والدین محافظ ہیں حکمران نہیں۔۔۔عفت نوید

کل اسکول میں والدین اوراستادوں کی ملاقات کا اہتمام کیا گیا ۔ اس ملا قات کا اہتمام سال میں دو مرتبہ کیا جا تا ہے ۔ اس موقع پر والدین کے ان کے بچوں کی مختلف مضامین میں کارکردگی سے متعلق ان کی دلچسپی کے مختلف انداز نظر آتے ہیں ۔ کچھ والدین کے بچوں کے مارکس میں کمی پر ان کی سرزنش اور جابرانہ روئیے نے مجھے اس تحریر پر اکسایا ۔ 
والدین کو فطرت کی طرف سے اولاد کی نگہبانی کے فرائض سونپے گئے ہیں ۔ مگر کچھ بچوں کو والدین کے نام پر ایسے حکمران میئسر آتے ہیں جنہیں خود بھی نہیں معلوم کہ وہ اولاد کی خوشی چاہتے ہیں یا ان کی ترقی ، ان کی صحت یا کا میابی ۔اولاد کے بہتر گریڈ اور ہر مضمون میں بہتر کارکردگی کے لیے کچھ والدین بچوں کی زندگی سے ان کا بچپن یوں چھین لیتے ہیں کہ بچہ سہما رہتا ہے نہ اس کے دماغ میں ٹیچر کی ہدایت سماتی ہے نہ نصابی سوالات یا د ہو تے ہیں ۔ ایسے بچے والدین کے درشت روئیے کو اسکول میں اپنے درشت سلوک سے ظاہر کرتے ہیں ، کمزوروں سے لڑنا جھگڑنا ، استاد سے بد تمیزی ، جھوٹ اور غلط بیانی ان کی ذات کا حصہ بن جا تی ہے ۔
والدین کا بچوں سے سلوک اور امتحان اور تعلیمی میدان میں ان کی ترقی سے جڑی باتوں میں ان کی شدت پسندی کے مظاہرے ، ان کے بچوں کی امتحانی کارکر دگی جانچنے کے لیے والدین اور ٹیچر کی باہمی ملاقات کے مخصوص دن دیکھنے میں آتے ہیں ۔
ان ملاقاتوں میں والدین کے رویوں کے آئینے میں ان کے بچوں کی شخصیت کو آسانی سے پرکھا جا سکتا ہے ۔ وہ والدین جو اپنے بچوں کی اچھی ، بہت اچھی یا بری کار کردگی بر بھی مطمعین نظر آتے ہیں۔ ٹیچرز سے تمیز سے بات کرتے ہیں ۔ اپنے بچوں کو کسی مضمون میں خراب کار 
کر دگی پر ٹیچر کے سامنے نہیں جھڑکتے ان کے بچوں کی شخصیت میں اعتماد، شگفتگی ، مزاج میں دھیمہ پن اور اظہار کی بہترین صلاحیت پائی جا تی ہے ۔ بچوں کے بہتر گریڈ کے لیے ہیجان ذدہ والدین اپنے بچوں کو بھی ہیجان میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔ بچوں کی شخصیت بری طرح مسخ ہو جا تی ہے ۔ 
ایسے بچے اپنی ماں یا باپ سے پہلے تو خوف ذدہ رہنے کے باعث ان سے دور ہو تے چلے جا تے ہیں ۔ پھر یہ دوری ان سے نفرت میں تبدیل ہو جا تی ہے ۔ ایسے جابر حکمرانوں سے غلام نفرت ہی کیا کرتے ہیں ۔
آخر یہ بات والدین کو کب سمجھ آئے گی کہ ان کا بچہ خاص ہے ۔ اور اگر وہ کسی مضمون میں بہتر کار کردگی نہیں دکھا سکا تو یہ فطری بات ہے ۔ تمام مضامین میں طالبِ علم یکساں مارکس لے ایسا ممکن نہیں ۔ پھر یہ بھی فطری ہے کہ وجہ کوئی بھی ہو لیکن کوئی ایک مضمون طالب علم کو بوجھل لگتا ہے ۔ اس مخصوص مضمون کی تیاری طالبِ علم کے لیے عذاب ہو تی ہے ۔ ایسے کسی بھی مضمون میں دلچسپی اجاگر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی اس مضمون میں بنیادی کمزوریوں کا جائزہ لے کر انہیں اپنے تئیں دور کرنے کی کو شش کی جا ئے، ورنہ اگلی جماعت میں ٹیچر تبدیل ہونے سے بھی اس کی کا کر دگی میں فرق پڑ سکتا ہے ۔
بچپن ، لڑکپن کی زندگی اور کسی بھی تعلیمی ادارے میں گزرنے والے ماہ سال ہر انسان کی زندگی کی بہترین یادوں کا اثاثہ ہوتے ہیں ۔ جن کی یاد عملی زندگی جسے جبری بھی کہہ سکتے ہیں ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہے اور انسان کچھ لمحے زندگی کی سختی کو بھول جا تا ہے ۔ والدین وہ مہربان ہستیاں ، جو سایہ دار درخت کی مانند بچوں کو اپنی ٹھنڈی چھاؤں میں ڈھکے خود کو موسمی تھپیڑوں کے حوالے کیے رکھتے ہیں ۔ لیکن ان ہی میں سے کچھ ایسے بھی ہو تے ہیں جوخود پر بیتی دھوپ کی تپش سے بچوں کو بھی احسانات جتا کر جھلساتے رہتے ہیں۔
بچے بن ماں باپ کے بھی ہوں تو شرارتوں اور کھیل سے با ز نہیں آتے ۔ تاریخ میں کئی ایسے بچوں کی کا میابی کا ذکر ہے جنہوں نے دنیا میں نام کمایا ۔ آپ بچوں کے والدین ہیں تو اس میں آپ کی مرضی کو پورا دخل ہے اور اپنی جبلی فطرت کے تحت ان سے محبت کرنا اور اپنی حیثیت کے مطابق ان کی بنیا دی ضرور یات کا خیال رکھنا بھی آپ کا فرض ہے۔ اٹھتے بیٹھتے ان پر احسان تھوپنے کے بجا ئے ان کے
مشا غل میں شریک ہوں ۔ ان کے دوستوں سے گپیں لگائیں ۔ ان کی کتابیں پڑھیں اور انہیں ان کی جانب شگفتہ انداز سے مائل کریں ۔ انہیں اپنی منشا سے کوئی گفٹ دینے کے بجا ئے ان کی چھوٹی چھوٹی کوشش میں کامیابی کی صورت میں انعام دیں اس طرح ان میں چیلنج قبول کرنے کی طرف مائل ہو نے تحریک ملے گی ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply