• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بنگلہ دیش کے لئے بابائے قوم اور نظریہ ناگزیر کیوں؟-رانا شعیب الرحمٰن خان منج

بنگلہ دیش کے لئے بابائے قوم اور نظریہ ناگزیر کیوں؟-رانا شعیب الرحمٰن خان منج

کسی بھی ملک کا بابائے قوم اور اس ملک کا نظریہ اس قوم کی بقا ، اتحاد یگانگت کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے. آج بنگالیوں نے اپنے بابائے قوم کے ساتھ جو کچھ کر دیا  ہے،اپنے ہاتھوں سے وہ کِلا اکھاڑ دیا جس پر قوم کو باندھا گیا تھا کسی قوم کے اتحاد کو قائم رکھنے کے لئے اسے مضبوط نظریے کی کھونٹی سے باندھا جانا ضروری ہوتا ہے تاکہ انہیں آزادی کے مقصد سے روشناس کروایا جاتا رہے۔بنگلہ دیش میں عوامی لیگ حسینہ واجد کی حکومت بنگالی عوام میں بھارتی سرپرستی میں ایسا نظریہ راسخ کرنے میں کوشاں رہی جس میں پاکستان سے نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ،یہاں تک کہ اس نظریے کی ترویج کے لئے ہزاروں جھوٹی داستانیں گھڑ  کر عوام میں پھیلائی گئیں، جن میں ہزاروں عصمت دریاں اور لاکھوں قتل شامل تھے، گوکہ بنگلہ دیش کا ایک کثیر سنجیدہ طبقہ ان بناؤٹی داستانوں پر یقین نہیں رکھتا پھر بھی جب حکومت نصابی کتب میں ایسی داستانیں شامل کرکے طلبہ کو پڑھانے کی کوشش کرے تو بعض سادہ لوح طلبہ ان پر یقین بھی کر بیٹھتے ہیں۔

ماضی میں مختلف ادوار میں عوامی لیگ کی مخالف بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی بیگم خالدہ ضیاء کی حکومت بھی رہی ہے لیکن وہ بھی عوام کو نیا نظریہ ،نیا بابائے قوم دلانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ حالانکہ ان کے شوہر جنرل ضیاء الرحمٰن کی ایما پر شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل کیا گیا تھا ،اگر کسی قوم سے اس کا بابائے قوم اور اس کی آزادی کا مقصد اور نظریہ چھن جائے تو اس قوم کا اتحاد باقی نہیں رہتا۔ ایک طرف سے دیکھا جائے تو نظریہ بھوکی اقوام کو بہلانے کے کام بھی آتا ہے جب بھوکی اقوام حکومتوں کے گلے پڑنے کو آئیں تو ان کے ہاتھ میں نظریہ کا لولی پوپ پکڑا دیا جاتا ہے، جب قومیں بھوک اور افلاس سے نکل آتی ہیں تو بنیادی نظریہ ان کے لئے اتنا اہم نہیں رہتا جس طرح امریکی عوام کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ جارج واشنگٹن نے ان کو برطانیہ سے آزادی کیسے دلوائی۔ ان کے نزدیک ڈالر پر جارج واشنگٹن کی تصویر کے علاوہ کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ دولت مشترکہ کے تمام ممالک برطانیہ کی کالونیاں رہے ہیں، پاکستان سمیت تمام رکن ممالک آج بھی تاج برطانیہ کے تحت اس تنظیم کا حصہ ہونے پر فخر کر رہے ہیں۔

بنگلہ دیش کی سابقہ حسینہ حکومت اپنی عوام کو جو نظریہ دے رہی تھی اس میں پاکستان کے لئے انتہائی نفرت شامل تھی ،پاکستان کو ایک ظالم سامراج کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا، جس سے آزادی حاصل کرنا بنگالی عوام کے لئے ناگزیر ہوچکا تھا، بنگلہ دیش کے وجود میں آتے ہی اصل بانی بنگلہ دیش بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ڈھاکہ میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ ہم نے نظریہ پاکستان خلیج بنگال میں ڈبو دیا۔

آج بنگلہ دیشی قوم کے بابائے قوم کے مجسمے گرائے اور نذر آتش کیے جا رہے ہیں، بھارت کی طرف سے بنگلہ دیشیوں کو دیا گیا پاکستان کی نفرت پر قائم بنیادی نظریہ اسی طرح خلیج بنگال میں غوطے کھا رہا ہے جس طرح بھارتیوں کے مطابق نظریہ پاکستان غوطے کھا رہا تھا ۔آج بنگلہ دیش کے سامنے دو راستے ہیں، ایک تو شیخ مجیب الرحمٰن کو بابائے قوم قائم رکھا جائے اور نیا نظریہ پیدا کرکے شیخ مجیب الرحمٰن کے افکار کو اپنی مرضی کے معنی پہنا دیئے جائیں، جیسے پاکستان کا ہر سیکولر لبرل یہاں تک کہ نیم مذہبی اور کٹر  مذہبی  طبقہ بھی بابائے قوم پاکستان کے افکار کو اپنے حق میں دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے ۔

موجودہ ترکیہ کی مثال آپ کے سامنے ہے ،موجودہ صدر طیب اردگان کے ذاتی افکار و نظریات ترکی کے بابائے قوم مصطفیٰ کمال پاشا سے بالکل متضاد اور متصادم ہیں لیکن انہوں نے مصطفیٰ کمال پاشا کے افکار کو اپنے موجودہ نظریات سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اپنے معانی پہنا دیئے ہیں۔

دوسرا راستہ یہ ہے کہ نیا بابا اور نیا نظریہ بنایا جائے اور اپنا نیا یوم پیدائش پیدا کیا جائے جس پر پوری قوم کو یکجا کیا جائے ،جیسے موجودہ سعودی عرب کے وزیر اعظم پرنس محمد بن سلمان نے اپنے یوم الوطنی 23 ستمبر کے ساتھ ساتھ یوم تاسیس کے نام سے 22 فروری کا دن منانے کا اعلان کیا ۔ان کے مطابق موجودہ سعودی نظام حکومت ان کے دادا ملک عبدالعزیز کا وضع کردہ ہے جو تیسری سعودی حکومت کے بانی ہیں، جبکہ پرنس محمد بن سلمان اپنے آپ کو پہلی سعودی حکومت کے ساتھ جوڑ رہے ہیں جس کا آغاز 22 فروری 1727 کو ہوا تھا۔ بالکل اسی طرح بنگلہ دیش بھی اپنی آزادی کی تاریخ کو 14 اگست 1947 پر دوبارہ لا سکتا ہے، اسی کو اپنی اصلی آزادی تصور کرکے نئے نظریئے میں 16 دسمبر 1971 کو ایک تاریخی حادثہ قرار دے دیا جا سکتا ہے ،جیسے دو بھائیوں میں سے ایک بھائی فاصلے پر  نوکری  یا کسی مجبوری کی بنا پر جوائنٹ فیملی میں سے علیحدگی اختیار کر لیتا ہے۔

ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان میں بنگالیوں کے کردار اور ان کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ،پاکستان بنانے والی جماعت مسلم لیگ کی بنیاد بھی بنگال میں رکھی گئی تھی، اگر بابائے قوم محمد علی جناح غیربنگالی ہونے کی وجہ سے بنگلہ دیشیوں کو قبول نہ ہوں تو ان کی جگہ نواب سلیم اللہ خان، حسین شہید سہروردی، فضل حق ‘کسی کو بھی نیا بابائے قوم بنایا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یاد رہے نظریئے کا یہ لولی پوپ اس وقت تک نہایت ضروری ہے جب تک ملک ترقی پذیری سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک  کی صف میں شامل نہیں ہو جاتا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply