کل بل۔۔سلیم مرزا

واپڈا والوں نے بل دروازے کے نیچے سے پھینکا ، اور گھنٹی بجا کر بھاگ گئے ۔
باہر نکل کر دیکھا تو کوئی نہ تھا ۔پھر میری بل پہ نظر پڑی، میرے تو رونگھٹے ہی بیٹھ گئے ۔
دھیرے دھیرے میں بھی بیٹھ گیا ۔
یہ دس بیبیوں والا وہ قصہ تھا، جسے ایک بندے نے نہیں پڑھا تو اس کے ہاں اندھیرا چھاگیا تھا ۔
میں نے پورا بل ایسے پڑھا ۔جیسے فائز عیسی والے فیصلے کو فروغ نسیم نے پڑھا تھا۔
خوفناک انکشاف یہ ہواکہ۔۔”بائیس کو ملنے والے بل کی آخری تاریخ اکیس تھی ۔”
پانامہ سے پہلے ہی اقامہ کا فیصلہ کر چکے تھے ۔
ابھی میں اس صدمے سے جانبر نہیں ہوا کہ گھنٹی پھر بج گئی ۔میرا دو یونٹ تراہ نکل گیا ۔
“ہو نہ ہو لینڈ لارڈ ہوگا “؟
کرائے کے گھروں میں لوگ بھگوان سے زیادہ مالک مکان سے ڈرتے ہیں ۔اور ہمارا تو سارا ملک ہی لگتا ہے بھاڑے پہ چل رہا ہے ۔
حکومت تک “کریم “والے چلارہے ہیں ۔ائرپورٹ سے سواری لے آو ۔ائیر پورٹ پہ سواری چھوڑ آؤ، ۔
میں نے تھوڑا سا دروازہ کھول کر، کیپٹن صفدر کی طرح ڈرتے ڈرتے باہر دیکھا تو سادہ کپڑوں میں دو اہلکار کھڑے تھے ۔
میرانیچے کا سانس اوپر سے اوپر والا نیچے سے نکل گیا ۔
اس سے پہلے کہ کچھ پوچھتے، میں نے کہا۔
” بھائی اس محلے میں دو پولیس والے رہتے ہیں ایک وہ نیلے گیٹ والا ۔اور دوسرا وہ جس کے گھر کے باہر سفید رنگ کی ہونڈا سوک کھڑی ہے,جناب میں پولیس میں نہیں ہوں، جب بیگم کو آواز دوں تو کہتی ہے “آئی جی “۔۔
ایک نے اپنی سائیڈوالی جیب سے پلاس نکالا ۔اور میرے ہاتھ میں پکڑے بل کی طرف اشارہ کیا
“جمع ہوگیا “؟
“نہیں ۔۔۔۔ابھی ملا ہے “اتنا کہہ کر میں نے بل اس کی طرف بڑھایا ۔اس نے ایسے دیکھا جیسے عمران خاں ایکسرے دیکھتا ہے ۔
یا مجھ جیسا شریف آدمی راہ چلتے کچھ ایکسٹرا دیکھ لیتا ہے ۔
آئی ایم ایف کے نمائیندوں نے بل کی سائیڈ پہ لکھی ہسٹری پڑھی ۔جو پاکستان معیشت سے بھی زیادہ چوکس تھی ۔
ایک نے دوسرے کو پینسل پکڑائی اس نے بل کی سائیڈ پہ لکھا “بل فورا ً جمع کروائیں ورنہ کاٹ دیا جائے گا “اور کہا ۔
“اگر چار بجے تک یہ بل جمع نہ ہواتو موم بتیاں منگوا لینا “۔
انہوں نے دھمکی نما بل مجھے تھمایا اور چلتے بنے ۔
بل کیسے جمع ہوا ۔یہ ایک الگ کہانی ہے بس واپڈا والوں سے ایک التجاء ہے کہ بل دو چار روز پہلے دے جایاکرو ۔
کوئی کمزور دل جان سے بھی جاسکتا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply