دھی دا ہاڑا۔۔۔۔محمد عبدہ

عورت معاشرے کا ایسا ستون ہے جس کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی یافتہ، تہذیب یافتہ نہیں ہو سکتا۔  عورت اور معاشرے میں اس کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم، زیادتی اور منفی برتاؤ کا موضوع زیر بحث رہا ہے۔ نا جانے کیوں عورت کو معاشرتی طور پر کمتر سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی خواتین کو معاشرے میں ترقی کے برابر مواقع میسر نہیں ہیں۔ گھر  میں یا دفاتر محنت کش خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بے شمار تعلیم یافتہ خواتین جو مختلف شعبوں میں اپنی خدمات سرانجام دے کر ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں وہ گھروں میں بیکار بیٹھی ہیں کیونکہ آج بھی ہمارے معاشرے میں خواتین کی ملازمت کو برا سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے والدین صرف اس ڈر سے اپنی بیٹیوں کو نوکری کرنے کی اجازت نہیں دیتے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ بیٹی کو کام پر بھیج رہے ہیں اور بےشمار تو بیٹی کی کمائی کھا رہے ہیں۔

کل نویدہ کوثر بہن نے ایک نہایت حساس المیہ پر قلم اٹھایا کہ اولاد ہی والدین کی نافرمان نہیں ہوتی بلکہ والدین بھی بچوں کی ترتیب سے غفلت اور خودغرضی کی حد تک کام لیتے ہیں جس سے بعض اوقات اولاد مجبور ہوکر گھر سے بھاگ جاتی ہے یا تنگ آ کر خودکشی کر لیتی ہے۔
اس مسئلہ میں سب سے اہم شادی کے انتظار میں گھر بیٹھی بیٹیاں ہوتی ہیں جیسے تیسے اچھا پڑھ گئیں اور کوئی نوکری شروع کردی۔
اب آنے والے رشتے ناپسند ہونے لگتے ہیں لڑکی کی اعلی تعلیم اور کمائی کی وجہ سے رشتہ بھی ساتویں آسمان سے آیا چاہیے ، چند سال انہی  نخروں میں لڑکی کی عمر بڑھ جاتی ہے ساتھ نوکری کی کمائی سے گھر بھی چل رہا ہے اور بالآخر وہ وقت آتا ہے کہ اوّل تو رشتے آنے بند ہوجاتے ہیں اگر کوئی آئے تو فوراً ٹھکرا دیا جاتا ہے کہ بیاہ دی تو گھر کا خرچہ کون چلائے گا۔

میرے جاننے والی ایسی کتنی ہی بہنیں ہیں جن کی زندگی کا مقصد نوکری کرکے بہن بھائی والدین کی ضرورتیں اور بےجا فرمائشیں پوری کرنا رہ گیا ہے، ان پر کیا گزرتی ہے کس کرب سے دوچار ہیں گھر والوں کو کوئی پرواہ نہیں ہے انہیں بس ہر مہینے خرچہ چاہیے، بلکہ یہاں تک ظلم ہے کہ جن بھائیوں کو کما کر کھلاتی رہی گھر اور جائیداد سے سارا حصہ خود کھا گئے اور والدین اس ظلم میں شریک ہیں۔
بیچاری کچھ بول نہیں سکتی کہ اسلام نے والدین کی نافرمانی سے منع کیا ہے آواز بلند نہیں کرسکتیں کہ معاشرہ حتی کہ بھائی تک اپنی کمائی بند ہونے کے لالچ میں بہنوں کے کردار پر انگلی اٹھا دیں گے،
اپنی زندگی خاندان کیلئے قربان کرنے والی یہ لڑکیاں سارا دن نوکری اور گھر میں بھائی بھابھی کے رحم و کرم پر معاشرے کا وہ مظلوم کردار بن جاتی ہیں جن پر کوئی بات نہیں کرتا۔
ایسی لڑکیاں گھر اور ماحول سے فرار چاہتی ہیں حتی کہ زندگی سے اکتا کر خاتمہ تک کر لیتی ہیں۔

آج سے کچھ عرصہ پہلے میرے بہترین دوست سمندری کے نوجوان شاعر غلام حسین ندیم نے معاشرے کے اس سلگتے موضوع تلخ الفاظ میں بیان کیا تھا جو آج بھی رُلا دیتے ہیں۔ “دھی دا ہاڑا” کے نام سے لکھتے ہیں۔

بابل راج دُلاری ساں میں، تینوں بہت پیاری ساں میں
ہِک تے چاڑہ کھڈوندا سی توں، کِنے لاڈ لڈوندا سی توں
مینوں رانڑو کہدا سی توں، مَتھا چُم کے بہندا سی توں
پوہ دی ٹھار تے ہاڑ دی بھانبڑ، میری خاطر سہندا سی توں
توں تے کہنا مانڑ سی مینوں، آکھدا اپنڑی جان سی مینوں
میرے دکھ تے رو پیندا سی، مُڑکا تیرا چُو پیندا سی

اَج اے کیڑی ہونڑی چُلھی، میری شکل سیانڑی بُھلی
بابلا اَج کی تینوں ہویا، اَکھاں وِچو لہو اے چویا
میرے کھیڈ کھڈونڑے بُھلے، قہر کروڑ دے جھکڑ جُلھے
میرے گَل توں رَسا پایا، تیری ہتھیں ٹوکا آیا
مینوں اَج توں مارنڑ لگا ایں، ساری کھیڈ وگاڑن لگا ایں

ہُنڑ جاہل دے پَلے پاؤنا اے، میں تھوں اپنڑا جیون کھونا اے
جُھوتی مُوٹھی غیرت پِچھے، مینوں پاہے لاؤڑاں چاہنا اے
او میں وی تے انسان آں ابا، میرے وی ارمان آں ابا
میرا بَر وی پیارا ہووے، پڑھیا لکھیا تارا ہووے
عقلمند سواؤ ہووے، حد و ودھ کماؤ ہووے
ویلے دے نال کِنج رواں گی، انی اوکڑ کنج سوواں گی
میں تے اِنج نئیں کرنا ابا، روز روز نئیں مرنا ابا

میں تے دُھر توں دکھڑے سہندی، فیر وی منہ ہوں کُج نئیں کہندی
مینوں زندہ گڈدے رہے نیں، جنگلاں دے وِچ چھڈدے رہے نیں
اَج وی نال قرآن ویاہ ون، ظالم اے کرتوت وکھاوان
وَنی دی سُولی تے چاڑھن، سائیں مَرے تے نال ای ساڑن
مینوں پیر دی جُتی آکھن ، کَل موہی تے کُتی آکھن
فیر وی میں بُلاں نوں سیتا، شملہ اُچا تیرا کیتا

وَنڈی پۓ تے ہس بلاندے، ورثہ اپنڑے ناں لکھ واندے
حصہ میرا وِیر لے جاندے،فیر وی دل تے تیر چلاندے
اَجے وی میں بھرواں پِٹی، اَجے وی میں ای لہو دی چِٹی

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے دیس دے او پردھانوں، چنگے او ہمدرد انسانوں
مینوں نان اس حال تے چھڈو، ایس ہنیرے وچو کَڈو
رب رسول دا مَنو کھنڑا، چَھڈ دیو پیر دی جُتی کہنڑا۔

Facebook Comments

محمد عبدہ
مضمون نگار "محمد عبدہ" کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور حالیہ کوریا میں مقیم اور سیاحت کے شعبے سے تعلق ہے۔ پاکستان کے تاریخی و پہاڑی مقامات اور تاریخ پاکستان پر تحقیقی مضامین لکھتے ہیں۔ "سفرنامہ فلپائن" "کوریا کا کلچر و تاریخ" اور پاکستانی پہاڑوں کی تاریخ کوہ پیمائی" جیسے منفرد موضوعات پر تین کتابیں بھی لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply