ان عوامل کی فکری سطح پر ترویج تھی بحیثیت قوم پاکستانیوں کو مجموعی طور پر ناسور کی طرح چاٹ رہے تھے۔ افسوس کہ اس تحریک کو بعد میں چند سیاستدانوں نے یرغمال بنا لیا اور عنایت اللہ صاحب اس سے خاطر خواہ نتائج نہ حاصل کر سکے تاہم ماہنامہ حکایت کے توسط سے وہ مسلسل بھارتی ثقافتی یلغار کے خلاف مضبوط آواز بلند کرتے رہے۔

اگر مجموعی طور پر ان کے ادبی کارہائے نمایاں کی بات کی جائے تو بلاشبہ وہ پہلی شخصیت ہیں جو اردو قارئین کو بدیسی کہانیوں کے چُنگل سے نکال کر حقیقی معاشرے کی تلخ حقیقی کہانیوں کی طرف لائے جو ان کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ شرلاک ہولمز، جم کاربٹ اور نک ویلوٹ کے قصے پڑھنے والے صابر حسین راجپوت، احمد یار خان اور عنایت اللہ کی داستانوں کے سحر میں مبتلا ہوگئے جس کا ایک ثبوت داستان ایمان فروشوں کی، بی آر بی بہتی رہے گی اور شمشیرِ بے نیام کا مسلسل تیسری نسل میں مقبول ہونا ہے

عنایت اللہ کی تصانیف ایک نظر میں
تاریخی ناول/داستانیں

حجاز کی آندھی

شمشیرِ بے نیام (دو حصے)

اور نیل بہتا رہا (دو حصے)

دمشق کے قید خانے میں

اور ایک بت شکن پیدا ہوا (پانچ حصے)

داستان ایمان فروشوں کی (پانچ حصے)

ستارہ جو ٹوٹ گیا

فردوس ابلیس (دو حصے)

اندلس کی ناگن

امیر تیمور (ترجمہ)

مجرم یا جنگ آزادی کے ہیرو

شکاریات

لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

سانپ، سادھو اور نوجے کی کہانی

پگلی کا پنجہ

ایک لڑکی دو منگیتر

بیٹا پاکستان کا بیٹی ساہو کار کی

بھیڑیا، بدروح اور بیوی

جذبات کا سیلاب

لاش، لڑکی اور گف کے گناہگار

قبر کا بھید

نفسیات

زندہ رہو جوان رہو

جوانی کا روگ

معاشرتی ناول/کہانیاں/چادر چاردیواری

پاکستان ایک پیاز دو روٹیاں

چھوٹی بہن کا پگلا بھائی

چاردیواری کے دریچوں سے

طاہرہ

مردتو میں ہوں / میرا تیسرا خاوند

میں بزدل تو نہیں/وہ مر گیا تم زندہ رہو

پتن پتن کے پاپی

الجھے راستے

ہیرے کا جگر

منزل اور مسافر(دو حصے)

استانی اور ٹیکسی ڈرائیور

پانچویں لڑکی

کیا میں کسی کی بیٹی نہیں؟

ایک کہانی (دو حصے)

اکھیاں میٹ کے سپنا تکیا

چاردیواری کی دنیا

رات کا راہی (دو حصے)

واجدہ، وینا اور وطن (دو حصے)

ڈوب ڈوب کر ابھری نائو

جرم، جنگ اور جذبات

میں گناہگار تو نہیں

پرچم اڑتا رہا

پیاسی روحیں

پیاسے

سزا اس گناہ کی

ایک آنکھ اور پاکستان

دھندلی راہیں (دو حصے)

تاریک اجالے

جوانی کے جنگل میں

جرم و سزا/سراغرسانی کی کہانیاں

جب بہن کی چوڑیاں ٹوٹیں

کالا برقعہ جل رہا تھا

حوالات میں طلاق

لائن پر لاش

دوسری بیوی

داستان ایک داماد کی

روح کے رشتے اور مقتول کی بدروح

دام میں صیاد آ گیا

جب مجھے اغواء کیا گیا

پیارکا پل صراط

چور دروازہ

ایک رات کی شادی

رات کا راز

تعویذ، انگلیاں اور انگوٹھی

بھائی اور بھیڑیا

سنگیتا، شراب اور سگریٹ

بیٹی کی قربانی

واردات اس رات کی

چڑیا پھنس گئی

جب پیار نے کروٹ لی

جائداد کا وارث

رتن کمار کی روپا

آشرم سے اس بازار تک

دلیر یا بیوقوف

سندری کا سودا

جھمکوں کی جوڑی

کار، شلوار اور دوپٹہ

بال ایک چڑیل کے

جنّات کے دربار میں

قاضی کی کوٹھڑی اور کنواری بیٹی

بن بیاہی ماں

سہاگ کا خون

زلیخا کا جن

عشق ایک چڑیل کا

رات، ریل اور برقعے

پیار کا پاپی

جنگی کہانیاں/وقائع نگاری/ناول

بی آر بی بہتی رہے گی

بدر سے باٹا پور تک

دو پلوں کی کہانی

خاکی وردی لال لہو (دو حصے)

فتح گڑھ سے فرار

لاہور کی دہلیز پر

پاک فضائیہ کی داستانِ شجاعت

لہو جو ہم بہا کر آئے

ہماری شکست کی کہانی

طنز و مزاح

ایوبی، غزنوی اور محمد بن قاسم پاکستان میں

پھوپھی گام

عنایت اللہ نے تا عمر قلم سے وفا کی۔ آپ صبح سویرے بعد از فجر حکایت کے دفتر تشریف لے آتے اور رات گئے تک مسلسل لکھتے رہتے۔ بے انتہا لکھنے اور مسلسل سگریٹ نوشی نے ان کو بہت نقصان پہنچایا۔ وہ پرانے زمانے کا سخت ترین سگریٹ برانڈ “کیمل” استعمال کیا کرتے تھے اور بے تحاشا سگریٹ پھونکا کرتے تھے۔ یہ سگریٹ برانڈ پورے لاہور میں صرف ایک دکان پر پایا جاتا تھا اور وہ بھی عنایت اللہ صاحب کی وجہ سے یہ سگریٹ منگوایا کرتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

1999ء کے آغاز میں عنایت اللہ فالج کے حملے کا شکار ہو کر بستر کے ہو گئے مگر تحریر سے اپنا ناطا تب بھی نہ توڑ سکے۔ عارف محمود ان کے پاس بیٹھ کر لکھا کرتے تھے اور وہ مسلسل لکھوایا کرتے تھے۔ آخر کار سال بھر کی طویل علالت کے بعد اردو ادب کا یہ بہترین تاریخی ناول نگار اور پاکستان کا اکلوتا جنگی وقائع نگار 16 نومبر، 1999ء کو لاہور میں عالم فانی سے عالم بقا کی طرف روانہ ہوا۔ مرحوم کی عمر 79 سال تھی۔

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply